بچوں کی تربیت اور والد ین کا کردار

ہفتہ 11 ستمبر 2021

Mohammad Burhan Ul Haq Jalali

محمد برہان الحق جلالی

تربیت کا اصل مقصد وغرض‘ عمدہ، پاکیزہ، بااخلاق اور باکردار معاشرہ کا قیام ہے۔ اولاد اللہ کا نہایت ہی قیمتی انعام ہے، جسے اللہ تعالیٰ نے دنیاوی زندگی میں رونق بیان کیا ہے، لیکن یہ رونق وبہار اور آنکھوں کی ٹھنڈک کا باعث اس وقت ہیں جب اس نعمت کی قدر کرتے ہوئے بچپن ہی سے ان کی صحیح نشونما، دینی واخلاقی تربیت کی جائے اور انہیں زیور تعلیم سے آراستہ کیا جائے۔

بچوں کی تعلیم و تربیت کا آغاز ان کی پیدائش سے ہی ہوجاتا ہے۔ بچوں کی تعلیم و تربیت میں والدین کا کردار سب سے اہم ہوتا ہے۔  ماں کی گود کو پہلی درس گاہ کہا گیا ہے ۔ تعلیم اور تربیت یہ وہ دو اشیاءہیں بچہ جب دنیا میں آکر اپنی آنکھیں کھولتاہے اور اس کے کانوں میں جب اذان و اقامت دی جاتی ہےاسی وقت تربیت کا آغاز ہو جاتاہے۔

(جاری ہے)

  بچہ اپنے ماحول کا اثر بہت جلدی قبول کرلیتا ہے  اپنے ارد گرد جو وہ سنتا ہے، دیکھتا ہے اسے اپنا لیتا ہے۔

بچہ عمر کے اس دور میں صحیح اور غلط میں امتیاز نہیں کر پاتا کیونکہ وہ سیکھنے کے عمل سے گزر رھاہوتاہے۔ ایک بچے کا دماغ کورےکاغذ  کے مانند ہوتا ہے ۔ ابتداءسے لے کر اسے شعور آجانے تک یہ والدین کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ اسے کیسا ماحول فراہم کر رہے ہیں کیوں کہ وہ جس ماحول میں جیسے لوگوں کے درمیان رہے گا جو انھیں کرتا دیکھے گا وہی اس کورے کاغذ یا سلیٹ پر پر تحریر ہوجائے گا۔

اب جو نقش ہوگا وہ تاعمر محفوظ رہے گا۔بتدریج یہ ذمہ داری چند سال بعد اساتذہ کے کندھوں پر آجاتی ہے۔
بچپن میں ہی اگر بچہ کی صحیح دینی واخلاقی تربیت اور اصلاح کی جائے توبڑے ہونے کے بعد بھی وہ ان پر عمل پیرا رہے گا۔ اس کے برخلاف اگر درست طریقہ سے ان کی تربیت نہ کی گئی تو بلوغت کے بعد ان سے بھلائی کی زیادہ توقع نہیں کی جاسکتی
بچوں کی صحت مند نشوونما اور کامیاب مسقبل میں والدین کا کردار کلیدی ہوتا ہے، جن گھروں میں ماں باپ مثبت اور متحرک انداز میں بچوں کے ساتھ وقت گزارتے ہیں وہاں بچوں کے اندر کئی خصوصیات خود بہ خود پیدا ہوتی چلی جاتی ہیں
بچہ نرم گیلی مٹی کی طرح ہوتا ہے، ہم اس سے جس طرح پیش آئیں گے، اس کی شکل ویسی ہی بن جائے گی۔

بچہ اگر کوئی اچھا کام کرے تو اس کی حوصلہ افزائی کے لیے اس کی تعریف سے دریغ نہیں کرنا چاہیے اور اس پر اُسے شاباش اورکوئی ایسا تحفہ وغیرہ دینا چاہیے ۔
جو والدین لڑکے کی بنسبت لڑکی سے امتیازی سلوک کرتے ہیں، وہ جاہلیت کی پرانی برائی میں مبتلا ہیں، اس طرح کی سوچ اور عمل کا دین سے کوئی تعلق نہیں ہے، بلکہ دینی اعتبار سے تو اس پر سخت وعید یں وارد ہوئی ہیں۔

لڑکی کو کمتر سمجھنے والا درحقیقت اللہ تعالیٰ کے اس فیصلے سے ناخوشی کا اظہار کرتا ہے جو اللہ تعالیٰ نے اُسے لڑکی دے کر کیا ہےرسول اللہ ﷺ نے فرمایا:اپنی اولاد کے درمیان برابری کرو، اپنی اولاد کے درمیان برابری کرو،اپنی اولاد کے درمیان برابری کرو“۔
بچوں کو ڈانٹنے اور مارنے کی حدود بچوں کی تربیت کے لیے والدین یا استادکااُنہیں تھوڑابہت، ہلکا پھلکا مارنا نہ صرف یہ کہ جائز ہے،بلکہ بعض اوقات ضروری ہوجاتا ہے۔

اس معاملہ میں افراط وتفریط کا شکار نہیں ہونا چاہیے
والدین اپنی اولاد کو جو سب سے بہتر تحفہ دیتے ہیں وہ دین کی تعلیم ہے جس والد نے اپنے بیٹے یا بیٹی کو اچھا ادب سکھا دیا ،اچھا انسان بنا دیا جب اچھے انسان کا تصور آتا ہے تو ہم سمجھتے ہیں کہ جو پیسہ کمانے والا ہو ،پیسہ کمانا منع نہیں ہے لیکن پیسہ ہماری زندگی کا مقصد نہیں ہے پیسہ ایک ضرورت ہے لیکن اب مقصد بن گیا ہے حالانکہ انسان بننا مقصد ہے اور یہ بھی نہیں رہا۔


اولاد کی تربیت اگر شعائر اسلام اور طرزِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم پر کی گئی ہوتو ان شاء اللہ اولاد کی دنیا وآخرت بھی سنوارے گی اور اولاد مطیع وفرمابردار اور خدمت کرنے والی بھی ہوگی ان شاء اللہ۔ والدین کی طرف سے اولاد کی صحیح تعلیم و تربیت والدین کے لئے صدقہ جاریہ اور ذخیرہ آخرت ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :