
سفر کربلا اور دور حاضر
اتوار 30 اگست 2020

محمد اشعر سعید
میں یہ سوچتا ہوں کہ میرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے خانوادہ کا شکر کیسا تھا۔ حسین ابن علی نے پوری دنیا کو حیران کر دیا۔ کربلا کے میدان میں حسین رضی اللہ عنہ کی نسل کو شہید کیا گیا مگر مولاء نے صبر کی بجائے اللہ کا شکر ادا کیا۔
(جاری ہے)
تاریخ کا سب سے بڑا ظلم آل نبی کے ساتھ کربلا کے میدان میں ہوا۔ نبی کی شہزادیوں کو قیدی بنا لیا گیا۔ عجیب منظر تھا جنت کے مالکان کو شہید کر کے شہزادیوں کو قید کر لیا گیا۔
1380ء سال گزر گئے مگرحب مولاء حسین رضی اللہ عنہ آج بھی لوگوں کے دلوں میں زندہ ہے۔ حسین رضی اللہ عنہ کے قاتلوں کا نام و نشان اس دنیا سے ختم ہوگیا ہے۔ حسین ابن علی سر کٹا کر دین اسلام کو ہمیشہ کے لیے زندہ کر گئے۔
سوچ طلب بات یہ ہے کہ کیا ہم اس دین اسلام کے تابع ہیں جس کی سربلندی کے لیے نواسہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے گھرانے کو شہید کروایا۔ ہم باحشیت مسلمان تفرقات سے باہر نکل کر کب اس دین کی پیروی کریں گئیں جس کی خاطر علی اصغر رضی اللہ عنہ کو شہید کیا گیا،،، جس کی خاطر حضرت عباس علمدار کو شہید کیا گیا،، جس دین کی خاطر علی اکبر ابن حسین اور قاسم ابن حسن نے جام شہادت نوش کی۔ ہم لوگ اس شریعت کی پیروی نہیں کر رہے جو میدان و کربلا میں بچائی گئی تھی۔ آج کل ہر شخص بیٹھا جنت دوزاخ بانٹ رہا ہے،، ایک دوسرے کو کافر کافر کہا جا رہا ہے،، مگر شریعت کو اپنانے کو کوئی بھی تیار نہیں۔
ہمیں سب کچھ یاد ہے مگر ہم حسین رضی اللہ عنہ کا وہ سجدہ بول چکے ہیں،،، اللہ تو آل نبی پر راضی تھا وہ تو جنت کے سردار تھے مگر پھر بھی کربلا کے میدان پر حسین ابن علی کا سجدہ بتاتا ہے کہ اسلام کیا ہے۔ نماز تو کسی بھی حالت میں معاف نہیں مگر ہمارا دور دور تک اس سے کوئی تعلق نہیں،، اس فانی دنیا کی رنگ رلیوں میں ہم اس دین کو بھول بیٹھے ہیں جو لازوال قربانیوں کے بعد ہم تک پہنچا۔
"ہر بندہ خدا بنا بیٹھا ہے یہاں"
دین اسلام کی جڑوں کو کھوکھلا کیا جا رہا ہے مل جل کر رہنے کا سبق بہت کم دیکھنے کو ملتا ہے۔ ہر فرقے میں بیٹھے انتشار پھیلانے والے لوگ مسلمان کو مسلمان سے لڑوا رہے ہیں۔ کوئی بھی شخص کسی بات کو سن کر اس کی تحقیق نہیں کرتا بلکا اسی کو سچ مان کر اگلے کو گالیاں دے کر دائرہ اسلام سے خارج کر دیتا ہے۔ کوئی بھی غور و فکر کرنے کو تیا ر ہی نہیں۔
ایسا نہیں ہے ہمارا دین،، ہمارا دین تو صبر و شکر کا درس دیتا ہے۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہم اہل کفار کے مقابلے میں سبقت لیں جائیں تو ہمیں آپسی بھائی چارے کو فروغ دینا ہو گا۔ ہمیں اس دین کی پیروی کرنی ہو گئی جو آل نبی نے شہادتیں دے کر بچایا ہے۔ واقعہ کربلا ہمیں سبق دیتا ہے کہ دین کی بالادستی کے لیے حسین رضی اللہ عنہ کی طرح ڈھٹ جاو،،باطل بہت جلد اپنے انجام کو پہنچ جاتا ہے مگر حق صدیوں تک لوگوں کے دلوں میں گھر کر جاتا ہے۔ یزید کی حکومت باطل تھی پوری دنیا نے دیکھا کہ اس کا نام بھی کوئی نہیں لیتا مگر مولاء حسین رضی اللہ عنہ حق پر ڈھٹے رہے اور آج بھی لوگوں کے دلوں پر حکمرانی ہے حسین رضی اللہ عنہ کی۔ اللہ ہمیں تفرقات سے نکال کر دین حق کی سربلندی کی توفیق عطا فرمائے،،،آمین۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
متعلقہ عنوان :
محمد اشعر سعید کے کالمز
-
آخر جنرل رانی تھی کون؟
منگل 1 جون 2021
-
کیا اگلی بار کوئی اور عائشہ؟
ہفتہ 6 مارچ 2021
-
نئے طریقے کی عید میلادالنبی
بدھ 28 اکتوبر 2020
-
امت مسلمہ کا لیڈر
اتوار 27 ستمبر 2020
-
سفر کربلا اور دور حاضر
اتوار 30 اگست 2020
-
جنت نظیر وادی میں فاشٹ سرکار کی گنڈا گردی کو 1 سال مکمل
بدھ 5 اگست 2020
-
قربانی یا سُنتِ ابراہیمی۔۔۔ ؟
پیر 27 جولائی 2020
-
کراچی کے کوچے کوچے میں کچرا
پیر 6 جولائی 2020
محمد اشعر سعید کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.