
قربانی یا سُنتِ ابراہیمی۔۔۔ ؟
پیر 27 جولائی 2020

محمد اشعر سعید
قربانی سے یہی مراد ہے ایک جانور خرید کر محلّے کے چوراہے میں باندھ دو اور ساتھ کچھ آوارہ لڑکے بیٹھا دو جنہوں نے سپیکر پر سونگز بہ آوازِ بلند چلا رکھے ہوں اور ہر آتی جاتی بی بی کو گھورتے رہیں۔ خیر ہم تو اپنے نبی کا یومِ پیدائش بھی ایسے ہی مناتے ہیں۔ قربانی تو معمولی دِن ہے۔
قربانی سے مراد یہی ہے کہ ہم اپنے دروازے پر مانگنے والے غرباء کا ہجوم دیکھنا چاہتے ہیں اور اِس ہجوم کو بلاوجہ کے انتظار میں کھڑا رکھ کر وتعز من تشاء وتزل من تشاء کی لذت سے ہمکنار ہونا چاہتے ہیں۔
(جاری ہے)
قربانی سے مراد یہی ہے کہ صاف گوشت اپنے پاس رکھ لیا جائے اور جانور کی غلاظت دوسروں کے دروازے پر پھینک دی جائے۔
قربانی سے مراد یہی ہے اِس ایک حکم کی تعمیل میں ہمیں کئی اور احکامات کی خلاف وزری کرنے کی اجازت ہے۔ ہم قربانی کے تہوار کے دنوں جتنی اخلاقی خلاف ورزیاں کرتے ہیں کیا اُن کا حساب نہیں ہوگا ؟
خود سے پوچھیں کہ قربانی کے جانور کا خون ہمارے ایمان کی آبیاری کر رہا ہے یا ذاتی انا کی یا سوشل سٹیٹس کی ؟ اگر ایمان کی آبیاری ہو رہی ہے تو کیا ایسے ہی ہونی چاہیے؟
یہ بھی مان لیا کہ ہم سُنتِ ابراہیمی ادا کرتے ہیں۔ کیا ہم اپنی سب سے عزیز چیز قربان کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں ؟
ہم سنتِ ابراہیمی کے نام پہ جانور ذبح کر کے جان چھڑا لیتے ہیں لیکن کیا ہم نے سوچا ہے کہ اِس دور کا تقاضا جانور کا گوشت ہے یا کچھ اور ؟
کسی نے میرے سوال کرنے پر کہا تھا کہ ہر دور کا دجال الگ ہے۔ ہمارے دور کا دجال وہ منحوس خیال ہیں جو ہمیں گمرہ کرنے پر کمر بستہ ہیں۔ ہمیں اُن خیالات کے آگے اپنے مالک پہ شک نہیں کرنا چاہیے۔ تو کیا “ سنتِ ابراہیمی “ بھی اِس عہد میں ایک جانور کا ہی تقاضا کرتی ہے ہم سے ؟
آپ نے سنتِ ابراہیمی ادا کرنی ہے تو جانور ہی کیوں ؟ اپنی ذہنی تسکین کو قربان کریں اور کسی بیوہ سے شادی کر لیں یا کم از کم کسی بیوہ کا خرچہ اٹھا لیں۔ کیونکہ اللہ کے پاس تو نیّت اور تقوی پہنچے گا۔
آپ نے سنتِ ابراہیمی ادا کرنی ہے تو اپنے سکون کا کچھ حصہ قربان کر کے کسی ایسی طوائف کی مدد کر دیں تو جسم فروشی کی دلدل سے نکلنا چاہتی ہے۔ آپ کہیں گے کہ ہمیں کیسے معلوم ہوگا کہ کون طوائف اس دلدل سے نکلنا چاہتی ہے ؟ بھائی جیسے منڈی میں جانور تلاش کرنے جاتے ہیں ویسے ہی انسانوں کی منڈی سے بھی ایسے انسان مل جاتے ہیں اگر نیّت کر لی جائے۔ کیونکہ اللہ کے پاس تو نیّت اور تقوی پہنچے گا۔
آپ نے سنتِ ابراہیمی ادا کرنی ہے تو اپنی ریاکاری کو قربان کر کے کسی غریب کے بچے کو تعلیم حاصل کرنے میں مدد کر دیں۔ کیونکہ اللہ کے پاس تو نیّت اور تقوی پہنچے گا۔
آپ نے سُنتِ ابراہیمی ادا کرنی ہے تو اپنے وقت اور مال کی قربانی دے کر ہجڑوں کے ہاں چکر لگا آؤ۔ اُن کا حال احوال پوچھ آؤ۔ اُنہیں اس معاشرے کے جانوروں سے بھی برا سمجھا جاتا ہے جا کے اُن جانوروں کو انسان ہونے کا احساس ہی دے آؤ۔ کیونکہ اللہ کے پاس تو نیّت اور تقوی پہنچے گا۔
خیر ہم نے خدا جانے کیا کرنا ہے اور کیا کر رہے ہیں لیکن کیا مسلمان صرف نماز ، روزہ ، حج کی تبلیغ کا ہی ذمہ دار ہے یا اخلاقی غلطیاں ، نفسیاتی کمزوریاں ، معاشرتی بیماریاں درست کرنا بھی ہماری ہی ذمہ داری ہے ؟ اِن سب کی درستگی کے لیے کیا کوئی اور نبی آئے گا ؟ ہمیں کسی کا انتظار ہے ؟
اگر ایسا نہیں تو ہمارا ردِ عمل کیا ہے ؟ ہمارے دور میں “ سنتِ ابراہیمی “ ہم سے کیا تقاضا کرتی ہے ؟ بس یہی بتانا تھا کہ اللہ پاس تو نیّت اور تقوی پہنچے گا اور ہم کیا پہنچا رہے ہیں ؟؟
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
متعلقہ عنوان :
محمد اشعر سعید کے کالمز
-
آخر جنرل رانی تھی کون؟
منگل 1 جون 2021
-
کیا اگلی بار کوئی اور عائشہ؟
ہفتہ 6 مارچ 2021
-
نئے طریقے کی عید میلادالنبی
بدھ 28 اکتوبر 2020
-
امت مسلمہ کا لیڈر
اتوار 27 ستمبر 2020
-
سفر کربلا اور دور حاضر
اتوار 30 اگست 2020
-
جنت نظیر وادی میں فاشٹ سرکار کی گنڈا گردی کو 1 سال مکمل
بدھ 5 اگست 2020
-
قربانی یا سُنتِ ابراہیمی۔۔۔ ؟
پیر 27 جولائی 2020
-
کراچی کے کوچے کوچے میں کچرا
پیر 6 جولائی 2020
محمد اشعر سعید کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.