افغانستان :تحریک اسلامی اور کیمونسٹوں میں تصادم ۔ قسط نمبر 3

منگل 26 اکتوبر 2021

Mir Afsar Aman

میر افسر امان

جیسا کے اوپر بیان کیا گیا کہ ذوالفقار علی بھٹو کی پیپلز پارٹی کے دور میں سردار داؤد نے پاکستان کا دوسرادورہ کیا تھا۔ لاہور شالیمار باغ میں ایک سیاستدان دان نے اس سے کہا تھا کہ افغانستان اور پاکستان کو ایک کنفیڈیشن نہیں بنا لینی چاہیے؟ تو سردار داؤد نے کہا تھا کہ اس کے لیے پہلے دونوں ملکوں کے عوام کے درمیان ایسی سوچ پیدا کر کے ممکن ہو سکتا ہے۔

اسی وجہ سے سردار داؤد کو روس نے راستے سے ہٹا دیا تھااور اپنے دوسرے پھٹو کو اقتدار دے دیا۔افغانستان اور پاکستان کے عوام جو اسلامی سوچ رکھتے ہیں ان کے درمیان پرانے تعلوقات ہیں ۔ اسی لیے روس کے ساتھ لڑنے والے تحریک اسلامی کے مجائدین نے بھٹو سے حربی امداد کے لیے رابطہ قائم کیا تھا۔بھٹو نے ان کی بات سنی تھی۔

(جاری ہے)

گو کہ بھٹو خودلبرل اور سوشلسٹ سوچ کا حامی تھا۔

اس نے پاکستان میں اسی نعرے سے اقتدار بھی حاصل کیا تھا مگر بحر حال ایک مسلمان تھا۔ وہ پڑھا لکھا اور جہاندیدہ شخص تھا۔ اسے معلوم تھا کہ کیسے روس نے عثمانی ترکوں سے وسط ایشیا کی اسلامی ریاستیں چھینی ہیں۔ اپنی سرحدیں دریائے ”آمو“تک لے آیا ہے۔ اور آگے افغانستان ، بلوچستان اور پاکستان کو ہڑپ کر کے گرم پانیوں تک رسائی حاصل کرنے کے عزاہم رکھتا ہے۔

لہٰذا بھٹو نے افغانستان کے مجائدین کی حربی امداد کی۔ مجائدین نے درے سے اسلحہ خرید کر روسسے لڑتے رہے۔اصل بات یہ ہے جو ڈاکڑ علامہ شیخ محمد اقبال حکیم الامت نے مسلمانوں کو سمجھانے کی کوشش کی تھی کہ :۔
میں تجھ کو بتاتا ہوں تقدیر امم کیا ہے
شمشیر سناں، اول طاؤس و رباب آخر
ترکی کے مرد مجائد صدرطیب اردگان نے اس شہر کی تشریح ارتغل ڈرامہ چلا کر دنیا پر واضع کی ہے۔

کہ کیسے” کائی‘ ‘قبیلہ اللہ کا نام لے تلوار چلاتاتھا اور اس کے سردار عثمان نے دنیا کے چار براعظموں پر عثمانی خلافت کی بنیادرکھی تھی۔اور پھر طاؤس و رباب والے کمال اتاترک نے اسے صلیبیوں کے دباؤ میں آکر کے اسلام دشمن سیکولر نظام حکومت قائم کیا۔
آئیے ذراعثمانی ترکوں کی وسط ایشا کی مسلم ریاستوں پر نظر ڈالتے ہیں کہ کس طرح زارِ روس کی حکومت میں اور اس کے بعد اشتراکی انقلاب کے زمانے میں روسیوں نے ان علاقوں پر قبضہ کیا تھا۔

(یہ علاقے بعد میں افغان مجائدین کے جہاد کی برکت سے روس کی چنگل سے آزاد ہوئے)یہاں پر پروفیسر خورشید چیئرمین انسٹیٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز اسلام آبادکا ذکرنا فخرمحسوس کرتے ہیں کہ جنہوں نے روس کی افغانستان پر حملے سے کچھ عرصہ پہلے اپنے ادارے کے کچھ دانشورں کو اس کام پر لگایا تھا کہ اس امر کی تحقیق کریں کہ کیا وجہ ہے کہ مسلم دنیا کی کئی ریاستیں مغربی استعمار کے چنگل سے آزاد ہوگئیں۔

مگرسرخ ریچھ روسی استعمار سے ترکی سے چین کے سنکیاک تک کے علاقے کی مسلم ریاستیں ابھی تک کیوں آزاد نہیں ہوئیں؟دانشور ترکی گئے وہاں سے مواد اکٹھا کیا۔ پھر روس خفیہ طریقے گئے وہاں سے بھی مواد جمع کیا۔ان کی تحقیق سے پتہ چلا کہ تین سوسال تک لڑائیوں کے بعد زار روس اور بعد میں اشتراکی روس نے اس علاقوں پر قبضہ کیا تھا۔ان میں سے ایک مصنف ثروت صعولت بیان کرتے ہیں کہ” سرخ جنت دکھانے والیوں کے ہاتھوںآ زادی حُریت اور انسانی حقوق کا پروپیگنڈہ کرنے والوں کے ہاتھوں اور ساری دنیا کو مساوات اور انصاف کا درس دینے والوں کے ہاتھوں ان کی اپنی سرزمین پر اپنوں کے ساتھ سلوک کی داستان ہے۔

تاریخ کے تسلسل کو جس طرح سبوتاژ کیا گیا۔ انسانی خون کو ارزاں کیا گیا۔ بہیمیت اور درندگی کو جس طرح شرمندہ کیا گیا۔ اس کی روح فرساداستان اس میں کئی پہلو سوچ بچار کے ہیں۔ ۔۔الوالالباب کے لیے۔۔۔۔ کئی سبق عبرت ہیں۔۔۔ اولولا ا بصار کے لیے۔۔۔ کئی عنوان کام کرنے کے ہیں۔ کچھ کھلے الفاظ میں لکھے گئے ہیں اور کچھ بین ا لسطور بیان ہوئے،درس عبرت لینے والوں کے لیے۔

۔۔ اس میں پیغام ہے۔ ایک پکار ہے، نئی جوت جگانے اور خون کو گرمانے کی دعوت ہے۔ ثروت صعولت لکھتے ہیں:۔
ایدل یورال،۱۹۱۷ء کے کیمونست انقلاب سے پہلے مسلمانوں کی سیاسی سر گرمیوں کا سب سے بڑا مرکز تھا۔سولہویں صدی میں زار روس کی حکومت قائم ہونے تک یہاں کے تقریباً تمام باشندے مسلمان تھے۔لیکن روس کی ساڑھ تین سو سالہ دور حکومت میں مسلمانوں کو مسلسل زمینوں اور جائیدادوں سے بے دخل کیا گیا اور ان کی جگہ روس کے مسحیی باشندوں کو آباد کیا گیا۔

اس علاقے کے مسلمان جدید تعلیم کی طرف پہلے سے راغب ہوئے، اس لیے تعلیم کے لحاظ سے روس کے تمام مسلمانوں سے بڑھے ہوئے تھے۔ روسی مسلمانوں کے پیشتر بڑے رہنما اسی علاقے سے تعلق رکھتے تھے۔۱۹۰۷ء میں مسلمانوں پر سیاسی سر گرمیوں پر پابندی لگ جانے کی وجہ سے ۱۹۱۷ء کے پہلے اشترکی انقلاب کو موقع پر روسی مسلمانوں کی کوئی سیاسی تنظیم موجود نہیں تھی۔

اشتراکی انقلاب کے بعد ایدل یورال کے مسلمانوں نے اپنی نیم خود مختیار حکومت قائم کر لی۔مگر اشتراکیوں کو یہ آزادی پسند نہیں آئی اور اس کے راہ میں رکاوٹیں ڈالنا شروع کیا۔ایدل یورال کی نیم آزادی صر ف تین ماہ اور چھ دن قائم رہی۔ایدل یورال کے صدر بنیامین عاصم اور سابق حکومت کے افراد بھی یہاں موجود تھے ۔مگر یہ اشتراکیوں نے ظلم و بربریت سے ایدل یورال کی نیم خود مختیار حکومت کو ختم کر دیا۔


باشقردستان کے ترک باشندوں نے ایدل یورال کی طرح روسی تسلط سے آزادی کے کے لیے جد وجہد شروع کی۔ ان سے بھی زار کے روسیوں نے زمینیں چھین کو قبضہ کر لیا تھا۔ باشقردستان کے ترک باشندوں میں اپنی زمینی واپس لینے کی بڑے اور شدید خواہش پائی جاتی تھی۔۱۹۱۷ء کے اشترکی انقلاب کے بعد ان کو بھی موقعہ ملا۔ انہوں نے بھی شہر اورنبرگ میں زکی احمد ولیدی طوغان کی سربراہی میں اپنی آزاد حکومت قائم کر لی۔

باشقرد فوجی پس منظر رکھتے تھے۔ زار روس کی فوجی میں یہ خدمات ادا کرتے رہے۔اس وجہ سے ان کے ہاتھ مضبوط تھے۔ چناچہ فروری۱۹۱۹ء میں وہ اشتراکیوں سے اپنی آزادی برقرار رکھنے کے لیے معاہدہ کیا۔اس میں ان کی خود مختیاری تسلیم کر لی گئی۔ریلوے،کارخانے اور کانوں کے علاوہ ہر چیز کا انتظام انہیں حاصل ہو گیا۔ اس طرح زمنیوں کا کنٹرول ان کے ہاتھ میں آ گیا۔

پھر باشقرد فوجی دستے روس کی سرخ فوج میں ضم کر دیے گئے۔مئی۱۹۲۰ء میں ماسکو نے نیا حکم نامہ جاری کیا اور باشقردکے پیشتر اختیارات واپس لے لیے گئے۔صرف چند ماہ یہ حکومت برقرار رہی۔لینن نے طوغان سے کہا کہ معاہدہ کاغذ کے ٹکڑاے ہوتا ہے۔طوغان نے کہا ”لیکن ہمارے ملک میں ہم وعدوں کو اپنے آباؤ اجداد کی روایات کے مطابق قائم رکھنے کی عادی ہیں“۔

لینن نے کہا کہ” پھر تمھاری آباؤ اجداد بیوقوف رہے ہوں گے“ اس سے اشترکی فلسفہ سمجھ آتا ہے۔باشقردوں نے چھاپہ مار جنگ شروع کر دی۔روسیوں نے جلد ہی چھاپ ماروں پر قابو پالیا ۔ باشقردوں پر مظالم کی انتہا کر دی کچھ بھوک کا شکار ہو کر ختم ہو گئے۔۱۹۲۱ء میں بشقردوں نے اطاعت قبول کر لی۔اشراکیوں نے بغاوت کا بدلہ لیتے ہوئے بشقردوں کا سب کچھ چھین لیا۔

بقول ایک مورخ کے اشتراکیوں نے رومیوں کا طریقہ اختیار کیا اور انہوں نے ایسا امن قائم کیا جو جنگ سے زیادہ ہولناک تھا۔ اشتراکیوں روسیوں نے اس حکومت کو رجعت پسند کہہ کر اس پر قبضہ کر لیا۔
جزیرہ نما کریکا کو عرب اورترک قرم لکھتے ہیں۔ تین سو سال تک ترک عثمانی سلطنت کا حصہ رہا۔ زار روس کے اس علاقے پر قبضہ سے پہلے مسلمانوں کے اقتدار کا بڑا مرکز تھا۔

کریمایا پرزارِ روس کے دور اقتدار،۱۷۸۳ء میں روسی تسلط ہوا تھا۔ہمشیہ کی طرح یہاں بھی پہلے روسیوں نے ارتدار کی مہم چلائی۔مسلمانوں کی زمنیوں پر روسیوں کو آبادکیا۔ تین لاکھ تاتاری مسلمان کریمیا سے ہجرت کر گئے۔پھر ڈیڑھ لاکھ مسلمان کریمیاچھوڑ کر سلطنت عثمانیہ کے علاقوں میں آباد ہو گئے۔۱۹۱۷ء کے اشتراکی انقلاب کے وقت ایک چوتھائی مسلمان یہاں رہ گئے تھے۔

بعد میں اشتراکیوں نے سب کو جلاوطن کر دیا گیا۔ شروع میں جہاں بھی اسمٰعیل گسپرالی کی کمائنڈ میں آزادی کی جد وجہد شروع ہوئی۔ ان کا کریمیا سے جاری ہونے والا ہفت روزہ اخبار”ترجمان“ جس کا روسی مسلمانوں کی بیداری میں بہت برا دخل ہے۔کریمیا کے نوجوانوں کی تنظیم سے روسی ،اشتراکی اور مغرب خوب زدہ تھا۔اشترکیوں نے ۱۹۲۰ء میں کریمیا کی آزادی ختم کر دے۔

پوری آبادی کو ان کے وطن سے نکال دیا اور اشترکی روس کے علاقوں میں تتر بتر کردیا۔ جوزار،روس کی حکومت میں بے دخلی شروع ہوئی اب وہ اشتراکی روس کے تین سال بعد اپنے اختتام کو پہنچی۔
داغستان شمالی قفقازکا علاقہ مسلمانوں کا تھا۔پیشتر حصہ پہاڑی ہے ۔یہاں اموی دور میں۷۲۴ء تا۷۴۳ء مسلمان سپہ سار مسلمہ بن عبدلمالک نے در بند پر قبضہ کیا ۔

اس دور میں یہاں اسلام پھیلا۔ ۱۵۵۶ء میں روس نے اس پر قبضہ کی کوشش کی۔پھر ۱۷۲۲ء میں زارِ روس نے اس علاقہ پر قبضہ کرلیا۔یہاں سے بھی مسلمانوں کے بے دخل کر کے روسیوں کوآباد کر دیا۔روسی سپہ سار جنرل سوارروف نے قفقاز کے عوام کاقتل عام کیا۔جہاں امام شامل کے چند مجائدین کے سامنے روس نے تین لاکھ فوج لگائی تھی۔ساٹھ سال تک امام شامل روسی فوج سے لڑتا رہا۔جنوری ۱۹۱۸ء میں اشترکیوں نے قفقاز پر قبضہ کر لیا۔ (باقی آئندہ ان شاء اللہ)

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :