نئے طریقے کی عید میلادالنبی

بدھ 28 اکتوبر 2020

Mohammad Ashar Saeed

محمد اشعر سعید

عید میلادالنبی نبی پاک کی ولادت کا دن ہے۔ حضور کی پیدائش دونوں جہانوں کے لیے باعث سعادت ہے۔ آپ دونوں جہانوں کے لیے رحمت العالمین بن کر تشریف لائے۔ یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ اللہ تعالی نے آپ سرکار کے لیے ہی دونوں جہاں بنائے۔عید میلاد النبی کو مسلمان جوش و خوش سے مناتے ہیں۔ آقا کا میلاد منانا مسلمانوں کے لیے ایک طرح سے سعادت کی بات ہے مگر اس کے اصل مقصد کو بھول کر مسلمان عجیب و غریب خرافات میں مبتلا ہو گئے ہیں۔


عید میلادالنبی کا حلیہ ہمارے بچپن سے جوانی تک آتے آتے ایک غیر محسوس طریقے سے بدلتا گیا۔ ہمارے علاقے میں اس عید پر دکانیں، بازار اور مساجد سبز قمقموں سے جگمگا اٹھتیں۔ جگہ جگہ لوگ مٹی کے چھوٹے چھوٹے ٹیلے بناتے۔ علاقے کی روایت میں یہ پہاڑیاں کہلاتی تھیں۔

(جاری ہے)

ان پر آرائشی روشنیاں لگائی جاتیں۔ کھلونے سجائے جاتے۔ کوئی محنت کر کے اسی میں ایک چھوٹی سی پن چکی بناتا۔

کسی کی پہاڑی سے جھرنا پھوٹتا۔ کہیں سرنگوں سے کھلونا ٹرین برآمد ہوتی۔ ایک طویل بازار میں ایسی درجنوں پہاڑیاں سج جاتیں جن میں باقاعدہ مقابلہ ہوتا کہ کس کی پہاڑی خوبصورتی اور جدت میں دوسروں سے بڑھ کر ہے۔ شہر میں پیدا ہونے اور پلنے بڑھنے والے بچے کے لیے میلوں ٹھیلوں کا بس یہی نعم البدل تھا۔ لیکن پھر فلوٹس نے آہستہ آہستہ پہاڑیوں کی جگہ لے لی۔

کچے پکے لیکن مخلص نعت خوانوں کی جگہ لاؤڈ سپیکر پر پیشہ ور نعت خوانوں اور قوالوں کی ہر جگہ ایک ہی جیسی آوازیں سنائی دینے لگیں۔ تہذیب اپنے ارتقا سے گزر رہی تھی لیکن یہ ارتقا ہمارے لیے خوش کن نہیں تھا۔ اس نئی طرح کی عید سے جلد ہی دل کھٹا ہو گیا۔
 وقت کے پہیہ کی رفتار نے تیزی پکڑی تو پیارے نبی کی ولادت کا جشن اور جوش و خروش کے ساتھ منایا جانے لگا۔

مگر اس کا طریقہ کار یکسر تبدیل ہوکر رہ گیا۔ اب عید میلادالنبی کے موقعہ پر محلوں میں اسٹیج لگا کر اونچی آواز میں نعتیں لگائیں جاتی ہیں اور اس اسٹیج پر محلے کے اوباش نوجوان بیٹھے ہوتے ہیں۔ جن کا کام آتی جااتی بی بی کو گورنا اور آوازیں کسنا ہوتا ہے۔ ہر عید میلاد النبی کے کے موقعہ پر دیکھنے کو ملتا ہے کہ جگہ جگہ لڑائی جھگڑے ہو رہے ہیں انہیں بازاروں میں آنے والی فیملیوں کو ان اوباش نوجوانوں کی طرف سے تنگ کیا جاتا ہے۔

یہ لوگ آنے والی فیملیوں کے لیے ایک زحمت سے کم نہیں ہوتے۔عید میلادالنبی کا اصل مقصد کہیں گم ہوکر رہ گیا ہے۔ مسلمان اس عید کو مختلف قسم کے خرافات کی طرف دھکیل رہے ہیں۔
عید میلادالنبی کے شروع ہوتے ہی کاروباری خضرات میری مراد نعت خواہ خضرات کے کاروبار کو چار چاند لگ جاتے ہیں۔ خضور کی شان کو بیان کرنے کے لیے لوگوں سے لاکھوں روپے نذرانہ کے طور پر لیے جاتے ہیں۔

دورحاضر میں تو نعت خوانوں نے باقاعدہ اپنے ریٹ فکس کر رکھے ہیں اور جن لوگوں کی اوقات ان کی ریٹ لیسٹ کے مطابق نہیں ہوتی وہ ان لوگوں سے کوسوں دور رہتے ہیں۔ نبی پاک کی ولادت کا پورا مہینہ ان کی پانچوں انگلیاں گھی میں ہوتی ہیں۔ اس کے علاوہ باقاعدہ بتایا جاتا ہے کہ اسٹیج پہ ہونے والی خدمت بھی الگ سے وصول کی جائے گئی۔
ہم بحشیت قوم اس مقدس دن  کو کیوں ان فضول کے خرافات کی طرف دھکیل رہے ہیں۔

اس دن کا اصل مقصد تو یہ ہونا چاہیے کے چراغاں کیا جائے مساجد میں محفلوں کا انتظام کیا جائے اور خضور پاک کی زندگی گزارنے کے طریقوں کا بتایا جائے۔ افسوس کے ساتھ دیکھنے کو ملتا ہے کہ جلوس میں مسلمانوں کی تعداد بے شک دو ہزار ہو مگر اسی دن ظہر کی نماز میں تعداد دو صف رہ جاتی ہے۔ یہی لوگ ایسے بازار جہاں پر نعتوں کو اونچی آواز میں لگا کر سنا جاتا ہے وہاں ہزاروں کی تعداد میں موجود ہوتی ہے اور بازاروں میں پاوں رکھنے کو جگہ نہیں ملتی۔


عید میلادالنبی ایک افضل دن ہے ہمیں اسے عزت و احترام کے ساتھ منانا چاہیے نہ کے مختلف قسم کی خرافات کے پیچھے لگ کر اس کے اصل مقصد کو بھی کھو دیں۔ بحشیت مسلمان ہمیں اس ہستی کے بتائے ہوئے طریقوں کے مطابق زندگی گزارنی چاہیے۔ ہمیں عید میلادالنبی سے کسی صورت بھی اختلاف نہیں ہونا چاہیے بلکہ اس کو نا مناسب طریقوں سے منانے پر اختلاف ہونا چاہیے۔

بے حد افسوس کے ساتھ جو طریقے آج کے دور میں عید میلادالنبی کو منانے کے لیے اپنائے جا رہے ہیں وہ اس دن کی مناسبت سے بالکل الگ ہیں ۔ ہمیں بحشیت مسلمان اس دن کے تقدس کو پامال نہیں کرنا چاہیے اور نہ ہی ایسی سرگرمیاں اپنانی چاہیے جو کسی کے لیے باعث اذیت بنے۔ میرے خیال کے مطابق اس نئے طریقے کی عید میلادالنبی کو مناتے مناتے ہم اس دن کا تقدس بھول جاتے ہیں اور اس کے اصل مقصد کو یکسر تبدیل کر دیتے ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :