مجاہد ختم نبوت الحاج خلیل احمد لدھیانوی

منگل 28 اگست 2018

Mohammad Asad Ullah Dajkoti

محمد اسد اللہ ڈجکوٹی

جو بھی دنیا میں آیا، اس نے بالآخر اپنا طے شدہ وقت گزار کر ایک نہ ایک دِن موت کا ذائقہ چکھنا ہے۔ مگر کچھ انسان ایسے بھی ہوتے ہیں جو اپنے روشن اور درخشاں کردار کی بدولت لوگوں کی مجلسوں، دوست احباب کے تذکروں میں برسہا برس تک زندہ رہتے ہیں۔ ان کی یادوں کے چراغ ان کے بعد بھی زمانے میں دیر تک جگمگاتے رہتے ہیں۔ مجاہد ختم نبوت حاجی خلیل احمد لدھیانوی کا شمار بھی ایسے ہی لوگوں میں ہوتا ہے۔


 حاجی خلیل احمد لدھیانوی 1919ء میں لدھیانہ شہر میں پیدا ہوئے۔قیامِ پاکستان کے وقت لدھیانہ سے ہجرت کرکے پہلے جھنگ بعد ازاں فیصل آباد میں رہائش پذیر ہوگئے اور تادم واپسیں یہیں مقیم رہے۔ حاجی صاحب پر اللہ تعالیٰ کی خاص نظرِ کرم تھی کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں متعدد بار اپنے گھر بلایا اور اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کا گھر دِکھایا۔

(جاری ہے)

بقول ان کے انہوں نے چالیس سے زیادہ سفر کیے، سینکڑوں بار حرمین شریفین کی زیارت نصیب ہوئی، ان ا سفار میں اس سفیرِ حرم نے حرمِ پاک جاکر کتنے طواف کیے، غلافِ کعبہ پکڑ کر آنسوؤں کی کتنی ندیاں بہائیں، کتنی آہ وزاریاں کیں، حجرِ اسود کو ان کے ہونٹوں نے کتنی مرتبہ پیار سے چوما۔ بیت اللہ کا دامن تھام کر اپنے اللہ سے کیا کیا راز و نیاز کی باتیں کیں۔

اپنی مغفرت کی کتنی التجائیں اور دعائیں کیں۔ ہ نہ کوئی اور جانتا ہے نہ خود مرحوم جانتے ہوں گے۔
مسلسل حاصل ہونے والی ان سعادتوں، پے درپے انعامات کے تسلسل کو وہی ذات جانتی ہے جس نے ان سعادتوں اور انعامات کی بارش مرحوم پر بارہا برسائی۔ وہ سفیرِ مدینہ کتنا خوش نصیب تھا، جس نے حبیب کبریا صلی اللہ علیہ وسلم کے گنبد خضراء کو سینکڑوں مرتبہ دیکھا اور اپنی آنکھوں کو ٹھنڈا کیا۔

دِل و دِماغ کو جِلا اور اپنے ایمان کو تازگی بخشی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد مبارک” جس شخص نے میری قبر کی زیارت کی اس کے لیے میری شفاعت واجب ہے۔“ کے بارہا مصداق بنے۔ اس جہان فانی میں ان پر اللہ تعالیٰ کی ان بے شمار نعمتوں کو دیکھ کر امید بندھ جاتی ہے کہ اُس جہانِ ابدی میں بھی اللہ تعالیٰ اپنے فضل اور اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت کے صدقے ان کے لیے جنت کے دروازے کھول دے گا۔


مرحوم کی زندگی کو اگر سرسری نظر سے دیکھا جائے تو ایک گلدستہ معلوم ہوتی ہے جس میں حبِ علمائے حق، مہمان نوازی، سخاوت، ہمدردی، غریب پروری، توکل، صبر، استقامت، مستقل مزاجی، ایثار، جذبہٴ قربانی جیسے پھول نظر آتے ہیں۔ جب مجلسِ احرار کا طوطی بولتا تھا تب حاجی صاحب مجلسِ احرار کے سرگرم کارکن تھے۔ مجلسِ احرار کی قیادت میں چلنے والی بعض تحریکوں میں موصوف نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔

جلسے جلوسوں میں اسلامی جذبے کے تحت شریک ہوئے۔ سید عطاء اللہ شاہ بخاری، مولانا محمد علی جالندھری، مولانا حسان احمد شجاع آبادی، آغا شورش کاشمیری، حضرت مولانا محمد عبداللہ درخواستی، مولانا مفتی محمود، حضرت مولانا غلام غوث ہزاروی رحمہم اللہ تعالیٰ علیہم ودیگر اکابر کے ساتھ بڑا لگاؤ اور والہانہ محبت تھی۔ ان اکابر کے ساتھ کافی وقت گزرا، انہیں قریب سے دیکھا اور ان سے بہت کچھ سیکھا اور انہیں دیکھ کر اپنی زندگی کا راستہ متعین کرلیا۔

یہی وجہ ہے کہ حاجی صاحب کے دِل میں علمائے حق کی بہت قدر تھی اورا ن کے ساتھ انتہائی محبت تھی۔ ان کی مجلس میں اکثر و بیشتر بخاری، مدنی، لاہوری رحمہم اللہ جیسے اکابر و مشائخ کا تذکرہ ہوتا رہتا تھا۔ وہ اپنی مجلس میں بیٹھنے والوں کو شاہ جی، حضرت جالندھری، آغا شورش کاشمیری کے خطابتی جواہر پارے اور تقریری اقتباسات سناکر محظوظ کرتے۔ ان کی یادداشت اتنی مضبوط تھی کہ ان اکابر کی تقایر کے بعض بعض جملے لفظ بہ لفظ یاد تھے۔

دوست احباب ان سے سُن کرلطف محسوس کرتے تھے۔ اکابر کے بعض واقعات جو عام طور پر کتابوں میں نہیں ملتے ان کی زبانی معلوم ہوئے۔
علمائے دیو بند کے ساتھ انہیں ایسی گہری عقیدت و محبت تھی کہ ان کے خلاف کسی کی زبان سے ایک جملہ بھی نہیں سُن سکتے تھے۔ اگر کوئی شخص علمائے دیوبند پر کسی قسم کا اعتراض یا طعن و تشنیع کرتا تو حاجی صاحب تڑپ جاتے اور انہیں اس وقت تک چین نہیں آتا تھا جب تک طاعِن کی’ تسلی‘ نہ کرادیتے۔

دراصل بزرگانِ دین کے ساتھ وابستگی کی وجہ سے حق گوئی ور بے باکی ان کے رَگ وپے میں راسخ ہوچکی تھی۔ جہاں حق بات کہنے کا موقع ہوتا فوراً کہہ دیتے، کسی کا خوف اور ملامت ان کی حق گوئی میں مانع نہیں ہوتی تھی۔ اکابر کی صحت کا فیض اور ثمرہ تھا کہ ان کے دِل میں دینی جذبہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا۔ اس لیے ملک میں چلنے والی تقریباً تقریباً تمام تحریکوں میں بھرپور حصہ لیا۔

موصوف نے دین کی خاطر متعدد بار قید وبند کی صعوبتیں برداشت کیں ۔
1953ء کی تحریک تحفظ ختم نبوت میں انہوں نے خوب خوب حصہ ڈال کر اپنی عاقبت کو سنوارنے کا انتظام کیا اور تین ماہ لاہور میں اکابر کے ساتھ قید رہے اور 1977ء کی تحریکِ نظام مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم میں بھرپور حصہ لیااور لائل پور بم کیس کے ملزم قرار دیے گئے، تحریک کے دوران تقریباً تین ماہ گرفتار رہے۔


تحفظِ ختمِ نبوت کے لیے تو ہر وقت قربانی کا جذبہ ان کے سینے میں موجزن رہتا تھا۔ مسلم کالونی (ربوہ) میں جب ختمِ نبوت کانفرنس کا آغاز ہوا غالباً دوسرے یا تیسرے سال راقم اور اس کے رفقاء نے کانفرنس کی تشہیر کے لیے اور زیادہ سے زیادہ عوام کی شرکت کو یقینی بنانے کے لیے فیصل آباد سے کانفرنس میں شرکت کے لیے پیدل قافلہ لے جانے کا اہتمام کیا۔

بعض حضرات نے تو ہماری خوب حوصلہ افزائی کی اور بعض کی طرف سے حوصلہ افزائی کی بھیک سے محروم رہے لیکن حاجی صاحب کے سامنے ہم نے یہ مسئلہ پیش کیا تو اس مجاہدِ ختم نبوت نے کہا کہ میں اگرچہ بوڑھا، ناتواں اور کمزور ہوں مگر میرا ایمان اور جذبہٴ تحفظِ ختم نبوت جوان ہے ،ان شاء اللہ میں تمہارے ساتھ ہوں۔ پھر انہوں نے اس قافلے کی کامیابی کے لیے دامے،درمے، قدمے، سخنے، غرض ہر طرح کا نہ صرف تعاون کیا بلکہ اس قافلے کی قیادت بھی کی اور اپنی پیرانہ سالی کے باوجود کئی میل تک پیدل چلتے رہے۔


پروردگارِ عالم نے بہت سی خوبیوں کے ساتھ ساتھ حاجی صاحب کی سرشت میں سخاوت کی خوبی بھی ودیعت رکھی تھی۔ انہوں نے ہزاروں لاکھوں کمائے لیکن اپنا بہت کم اور دوسروں کا بہت کچھ بنایا۔ غریبوں، یتیموں، بیواؤں کی مدد کرتے۔ حاجت مندوں کی حاجت پوری کرتے، طالب علموں کے ساتھ خاص طور پر تعاون کرتے۔ دینی کاموں میں، دینی جلسوں اور تقریبات میں بالخصوص حصہ ڈالتے۔

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد’ ’تھادوا تحابوا“ پر عمل کرتے ہوئے دوست احباب اور علمائے کرام کو ہدایا دیتے رہے۔ مہمان کی مہمان نوازی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے اور یہ سنت تو حاجی صاحب کی طبیعت میں راسخ ہوچکی تھی بلکہ عادت بن چکی تھی۔ ہر آنے والے کی فراغ دِلی سے خاطر تواضع کرتے، میزبانی کا حق ادا کرنے کی پوری پوری کوشش کرتے۔

مہمان کے علاوہ ہر آنے والے کے ساتھ عام طور پر یہی ان کا معاملہ تھا۔ از کم کم چائے پانی تو ضرور ہی پیش کرتے۔
حاجی صاحب کی طبیعت میں ظرافت بھی تھی، لطائف اور چٹکلوں سے مجلس کو زعفران زاربنائے رکھتے تھے، بعض اوقات ایسا بھی ہوتا کہ جب ان کی طبیعت میں باغ و بہار ہوتی تو اپنے چٹکلے اور اکابر کی بالخصوص شاہ جی رحمتہ اللہ علیہ کی ایسی ایسی باتیں سناتے کہ کئی کئی گھنٹے گزر جاتے مگر احساس تک نہ ہوگا، لیکن اس سب کے باوجود فکر ِ آخرت ہمیشہ ان کے دامن گیر رہا۔

اپنے دوست و احباب سے کہا کرتے تھے کہ دُعا کرو اللہ تعالیٰ میری مغفرت فرمائے اور یہ تو اکثر کہا کرتے تھے کہ میں گناہ گار ہوں، بہت گناہ کیے لیکن وہ گناہ جو اللہ تعالیٰ معاف نہیں فرمائے گا (یعنی شرک) وہ زندگی میں کبھی نہیں کیا۔ اس لیے مجھے امید ہے کہ میرا اللہ میری مغفرت فرمادے گا۔
وفات سے چند ہفتے قبل راقم اپنے ایک دوست کے ہمراہ ان کی تیمار داری کے لیے گیا۔

لیٹے ہوئے تھے اُٹھ کر بیٹھ گئے اور فرمانے لگے کہ معلوم ہوتا ہے کہ آخری وقت آن پہنچا۔ بس اب تو آخرت کی تیاری ہے۔ اللہ تعالیٰ کی رحمت سے پراُمید ہوں، پھر آغا شورش کاشمیری کے چند اشعار پڑھنے لگے جو انہوں نے اپنی زندگی کے آخری لمحات میں کہے تھے۔
حاجی صاحب نے اپنے تزکیہ نفس اور اصلاحِ قلب کے لیے اس دور کی بہت بڑی شخصیت پیر طریقت، رہبر شریعت، ولیٴ کامل حضرت مولانا خواجہ خان محمد امیر مجلس تحفظ ختم نبوت کے ہاتھ میں ہاتھ دے کر ان کے ساتھ اپنا روحانی سلسلہ جوڑا ہوا تھا۔

حضرت ان سے بہت محبت فرماتے تھے اور جب بھی آپ فیصل آباد میں کسی بھی جگہ تشریف لاتے تو حاجی صاحب فوراً ان کی زیارت کے لیے ان قدموں میں پہنچ جاتے۔
وفات سے چند ماہ قبل آخری مرتبہ جب آپ خانقاہ سراجیہ گئے تو حضرت مولانا خان محمد صاحب رحمة اللہ علیہ نے حسبِ معمول انتہائی شفقت کا مظاہرہ فرمایا۔ حاجی صاحب نے سن شعور میں قدم رکھتے ہی اکابر مشائخ اور علماء حقہ کے ساتھ ایسا تعلق جوڑا کہ پھر نوجوانی، جوانی، کہولت، بڑھاپا ان حضرات ہی کی صحبت میں گزرا اور یہ تعلق ایسا مضبوط تھا کہ کبھی حاجی صاحب علماء کے پاس جارہے ہیں اور کبھی علماء ان کے پاس آرہے ہیں۔

پھر یہ تعلق اس پر منتج ہوا کہ جب 26 اگست 2000ء کو انتقال ہوا اور دوسرے دِن صبح دس بجے جب ان کا جنازہ ان کی رہائش سے اُٹھا تو جنازے کو کندھا دینے والے اور نمازِ جنازہ پڑھنے والے ائمہ مساجد، خطباء، فقہاء، مفتی حضرات، شیوخ حدیث اور دین دار حضرات کثیر تعداد میں تھے اور پھر ان فرشتہ صفت انسانوں نے اپنی مخلصانہ دعاؤں اور نیک تمناؤں اور پاکیزہ آنسوؤں کے ساتھ حاجی صاحب کو اس ذات کے سپرد کردیا جو اپنے موحد بندوں اور اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم اور اپنے دین کے ساتھ محبت کرنے والوں کو اپنی مغفرت اور رحمت کے سائے میں ڈھانپ لیتی ہے اور ان کی خطاؤں اور لغزشوں سے درگزر فرماتی ہے۔


حاجی صاحب نے وصیت فرمائی تھی کہ نماز جنازہ پیرطریقت، رہبر شریعت خواجہٴ خواجگاں، حضرت مولانا خان محمد صاحب پڑھائیں لیکن حضرت ان دِنوں عمرہ پر گئے ہوئے تھے، اس لیے حاجی صاحب کی نمازِ جنازہ جامعہ اسلامیہ امدادیہ فیصل آباد کے شیخ الحدیث ولی کامل حضرت مولانا نذیر احمد صاحب رحمة اللہ علیہ نے پڑھائی اور خطیب یورپ و ایشیا حضرت مولانا محمد ضیاء القاسمی رحمتہ اللہ علیہ نے نمازِ جنازہ سے قبل حاجی صاحب کو خراج عقیدت پیش کیا اور تعریفی کلمات کہے۔ وہ بھی ہم سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے جدا ہوچکے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان سب کی مغفرت فرمائے۔ (آمین)

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :