"ہم ایک قوم کیوں نہیں"؟

بدھ 7 اپریل 2021

Mohammad Hasnain Waziri

محمد حسنین وزیری

میں ہوٹل میں اپنے ایک دوست کے ساتھ   بیٹھا دوپہر کا کھانا آڈر کرکے  انتظار کر رہا تھا۔ میرا دوست  اپنے موبائل پر ایک تحریر پر نظر  ثانی کر رہا تھا اور اونچی آواز میں پڑھ رہا تھا۔ اچانک ایک بندہ خدا ہماری  میز پر آ بیٹھا۔
رنگ سانولا ، قدر درمیانہ ، بھوری آنکھوں اور ہلکی  داڑھی  والا  یہ نوجوان ایک عمدہ پیغام کے ساتھ ہمکلام ہوا۔

وہ شہری زندگی  کی  مصروفیت سے خاصا پریشان لگ رہا تھا۔ شہری زندگی کے ہر شعبے میں ہونیوالی نا انصافیوں کی بات  کرتے ہوئے اس کی گفتگو کا زوایہ دیہی زندگی کی طرف مڑ گیا۔ شہری زندگی کے معمول نے اسی کی زندگی اجیرن کر رکھی تھی۔ وہ ان چیزوں سے کہیں دور دیہات کے موسم سے لطف اندوز ہونا چاہتا تھا۔
پھر بات چیت کے آگے بڑھتے ہی اسی بندہ   خدا نے بحیثیت  پاکستانی اس بات پر زور دیا کیا کہ ہم ایک قوم کیوں نہیں بن پا رہے؟  ہم نسل  در نسل، شہر بہ شہر  قوموں اور لسانی الجھنوں سے کب باہر نکلیں گے۔

(جاری ہے)


اس بندہ خدا کے مطابق ان معاشرتی مسائل کا حل ایک فرد کے اپنے اندد مضمر تھا۔ اس نے کہا کہ اگر ایک فرد اپنے اندر پائے جانے والے خامیوں کو دور کرنے کی کوشش کریگا تو آہستہ آہستہ یہ الجھنیں سلجھ جائیں گی کیونکہ فرد سے ہی مل کر  افراد بنتے ہیں اور افراد مل کر اقوام کی تشکیل دیتے ہیں۔
ڈاکٹر علامہ محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ
"افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر
ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ"
اور بقول شاعر مجروح سلطان پوری،
"میں اکیلا ہی چلا تھا جانب منزل مگر
لوگ ساتھ آتے گئے اور کارواں بنتا گیا".
بانی پاکستان  قائد اعظم محمد علی جناح کا بھی فرمان ہے کہ
"ہم سب پاکستانی ہیں۔

نہ بلوچی‘ نہ پٹھان‘ نہ سندھی‘ نہ بنگالی‘ نہ پنجابی۔ ہمیں پاکستانی اور صرف پاکستانی کہلوانے پر فخر ہونا چاہئے".
اس بندہ خدا کے دل میں پاکستان کے لیے درد تھا اور اس کا مشاہدہ  پختہ تھا۔ پاکستانی کے معاشرتی مسائل سے متعلق کافی علم  تھا۔  وہ پاکستان کے ہر باشندے پر ہونے والے ظلم پر ناراض تھا۔ اس کی  خواہش یہ تھی  کہ پاکستان میں تمام قوم و زبان کے لوگ  مل کر رہیں اور انہیں مساوی حقوق اور انصاف میسر ہو۔


پاکستان کے شمال سے لیکر جنوب تک اور شرق سے غرب تک( کراچی سے لیکر خنجراب بارڈر) ہر فرد کے پاس آزادی رائے اور بغیر کسی مشکل کے سفر کرنا اسکا اولین اور ترجیحی حق ہےاور کسی فرد کو مندرجہ بالا حقوق کا نہ ملنا ایک آزاد ریاست کے باشندوں کے  بنیادی حقوق کے منافی ہے۔
ہم تینوں نے ایک ہی میز پر کھانا تناول کیا۔ اس دوران بالکل بھی محسوس نہ ہوا تھا کہ ہم تینوں الگ الگ صوبے اور زبان سے تعلق رکھتے ہیں۔

بلکہ  جب ہم کھانے کی میز سے اٹھے تو اس بندہ خدا سے اپنائیت محسوس ہو رہی تھی۔ اس کی وطن پاکستان سے خالص محبت نے مجھے  بہت سے مسائل پر سوچنے پر مجبور کیا تھا اور محب وطن کا جذبہ بھی دل میں تازہ کیا تھا۔  اب ہم اس امید سے خدا حافظ ہو کر اپنے اپنے راستے پر ہوئے کہ  ان شاء اللہ پاکستان  مزید ترقی کرکے ترقی یافتہ ملک کہلائے گا۔ کیونکہ کہتے ہیں کہ امید پر دنیا قائم ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :