ہمارے آج اور کل میں کوئی فرق پیدانہیں ہوا، آج سے پچاس سال قبل16 دسمبر کو جہاں کھڑے تھے آج بھی یہی کھڑے ہیں، گوادر کا دھرنا اس کی مثال ہے، کل بھی اپنے بیگانے اس ملک کے خلاف سازش کر رہے تھے آج بھی صورت حال مختلف نہیں ہے کل بھی حق اور بنیادی حقوق کا سوال تھا آج بھی یہی سوال ہے پاکستان قائم ہواتو بھارت ہمیں توڑنے کے لیے متحرک ہوگیا آج بھی اس کے کل بھوشن اسی کام کے لیے متحرک ہیں، ملک کے مختلف علاقوں میں بے چینی کی وجہ حکمرانوں کی بد عہدی ہے، ملک کی سیاسی جماعتیں آج بھی کل کی طرح اپنے اقتدار کے لیے سرگرم ہیں اور کسی نے یہ سوال نہیں اٹھایا اور نہ پارلیمنٹ کے سامنے اس سوال کا جواب لینے کے لیے دھرنا دیا کہ پاکستان کیوں توڑ دیا گیا، یہ ملک اس طرح چیرا گا جیسے کسی انسان کو دو ٹانگوں سے پکڑ کر درمیان سے چیر کر دو حصوں میں تقسیم کردیا جائے یہ واقعہ امت مسلمہ کے منہ پر زناٹے دار تھپڑ سے کم نہیں تھا مگر او آئی سی خاموش رہی،سانحہ سقوط ڈھاکہ کو آج 50 سال ہو رہے ہیں آج بھی قوم باقی ماندہ پاکستان کی سلامتی سنگین خطرات دیکھ رہی ہے اور خطرات میں گھری ہوئی ہے نمناک آنکھوں اور متفکر سوچوں کے ساتھ ملک کے دولخت ہونے کی یاد تازہ کر رہی ہے اور کفِ افسوس ملتے ہوئے ملک کی قومی سیاسی‘ حکومتی اور عسکری قیادتوں سے ملک کی سلامتی و بقاء کیلئے فکرمند ہونے اور قومی اتحاد و یکجہتی کی فضا استوار کرنے کی متقاضی ہے۔
(جاری ہے)
آج ہی کے دن سات سال قبل 16 دسمبر 2014ء کو ہمارے سفاک دشمن بھارت نے پھر ہم پر اوچھا وار کیا اور اپنے بھجوائے ننگ انسانیت دہشت گردوں کے ذریعے آرمی پبلک سکول پشاور کے دوسو کے قریب بے گناہ و معصوم بچوں اور ان کے اساتذہ کو اپنے جنونی سفلی جذبات کی بھینٹ چڑھا دیا۔ ان معصوموں کے خون سے رقم ہونیوالی ہماری یہ تاریخ انتہائی کربناک اور دل ہلا دینے والی ہے اور گھناؤنی بے رحم سازشوں کے مقابل ہمہ وقت الرٹ رہنے کی متقاضی ہے کیونکہ آج یہ مکار دشمن بلوچستان‘ گلگت بلتستان اور دوسرے شمالی علاقہ جات سمیت ملک کے مختلف حصوں میں سقوط ڈھاکہ پر منتج ہونیوالے مشرقی پاکستان کے حالات جیسی صورتحال پیدا کرنے کی اعلانیہ سازشوں میں مصروف ہے اور اسی تناظر میں خود نریندر مودی پاکستان کی سلامتی خدانخواستہ تاراج کرنے کی بڑ مارتے نظر آتے ہیں۔
آج سے 50 سال قبل 16 دسمبر کا بدنصیب و سیاہ دن 71ء کی پاک بھارت جنگ کے دوران مکتی باہنی کی گھناؤنی سازشوں سے پاکستان کے دولخت ہونے پر منتج ہوا اور ہمیں مشرقی پاکستان میں جنرل نیازی کی زیرکمان پاک فوج کے سرنڈر ہونے اور بھارتی فوجی جرنیل اروڑہ کے آگے ہتھیار ڈالنے کی انتہائی تکلیف دہ ہزیمت بھی اٹھانی پڑی۔ یہ ہماری قومی تاریخ کا سیاہ ترین باب ہے جو ملک کی سلامتی کے تحفظ و دفاع کے حوالے سے ہماری حکومتی‘ سیاسی اور عسکری قیادتوں سے آئندہ ایسی کسی سفاک غلطی کا اعادہ نہ ہونے دینے کا ہمہ وقت متقاضی رہتا ہے۔
بھارت نے اس سانحہ کے ذریعے پاکستان کو دولخت کرکے اسے کمزور کرنے کے مقاصد پورے کئے اور اسی سرشاری میں اس وقت کی بھارتی وزیراعظم اندراگاندھی نے بڑ ماری تھی کہ آج ہم نے نظریہ پاکستان کو خلیج بنگال میں ڈبو کر مسلمانوں سے اپنی ہزار سالہ غلامی کا بدلہ لے لیا ہے۔ بے شک اس ہزیمت اور شکست خوردگی کے ماحول میں بھی اس وقت کی سیاسی اور عسکری قیادتوں نے دفاع وطن کے تقاضے نبھانے کیلئے ملک کو ایٹمی قوت سے سرفراز کرنے کی کوششوں کا آغاز کرکے قوم کی مایوسیوں کا ازالہ کیا اور پھر ذوالفقار علی بھٹو نے اپنی کامیاب سیاسی اور سفارتی حکمت عملی کے تحت جنگی قیدی بنے اس وطن عزیز کے 95 ہزار فوجی اہلکاروں اور سویلینز کو دشمن کے تسلط سے آزاد کرایا اور اسکے زیر قبضہ پاکستان کے علاقے بھی اس سے چھڑوانے کی سرخروئی حاصل کی اور ان کے بعد کی قومی قیادتوں نے ملک کو ایٹمی قوت سے ہمکنار کرکے عملی طور پر ملک کا دفاع مضبوط اور ناقابل تسخیر بنایا مگر شروع دن سے ہماری سلامتی کے درپے ہمارا سفاک دشمن بھارت ہماری سلامتی کیخلاف آج پہلے سے بھی زیادہ گھناؤنی سازشوں میں مصروف ہے اور بھارتی وزیر داخلہ راج ناتھ یہ بڑ بھی مار چکے ہیں کہ پاکستان ”راہ راست“ پر نہ آیا تو ہم اسے دس پندرہ ٹکڑوں میں تقسیم کر دینگے۔
اسی طرح بھارتی وزیراعظم نریندر مودی جو مکتی باہنی کے متشدد رکن ہونے کے ناطے پاکستان دشمنی کا ٹریک ریکارڈ رکھتے ہیں‘ بلوچستان اور پاکستان کے شمالی علاقہ جات کو پاکستان سے الگ کرنے کی اپنے ذہن میں سمائی سازشوں کا اعلانیہ اظہار کرتے رہتے ہیں اور اس اظہار کا اعادہ انہوں نے گلگت بلتستان کے حالیہ انتخابات کے موقع پر بھی ان انتخابات کو متنازعہ قرار دلانے کی کوششوں کے ذریعے کیا۔
وہ اپنی ان سازشوں کی بنیاد پر ہی پاکستان میں اپنے نیٹ ورک کے ذریعے دہشت گردی پھیلا کر اسے انتشار کا شکار کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ بھارتی ”را“ کے قائم کردہ اس نیٹ ورک کے ذریعے ہی بھارتی دہشت گردوں کو افغان دھرتی پر تربیت دیکر اور انکی فنڈنگ کرکے افغان سرحد کے راستے پاکستان بھجوایا جاتا ہے جنہیں پاکستان میں بھارتی فنڈنگ پر پلنے والے سہولت کار دستیاب ہوتے ہیں جن کی معاونت سے وہ دہشت گردی کیلئے بھارتی متعین کردہ اپنے اہداف تک پہنچنے میں کامیاب ہوتے ہیں۔
16دسمبر 2014ء کو اے پی ایس پشاور میں بھی بھارتی سرپرستی میں دہشت گردی کی منظم واردات کی گئی جس کی یاد آج بھی قوم کو خون کے آنسو رلاتی ہے جبکہ بھارت آج مقبوضہ کشمیر میں اور کنٹرول لائن پر پہلے سے بھی زیادہ دہشت و وحشت کا بازار گرم کرتا نظر آتا ہے۔ گزشتہ سال پانچ اگست کو مقبوضہ کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت ختم کرکے اس پر شب خون مارنے کا مودی سرکار کا مقصد بھی درحقیقت پاکستان کی سلامتی پر اوچھاوار کرنے کی منصوبہ بندی کو عملی جامہ پہنانا تھا چنانچہ مقبوضہ وادی کے بھارتی فوجوں کے ہاتھوں محصور ہوئے آج 863 روز گزر چکے ہیں اور اس کیخلاف دنیا بھر میں عالمی قیادتوں اور نمائندہ عالمی اداروں کی جانب سے ہونیوالی مذمتوں اور علاقائی و عالمی امن کے حوالے سے تشویش کے اظہار پر بھی مودی سرکار ٹس سے مس نہیں ہوئی اور اس نے مقبوضہ وادی میں ہی نہیں‘ کنٹرول لائن پر بھی اشتعال انگیز فوجی کارروائیوں کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے جس میں کنٹرول لائن سے ملحقہ شہری آبادیوں کو بھی دانستہ طور پر نشانہ بنایا جارہا ہے تاکہ اس کیخلاف پاکستان کی جوابی کارروائی کو جواز بنا کر اس پر باقاعدہ جنگ مسلط کی جاسکے۔
ان بھارتی سازشوں سے آج پوری دنیا آگاہ ہے اور مودی سرکار کی جانب سے اپنے جنگی جنون کو عملی قالب میں ڈھالنا بھی بعیداز قیاس نہیں اس لئے آج سانحہ سقوط ڈھاکہ اور سانحہ اے پی ایس کی کربناک یاد کو تازہ کرتے ہوئے ہمیں ملک کی سلامتی کیلئے زیادہ فکرمند ہونا ہے۔ اس کیلئے قومی سیاسی حکومتی اور عسکری قیادتوں کا دفاع وطن کیلئے مکمل یکجہت ہونا اور اس ناطے سے دشمن کو سیسہ پلائی دیوار بننے کا ٹھوس پیغام دینا ضروری ہے۔
آج بدقسمتی سے ملک میں جاری سیاسی محاذآرائی جس نہج تک جاپہنچی ہے جس میں قومی ریاستی اداروں کے مابین بھی غلط فہمیاں پیدا کرنے کی سازش کی جارہی ہے‘ وہ دشمن کو ملک کی سلامتی کیخلاف کھل کر اپنی سازشوں کی تکمیل کا موقع فراہم کرنے کے مترادف ہے جبکہ آج ملک کی سلامتی کیلئے متفکر ہونے کی زیادہ ضرورت ہے۔ اگر آج بھارت ہم پر سرجیکل سٹرائیکس کی اعلانیہ منصوبہ بندی کئے بیٹھا ہے تو اس کا ٹھوس جواب ہمیں قورطانیہ کے عظیم لیڈر چرچل کا قول ہے”آپ ماضی سے جتنا زیادہ واقف ہوں گے اتنے ہی بہتر انداز میں مستقبل کی تیاری کر سکیں گے“مسلم لیگ ایک سیاسی جماعت تھی جو مسلمانوں کے سیاسی اور معاشی حقوق کیلئے قائم کی گئی تھی۔
1937ء کے انتخابات کے بعد مسلم لیگ کے رہنما ہندو مائنڈ کے بے نقاب ہونے کے بعد کانگریس سے بدظن ہوگئے اور مسلمانوں کیلئے علیحدہ وطن حاصل کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ 23 مارچ 1940ء کی قرارداد میں دو ریاستوں اور خودمختار صوبوں کی بات کی گئی تھی۔ جب ہندوستان کی تقسیم کا فیصلہ ہوگیا تو انگریزوں اور ہندووں نے گہری سازش تیار کی کہ مسلمانوں کو ایسا کٹا پھٹا لولا لنگڑا اور اپاہج پاکستان دیا جائے جو اپنے پاوؤں پر کھڑا نہ ہو سکے اور آزادی کے چھ ماہ بعد ہی مسلم لیگ ہندوستان میں دوبارہ شمولیت کیلئے بھیک مانگنے لگے قیام پاکستان کے بعد مشرقی پاکستان میں ہندو بیس فیصد تھے جو تعلیم تجارت اور بیوروکریسی میں بڑے بااثر تھے۔
قائد اعظم نے دستور ساز اسمبلی کی قرار داد کی روشنی میں اردو کو پاکستان کی قومی زبان قرار دیا جو پانچوں صوبوں میں رابطے کی واحد زبان تھی۔ مشرقی پاکستان کے ہندووں نے کانگریس کی آشیرباد سے زبان کے مسئلہ کو اُچھالا اور بنگالیوں میں اشتعال پیدا ہوا۔ قائداعظم کی رحلت اور لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان کے درمیان واحد سیاسی رشتہ کمزور پڑگیا اور مسلم لیگ مشرقی پاکستان میں انتخابات ہار گئی۔
تاریخ کا سبق یہ ہے کہ جب سیاسی اور جمہوری رشتے کمزور پڑ جائیں تو اتحاد اور قومی یکجہتی داؤ پر لگ جاتی ہے۔ سکندر مرزا غلام محمد اور محمد علی سول سرونٹس تھے جو کلونیل ذہنیت کے حامل تھے، انہوں نے کلونیل نظام کو جاری رکھا اور پاکستان کے دونوں بازو آئین اور جمہوریت کے رشتے میں منسلک نہ ہو سکے۔ غلام محمد نے اپنے اقتدار کیلئے خواجہ ناظم الدین کی حکومت کو ختم کر کے اور دستور ساز اسمبلی کو توڑ کر بنگالیوں کو مایوس کیا۔
بنگال سے تعلق رکھنے والے تین وزیراعظم برطرف کئے گئے۔ جنرل ایوب خان اور سکندر مرزا نے مارشل لاء نافذ کر کے مشرقی اور مغربی پاکستان کے رہے سہے سیاسی اور جمہوری رشتے پر کاری ضرب لگائی۔ مغربی پاکستان کی مقتدر اشرافیہ نے مشرقی پاکستان کو اپنی کالونی سمجھ کر عوام کا معاشی استحصال کرکے ان میں شدید احساس محرومی پیدا کیا۔ قرارداد پاکستان کیمطابق صوبائی خود مختاری دینے کی بجائے مضبوط مرکز کی سیاست کی گئی۔
بھارت کی خفیہ ایجنسی ”را“ نے بنگالیوں کی مایوسی اور بداعتمادی سے پورا فائدہ اُٹھایا۔ خفیہ ایجنسی ”را“ کے سابق افسر آر کے یادیو نے اپنی کتاب”مشن آر اینڈ ڈبلیو“ میں انکشاف کیا کہ اندرا گاندھی نے انیس سو ساٹھ میں آئی بی کے سینئر افسر آر این کاؤ کے ساتھ مل کر خفیہ منصوبہ تیار کیا جس کا مقصد مشرقی پاکستان بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں بغاوت کے جذبات کو تقویت دے کر ان کو علیحدہ ریاستوں میں تبدیل کرنا تھا۔
اس منصوبے کو ”کاؤ پلان“ کا نام دیا گیا۔ باوثوق شہادتوں کیمطابق شیخ مجیب الرحمٰن کو بھارتی خفیہ ایجنسی ”را“ سے 25 ہزار روپے ماہانہ وصول ہوتے تھے۔ حسینہ واجد نے شیخ مجیب الرحمٰن کی یادداشتوں پر مبنی کتاب میں تسلیم کیا ہے کہ مجیب الرحمن نے بنگلہ دیش کی آزادی کیلئے ایک خفیہ تنظیم قائم کر رکھی تھی۔ یہ کتاب آکسفورڈ نے شائع کی ہے جو مارکیٹ میں موجود ہے سقوط ڈھاکہ کی مرکزی ذمہ داری جنرل یحییٰ خان پر عائد ہوتی ہے جو کامل اختیارات کے مالک تھے۔
وہ اقتدار کے نشے سے باہر نکل کر حالات کا درست ادراک نہ کر سکے غیر جانبدار مورخین کے مطابق ذوالفقار علی بھٹو اگر چھ نکات پر سخت موقف اختیار نہ کرتے تو بھارت کا مغربی پاکستان کو چار ٹکڑوں میں تقسیم کرنے کا خواب بھی پورا ہو جاتا۔ سقوط ڈھاکہ کو اسکے پس منظر تاریخی ارتقاء اور معروضی حالات کی روشنی میں سمجھنے کی ضرورت ہے۔ ہم سقوط ڈھاکہ کے بنیادی اسباب سے سبق سیکھ کر ہی آگے بڑھ سکتے ہیں۔
سقوط ڈھاکہ کا سبق یہ ہے کہ سماجی انصاف اور سماجی جمہوریت سے ہی ریاست کو متحد رکھا جا سکتا ہے۔ 16 دسمبر پاکستان کیلئے ایک سیاہ اور خون آلود دن ہے جب دہشت گردوں نے پشاور میں اے پی ایس کے سکول پر دہشت گردانہ حملہ کرکے اساتذہ اور عملے سمیت 144 معصوم بچوں کو قتل کر دیا، اس خون آلود سانحہ کی یادیں آج بھی پاکستان کے عوام کے ذہنوں میں تازہ ہیں جو 16 دسمبر کو پوری پاکستانی قوم کو مغموم اور غمگین بنا دیتی ہیں۔