سفر کربلا اور دور حاضر

اتوار 30 اگست 2020

Mohammad Ashar Saeed

محمد اشعر سعید

سن 61 ہجری میں جب تمام عالم اسلام سے مسلمان اللہ کے گھر حج کرنے جا رہے تھے تب میرے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا پیارا نواسہ مکہ کو چھوڑ کر عالم اسلام کو بچانے کے لیے اپنے خانوادہ اور ساتھیوں کے ہمراہ سفر کربلا کو روانہ ہوئے۔ عجیب سفر تھا جس میں بوڑھے جوان بچے سب شامل تھے۔ چھ ماہ کے شہزادہ علی اصغر بھی بقاء اسلام کے لیے سفر پہ روانہ تھے۔

مولاء حسین رضی اللہ عنہ اس حق و باطل کی جنگ کا انجام با خوبی جانتے تھے مگر نانا کے دین کی خاطر سفر کربلا پر روانہ ہو ئے۔
میں یہ سوچتا ہوں کہ میرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے خانوادہ کا شکر کیسا تھا۔ حسین ابن علی نے پوری دنیا کو حیران کر دیا۔ کربلا کے میدان میں حسین رضی اللہ عنہ کی نسل کو شہید کیا گیا مگر مولاء نے صبر کی بجائے اللہ کا شکر ادا کیا۔

(جاری ہے)

سوچو تو عقل حیران رہ جاتی ہے کہ 72 افراد کے ایک لشکر نے لاکھوں کے یزیدی لشکر کا ڈھٹ کے مقابلہ کیا۔ یزیدی فوج کی طرف سے ہر طرح کے ظلم و ستم نبی کی آل پر ڈھائے گئے پانی کی بندش کر دی مگر حسین ابن علی ایک مظبوط چٹان کی مانند تکلیفیں برداشت کرتے رہے۔ کربلا کا منظر یاد کرو تو روح تک کانپ جاتی ہے ایک چھ ماہ کے معصوم کی پیاس گلے میں تیر مار کے بجھائی گئی۔

یوم عاشور مولاء حسین رضی اللہ عنہ نے ایک ایک کر کے اپنے بچوں،بھائیوں اور ساتھیوں کے لاشے اٹھائے،،،،آخر میں حق کی جنگ کے لیے میدان کربلا کو چلے اور شہید ہو کر اسلام کو بچا لیا۔ نبی پاک جس حسین رضی اللہ عنہ کا گلہ چومتے تھے اسے کاٹ کر نیزے پہ چڑھا دیا گیا۔ یہ وہ پیارے حسین رضی اللہ عنہ جن کے رونے سے بھی میرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو تکلیف ہوا کرتی تھی۔

مولاء حسین نے تیروں،تلواروں کے سائے میں آخری نماز ادا کی اور سجدے میں سر کٹا دیا۔۔۔
تاریخ کا سب سے بڑا ظلم آل نبی کے ساتھ کربلا کے میدان میں ہوا۔ نبی کی شہزادیوں کو قیدی بنا لیا گیا۔ عجیب منظر تھا جنت کے مالکان کو شہید کر کے شہزادیوں کو قید کر لیا گیا۔
1380ء سال گزر گئے مگرحب مولاء حسین رضی اللہ عنہ آج بھی لوگوں کے دلوں میں زندہ ہے۔

حسین رضی اللہ عنہ کے قاتلوں کا نام و نشان اس دنیا سے ختم ہوگیا ہے۔ حسین ابن علی سر کٹا کر دین اسلام کو ہمیشہ کے لیے زندہ کر گئے۔
سوچ طلب بات یہ ہے کہ کیا ہم اس دین اسلام کے تابع ہیں جس کی سربلندی کے لیے نواسہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے گھرانے کو شہید کروایا۔ ہم باحشیت مسلمان تفرقات سے باہر نکل کر کب اس دین کی پیروی کریں گئیں جس کی خاطر علی اصغر رضی اللہ عنہ کو شہید کیا گیا،،، جس کی خاطر حضرت عباس علمدار کو شہید کیا گیا،، جس دین کی خاطر علی اکبر ابن حسین اور قاسم ابن حسن نے جام شہادت نوش کی۔

ہم لوگ اس شریعت کی پیروی نہیں کر رہے جو میدان و کربلا میں بچائی گئی تھی۔ آج کل ہر شخص بیٹھا جنت دوزاخ بانٹ رہا ہے،، ایک دوسرے کو کافر کافر کہا جا رہا ہے،، مگر شریعت کو اپنانے کو کوئی بھی تیار نہیں۔
ہمیں سب کچھ یاد ہے مگر ہم حسین رضی اللہ عنہ کا وہ سجدہ بول چکے ہیں،،، اللہ تو آل نبی پر راضی تھا وہ تو جنت کے سردار تھے مگر پھر بھی کربلا کے میدان پر حسین ابن علی کا سجدہ بتاتا ہے کہ اسلام کیا ہے۔

نماز تو کسی بھی حالت میں معاف نہیں مگر ہمارا دور دور تک اس سے کوئی تعلق نہیں،، اس فانی دنیا کی رنگ رلیوں میں ہم اس دین کو بھول بیٹھے ہیں جو لازوال قربانیوں کے بعد ہم تک پہنچا۔
"ہر بندہ خدا بنا بیٹھا ہے یہاں"
دین اسلام کی جڑوں کو کھوکھلا کیا جا رہا ہے مل جل کر رہنے کا سبق بہت کم دیکھنے کو ملتا ہے۔ ہر فرقے میں بیٹھے انتشار پھیلانے والے لوگ مسلمان کو مسلمان سے لڑوا رہے ہیں۔

کوئی بھی شخص کسی بات کو سن کر اس کی تحقیق نہیں کرتا بلکا اسی کو سچ مان کر اگلے کو گالیاں دے کر دائرہ اسلام سے خارج کر دیتا ہے۔ کوئی بھی غور و فکر کرنے کو تیا ر ہی نہیں۔
ایسا نہیں ہے ہمارا دین،، ہمارا دین تو صبر و شکر کا درس دیتا ہے۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہم اہل کفار کے مقابلے میں سبقت لیں جائیں تو ہمیں آپسی بھائی چارے کو فروغ دینا ہو گا۔

ہمیں اس دین کی پیروی کرنی ہو گئی جو آل نبی نے شہادتیں دے کر بچایا ہے۔ واقعہ کربلا ہمیں سبق دیتا ہے کہ دین کی بالادستی کے لیے حسین رضی اللہ عنہ کی طرح ڈھٹ جاو،،باطل بہت جلد اپنے انجام کو پہنچ جاتا ہے مگر حق صدیوں تک لوگوں کے دلوں میں گھر کر جاتا ہے۔ یزید کی حکومت باطل تھی پوری دنیا نے دیکھا کہ اس کا نام بھی کوئی نہیں لیتا مگر مولاء حسین رضی اللہ عنہ حق پر ڈھٹے رہے اور آج بھی لوگوں کے دلوں پر حکمرانی ہے حسین رضی اللہ عنہ کی۔ اللہ ہمیں تفرقات سے نکال کر دین حق کی سربلندی کی توفیق عطا فرمائے،،،آمین۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :