"آخر کب تک؟"

جمعہ 4 جون 2021

Mohammad Hasnain Waziri

محمد حسنین وزیری

دنیا کے تقریباً تمام ممالک میں اقلیتی آبادی پائی جاتی ہے اور شاذو نادر کوئی ملک ہوگا جس میں ایک ہی آبادی اور برادری کے لوگ پائے جاتے ہوں۔ مثلا اگر کسی ملک میں مسلمان زیادہ تعداد میں ہیں تو وہیں غیر مسلم بھی اقلیت میں ہونگے۔اسی طرح اگر کسی ریاست میں عیسائیوں یا ہندوؤں کی آبادی اکثریت میں ہے تو مسلمان بھی ہونگے لیکن ان کی آبادی کا تناسب کم ہوگا۔

پاکستان بھی ایسا ہی ایک ملک ہے جہاں مسلمان 96.46 فیصد اور غیر مسلم 3.53 فیصد ہیں۔ جن میں عیسائی، ہندو، سکھ اور دوسرے مکاتب فکر کے لوگ شامل ہیں۔
اس کرہ ارض پر بہت ہی کم ایسے ممالک ہوں گے۔ جہاں پر اقلیتوں کے حقوق کا پاس رکھا جاتا ہے اور ان کے حق تلفی نہیں ہوتی۔ اس کی زندہ مثال یہ ہے کہ بھارت میں میں مسلمان اقلیت میں موجود ہیں تو ان کے حقوق غیر محفوظ ہیں۔

(جاری ہے)

اسی طرح پاکستان میں ہندوؤں اور عیسائیوں کی حق تلفی اور ان کے ساتھ امتیازی سلوک روا رکھا جاتا ہے۔ کسی بھی ملک میں اکثریت آبادی والی جماعت اپنے آپ کو برتر سمجھنے کی غلطی کرتی ہے اور اقلیتوں کو سرکاری مذہب پر عمل پیرا ہونے کی  تلقین اور اس کے مطابق زندگی بسر کرنے پر مجبور کرتا ہے۔
حالانکہ تمام اقوام عالم کے حقوق کی علمبردار تنظیم "اقوام متحدہ" بھی ہر انسان کے بنیادی انسانی حقوق کی بات کرتا ہے جن میں باوقار زندگی جینے کا حق، بولنے کا حق،سوچنے کا حق اور اپنے مذہب کے اصولوں کے مطابق زندگی گزارنے کا حق شامل ہیں۔


 قائد اعظم محمد علی جناح نے بھی سن 1929 کو نہرو رپورٹ کے جواب میں پیش کردہ اپنے مشہور چودہ نکات میں ایک خاص نکتے کا ذکر کیا تھا کہ پاکستان کے حصول کے بعد تمام اقلیتوں کو برابر کے حقوق ملیں گے اور ان کے حقوق کی تحفظ بھی ریاست کی ذمہ داری ہوگی- لیکن اگر ہم برصغیر پاک و ہند کی تاریخ کو کھنگالنے کی کوشش کریں تو معلوم ہوگا کہ پاک و ہند کی تقسیم کے اوائل میں بھی شدھی اور سنگھٹن جیسی تحریکیں چلیں تھیں۔

جن کا مقصد مسلمانوں کو زبردستی ہندو مذہب تسلیم کرنے پر مجبور کرنا تھا۔اور حالیہ پاکستان میں بھی مسیحیوں اور ہندوؤں کے ساتھ ایسے واقعات بہت رونما ہوئے ہیں جن میں اقلیتوں کو جبراً مسلمان ہونے کی دھمکیاں دی گئیں۔
اندرون سندھ میں ہندو لڑکیوں کو زبردستی مسلمان کے ساتھ شادی کے لیے مجبور کیا جاتا ہے اور ان پر ظلم کے پہاڑ توڑے جاتے ہیں ہندو لڑکیوں کو اغوا کر کے ان کے ساتھ زنا بالجبر کیا جاتا ہے۔


دفتری شماریات کے مطابق پاکستان میں یومیہ 11 زنا بالجبر کے کیسز درج ہوتی ہیں اور پچھلے چھ سالوں میں پولیس کے پاس 22 ہزار کیسز رپورٹ ہوئے۔ان میں سے صرف 77 کو سزا دی گئی جو ٹوٹل اعداد و شمار کے 0.3 فیصد ہے۔
مسیحیوں پر ظلم ڈھانے میں بھی پاکستانی پیچھے نہیں ہیں بلکہ ماضی قریب میں پنجاب میں لاہور کے ایک دماغی صحت کے ادارے "پنجاب انسٹیٹیوٹ آف مینٹل ہیلتھ" میں ایک گرجاگر تھا جہاں مسیحی نرسیں عبادت کیا کرتی تھی۔

ان کے مسلمان ساتھیوں نے اس گرجا گر کو اپنے ہاتھوں میں لیا اور گرجا گر کو منہدم کرنے کا مطالبہ کردیا اور ساتھ ہی ساتھ مسلمان نرسوں نے آپے سے باہر ہوتے ہوئے اپنے مسیحی ساتھیوں کو اسلام قبول کرنے کی دھمکی بھی دی۔اس کے بعد گرجا گھر میں مسلمان نرسوں نے حضور سے محبت کا تقاضہ پورا کرنے کی ناکام کوشش کرتے ہوئے نعتیں بھی پڑھیں جو کہ سوشل میڈیا پر وائرل ہوا۔


آخر ہم کس نہج پر جا رہے ہیں؟ اور کیا یہ وہی سلام ہے جو اقلیتوں کے حقوق کی پاسداری کا ہر لمحہ درس دیتا تھا اور کیا یہ وہی ریاست مدینہ ہے جو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دور میں تھا؟
ہمیں اس بات پر بغور سوچنے کی ضرورت ہے اور ریاست کو چاہیئے کہ ایسے عناصر کو فی الفور کیفر کردار تک پہنچائے اور اس سلسلے میں قانون کا گرفت مضبوط ہو تا کہ اگر شخص ایسے افعال سر انجام دیتے ہوئے ہزار بار سوچے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :