دوزخ اور جنت

جمعہ 28 جون 2019

Mir Afsar Aman

میر افسر امان

 قرآن شریف کی تعلیمات کے مطابق اس دنیا میں رہنے والوں انسانوں میں سے، دوزخ کافروں، یعنی نہ والوں کے لیے اور جنت مسلمانوں ،یعنی ایمان لانے والوں کے لیے بنائی گئی ۔ اس دنیا کے سارے انسان حضرت آدم  کی اولاد ہیں۔ فرق صرف اللہ کو اللہ ماننے والوں اور اللہ کو نہ ماننے والوں میں ہے۔اللہ کو نہ ماننے والے کافراور ماننے والے مسلمان ہیں۔

آخری سانس تک اگر کوئی کافراللہ پر ایمان نہیں لاتا تو اللہ اُسے جہنم میں ڈالے گا، جس کا ایدھن پتھر ہوں گے۔ کیا اس کا اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ جس جہنم کا ایدھن پتھر ہوں نگے اس کی آگ کتنے درجے تک دھکائی جائے گی، کہ اس سے پتھر بگلنے لگیں گے؟ کیا کوئی یہ تصور کر سکتا کہ انسان اپنی موجودہ انسانی جسم کے ساتھ، ایسا نہیں ہو جائے گا جیسے ہم اس دنیا کی عام آگ میں اگر کاغذکو ڈالیں تو وہ بھسم ہو جاتا ہے۔

(جاری ہے)

ایمان لانے کے بعد جب مسلمان اللہ کے احکامات کو دل سے مان کر نیک عمل کریں گے تو اللہ اُنہیں اپنی جنت میں داخل کرے گا۔ معلوم ہوا کہ یہ دنیا دارلعمل ہے۔ اس میں کیے گئے اعمال کی بنیاد پر آخرت میں کامیابی یا ناکام کا فیصلہ ہو گا۔ اسی بنا پر سزا یا انعام ملے گا۔یعنی ان اعمال کی ہی وجہ سے دوزخ یا جنت میں جگہ ملے گی۔ اس دنیا میں کیے گئے اعمال کی وجہ سے نافرنان دوزخ اور نیک عمل کرنے والے جنت میں داخل کیے جائیں گے۔

جب اللہ تعالیٰ نے نافرمانی اور تکبر پر ابلیس کو سزا دے کر جنت سے نکالا تھا ۔ ابلیس نے اللہ سے التجا کی تھی کہ اے اللہ! مجھے تو یہ اجازت دے کہ میں تیرے بندوں کوآگے سے پیچھے سے، دائیں سے بائیں سے تیرا نافرمان بناؤں۔ اللہ تعالیٰ نے اجازت تو دے دی مگر ساتھ یہ بھی کہا کہ تم میرے نیک بندوں کو میرے راستے سے نہیں ہٹا سکے گا۔ نہ ہی کسی انسان کو ذبردستی گمراہ کر سکے گا۔

تو صرف ان کے دلوں میں وسوسے ڈال کر ان کو بہتر مستقبل کا جھوٹا جھانسا دے کر اللہ کے راستے سے ہٹانے کی کوشش کر سکے گا۔ اللہ تعالیٰ نے شیطان کر خبردار کیا کہ انسانوں میں جو تیری پیروی کریں گے ان سب کو تمھارے سمیت جہنم کو پھر دوں گا۔ ابلیس نے اللہ سے اجازت ملنے کے بعد سب سے پہلے انسان حضرت آدم  کو ورغلایا۔ کہاکہ اللہ نے تمھیں فلاں درخت کو ہاتھ نہ لگانے سے اس لیے منع کیا کہ تمھیں کہیں ابدی زندگی اورلازاوال سلطنت نہ حاصل ہو جائے۔

اسی لالچ میں آخر حضرت آدم شیطان کے جھانسے میں آکراللہ کی نافرمانی کی۔
قرآن میں جہاں جہاں جہنم کا ذکر آیا وہاں ساتھ ساتھ ہی جنت کا بھی ذکر ہے۔ اللہ تعالیٰ قرآن میں فرماتا ہے کہ”یہ دو فریق ہیں جن کے درمیان اپنے رب کے معاملے میں جھگڑا ہے۔ ان میں سے وہ لوگ جنہوں نے کفر کیا اُن کے لیے آگ کے لباس کاٹے جا چکلے ہیں، اُن کے سروں پرکھولتا ہوا پانی ڈالا جائے گا جس سے اُن کی کھالیں ہی نہیں پیٹ کے اندر کے حصے تک گل جائیں گے اوراُن کی خبر لینے کے لیے لوہے کے گزر ہوں گے ۔

جب کبھی وہ گھبرا کر جہنم سے نکلنے کی کوشش کریں گے پھر اُسی میں دکھیل دیے جائیں گے کہ چھکو اب جلنے کی سزا کا مزا۔(د وسری طرف) اور جو ایمان لائے اور جنہوں نے نیک عمل کیے اُن کو ایسی جنتوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہ رہی ہونگی۔وہاں وہ سونے کے کنگنوں اور موتیوں سے آراستہ کیے جائیں گے اور ان کے لباس ریشم کے ہوں گے، ان کو پاکیزہ بات قبول کرنے کی ہدایت بخشی گئی اور انھیں خدائے ستودہ صفات کا راستہ دکھایا گیا“ (سورة الحج:۱۹تا۲۴) ان آیات میں دنیا میں آباد،دو فریقوں کا ذکر ہے۔

ایک ماننے والے اور ایک نہ ماننے والے۔ماننے والا وہ فریق ہے جو انبیاء  کی بات مان کر اللہ کی صحیح بندگی کرتا ہے اور دوسرا فریق جو انبیاء کی بات نہ مان کر کفر کی راہ اختیار کرتا ہے۔ ان ہی کافروں یعنی نافرمانوں کے لیے دوزخ اور مسلمانوں یعنی ماننے والوں کی لیے جنت بنائی ہے۔یہ زندگی فانی ہے ختم ہو جائے گی۔ آخرت کی زندگی ہمیشگی کی ہے، جسے ہمیشہ باقی رہنا۔

اد دنیا میں کفر کرنے والے جہنم میں ڈالے جائیں گے جہاں وہ ہمیشہ رہیں گے۔ سزاکاٹتے رہیں گے۔ ماننے والوں کو جنت میں داخل کیا جائے گا وہاں وہ ہمیشہ رہیں گے۔جس چیز کی طلب کریں گے اللہ کے فرشتے انہیں پیش کر دیں گے۔ جنت میں نہ کوئی بیمار ہو گا نہ کسی کو دوبارہ موت آئے گی۔ دنیا میں جن چیزوں سے اللہ کے حکم کے مطابق نیک لوگ روکے ہوئے تھا۔وہاں جنتیوں کووہ چیزیں وافر مقدار اور اعلیٰ کوالٹی کی ملیں گی۔

کچھ باختیار لوگ کفر اور ایمان کی اس بحث سے ہٹ کر بھی اللہ کے بندوں کو عذاب میں مبتلا کرتے ہیں۔ جو ظلم کی ایک شکل ہے۔ اللہ اپنے بندوں پر ظلم کبھی بھی نہیں پسند کرتا۔کیا پاکستان میں اس وقت مہنگائی، بے روزگاری، بجلی گیس کے بلوں میں اضافے کی وجہ سے عوام ظلم میں مبتلا نہیں؟ کیا سیاست دانوں کو اللہ کا خوف نہیں؟کیا ان کوحضرت علی  کا قول جو اکثر بیان کیا جاتا ہے کہ کفر کے حکومت تو قائم رہ سکتی ہے ظلم کی حکومت دیر پا نہیں رہ سکتی ؟کیا با اختیار لوگوں نے یہ نہیں سمجھنا کہ اس دنیا میں اچھا رویہ اختیار کریں۔

اپنے اعمال سے اس دنیا کو جہنم نہ بنائیں۔ بلکہ با اقتدار لوگو اللہ کی ان ہدایات پر احسن طریقے سے عمل کرنا چاہیے۔ آج ہمارے معاشرے میں ہمارے سیاست دانوں کے غلط اعمال کی وجہ سے امیر، امیر تر ہوتا جا رہا ہے اور غریب ،غریب تر ہوتا جا رہا ہے۔ کیاغریبوں کے بچے کچرے کے ڈھیروں میں سے رزق تلاش کرتے نظر نہیں آتے؟۔ کیا ہمارا معاشرہ اُنہیں خود نہیں دیکھ رہا ہو تا۔

اسی طرح سیاسی پارٹیوں کو معلوم نہیں کہ ہمارے ملک کے پچاس فی صد سے زاہد لوگ خط غربت کی لکیر سے نیچے زندگی نہیں گزار رہے؟کیا ان سیاست دانوں ،جنہوں نے پار لیمنٹ میں مزدور کی دھاڑی دو ہزار سے بھی کم رکھی ہے، ان کو اندازہ م نہیں کہ مزدور کو پورے مہینے کے تیس دن کام بھی نہیں ملتا تو کس طرح اپنے گھر کا خرچہ چلاتا ہو گا؟کیا گیس، بجلی کی بلوں اور بڑھتی ہو مہنگاہی کی وجہ سے عام عوام کا جینا دوبھر نہیں کر دیا گیا؟۔


 ضرورت اس عمل کی ہے کہ حکومت بڑی بڑی گاڑیوں والوں،زمینداروں،سرمایاداروں،کارخانہ داروں اور اہل ثروت کے موجودہ ٹیکس کو ڈبل کر دے۔ اگر ان کی لاکھوں اربوں کے سرمایا میں کچھ کمی ہو جائے تو ان کا جینا دوبھر نہیں ہو سکتا، پھر بھی وہ سکھ چین سے رہ سکیں گے،اس لیے کہ ان کے پاس وافر مقدار میں سرمایا ہے۔اس سے صرف عام عوام اور غریبوں کو ریلیف ملے گا۔

ملک میں بڑھتی ہوئی پریشانی اور ظلم کچھ کم ہو جائے گا۔لوگ سکھ کا سانس لیں گے۔ مگر کیا کیا جائے کہ ٹیکس لگانے والے پارلیمنٹ میں بیٹھے سارے لوگ خود سیاست دان سرمایہ دار اور صاحب ثروت ہیں۔ پارلیمنٹ میں بیٹھے لوگ ایسا نہیں کریں گے ۔ کیونکہ اس سے ان کے ٹیکس دینا پڑے گا۔ یہ حضرات تو آئے دن اپنی سہولتیں کے لیے تو بل مکمل اکثریت سے پاس کر لیتے ہیں۔

مگر ظلم سہنے والے پسے ہوئے عوام اور خاص کر غریبوں کے لیے بنائے گئے بجٹ میں اپنے اوپر ٹیکس ڈبل کرنے کا مشورہ نہیں دیتے ہیں۔بس کرپٹ لیڈروں کی رہائی کے لیے بحثیں کرتے ہیں۔ آل پارٹی کانفرنسز منعقد کرتے ہیں۔ کیا ان جیسے لوگوں کے اعمال سے تنگ آکر عوام خود کشیاں کرنے پر مجبور نہیں ہوجائیں گے؟۔
 صاحبو! اللہ قرآن میں فرماتا ہے کہ کسی کا حق مارنے والے کو نہیں بخشوں گا۔

جب تک جس کا حق مارا گیا وہ نہ بخش دے۔ کیا ہمارے سیاستدان پاکستانی عوام کا حق نہیں مار رہے؟ اس کے ساتھ ساتھ بااختیارحلقوں اور سیاست دانوں کو اور سزا و جزا کا خدائی قانون بیان کرنے کا مقصد ہی یہ ہے کہ سب کو ایک دن مرنا ہے۔ مرے سے پہلے ہمیں اپنی ایمان کی تجدیدکرنی چاہیے۔ اللہ کو اللہ مان کر اس کے بندوں پر اللہ کے بتائے ہوئے احکا مات کے مطابق اقدام کرنا چاہیے۔

مقننہ ہونے کی وجہ سے یہ کام ملک کی پارلیمنٹ ہی کر سکتی ہے۔ اسی کے قبضے میں ملک کے خزانے ہیں۔وہ ہی مدینے کی فلاہی اسلامی ریاست کی طرز پر غریبوں کی سعولتوں کے لیے قانون پاس کر کے اللہ کے نیک بندے بن سکتے ہیں۔مدینے کی اسلامی ریاست کا قانون امیروں کی طرف سے سرمایا غریبوں کی طرف منتقل کرنے کا قانون تھا۔ کیا سیاست دان غریبوں کو مشکلات میں ڈال کر اللہ کے نافرمان بندے بن رہے ہیں؟ کیا پارلیمنٹ کے ممبران ،نا فرمان بندے بن کر اللہ کی مقرر کی ہوئی سزا کے لیے تیار ہیں؟ یا پسندیدہ بندے بن کر انعام کے حقدار بننا چاہتے ہیں! اللہ ہم سب کو اپنا پسندیدہ بندہ بننے کی توفیق عطا فرمائے آمین۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :