"پولیس گردی"

پیر 20 دسمبر 2021

Mohammad Hasnain Waziri

محمد حسنین وزیری

اسلامی جمہوریہ پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد کے سیکٹر G-13 میں ایک دن پہلے گشت پہ مامور کچھ پولیس والوں کی ویڈیو منظر عام پر آگئی جس میں وہ ایک پھل فروش سے بغیر پیسے دیئے پھل لے رہے تھے۔
حالانکہ بعد میں معلوم ہوا کی حقیقت اسکے بر خلاف تھی۔ ویڈیو کے وائرل ہوتے ہی انسپکٹر جنرل آف پولیس اسلام آباد محمد احسن یونس نے فوری انکوائری کا حکم صادر کیا۔

تحقیق سے معلوم ہوا کہ پولیس والوں نے بغیر پیسے دیئے پھل لے گئے ہیں تو جناب احسن یونس( آئی جی اسلام آباد) نے تینوں پولیس کے جوانوں کو معطل کردیا اور گشت کے لئے انکے متبادل پولیس والوں کو تعینات کر دیا۔
آئی جی اسلام آباد احسن یونس کا احسن قدم یہ تھا کہ اس نے ٹھیلے پر کام کرنے والے دونوں جوانوں کو اپنے دفتر مدعو کیا تاکہ انکی زبانی اس واقعے کو ریکارڈ کرایا جا سکے تاکہ حقیقت لوگوں پر آشکار ہو ۔

(جاری ہے)


دونوں پھل فروشوں نے کہا کہ پولیس والے نے پھل کے عوض پیسے دیئے تھے۔ ویڈیو بنانے والے نے اصل کہانی کو کچھ اور رنگ دے دیا۔پولیس کے جوانوں نے پہلے ایک پھل فروش کو پیسے دیئے تھے اس نے دوسرے کو کہا کہ پھل شاپر میں ڈال کر دے دو اور دوسرے نے وہی کیا۔ جب دوسرا بندہ پولیس کو پھل دے رہا تھا تو ویڈیو بنانے والے نے بنائی اور جب پولیس چلی گئی تو اس نے پھل پولیس کو دینے والے بندے سے پوچھا کہ پیسے دیئے ہیں کہ نہیں؟ تو اسکا جواب نفی میں تھا۔


آئی جی بار بار سوال کرتا رہا کہ کسی کے دباؤ میں آکر جواب مت دینا اور یقین دہانی کرائی کہ وہ انکے ساتھ ہے لیکن پھل فروشوں نے کہا کہ پیسے وصول ہو گئے ہیں۔ آئی جی کی قابلِ بیان بات یہ تھی کہ اس نے ہزار روپے فی نفر پھل فروشوں کو دیا اور باعزت رخصت کر دیا۔
اسی سے ملتا جلتا ایک اور واقعہ ایک سال پہلے کراچی میں پیش آیا تھا - کراچی میں بھی پولیس والے روز صبح ناشتے کیلئے ایک چائے کے ہوٹل پر جاتے- چائے پیش کرنے کا حکم کرتے اور ساتھ پراٹھوں کی بھی فرمائش کرتے اور وہ بیچارہ بغیر کسی در اندازی اور چوں چرا کے چائے اور پراٹھے ان کے سامنے رکھتا اور وہ صاحبان بالکل اطمینان کے ساتھ چائے کی چسکیاں لیتے اور ساتھ پراٹھا تناول کرتے- خوب شکم سیر ہو کر وہاں سے بغیر پیسے دئیے رفو چکر ہو جاتے-
 ایک دن کسی رپورٹر نے جب ان کی خبر لی تو وہ بغیر کچھ کہے وہاں سے نکل گئے۔


آخر ان پولیس والوں کا احتساب کون کرے گا؟۔پولیس والوں کا کام عام عوام کی عزت، مال اور ناموس کی حفاظت ہے مظلوم کا ساتھ دینا اور ظالم کے سامنے سیسہ پلائی ہوئی دیوار بننا پولیس کا دستور ہونا چاہیے۔مقتول کی داد رسی کرنا اور قاتل کے سامنے ڈٹ جانا،مدد طلب کرنے والے کی مدد کرنا اور غاصبوں سے کسی کے حق کو چھین کر حقدار کے حوالے کرنا پولیس کے افعال میں شامل ہے۔


عوام بعض اوقات پولیس کو دیکھ کر خوفزدہ ہو جاتے ہیں اور اپنا حق مانگنے سے گریز کرتے ہیں کیونکہ پولیس اپنی وردی کے غلط استعمال سے عوام پر دباؤ اور دھاک بٹھاتے ہیں۔مندرجہ بالا واقعات جیسے بہت سارے واقعات ابھی بھی بعید نہیں ہے کہ رونما ہو رہے ہوں گے جو کہ منظر عام پر نہیں آتے۔بجائے اس کے پاکستان کے سابقہ دارالحکومت اور موجودہ دارالحکومت میں ایسے واقعات کا وقوع پذیر ہونا حکومت کے لیے سوالیہ نشان ہے۔


متعلقہ حکام بالا سے گزارش ہے کہ ان کا احتساب کرے تاکہ عوام پولیس سے ڈرنے کی بجائے ان کے ساتھ مل کر ایک خوشحال اور مثالی معاشرہ تشکیل دے سکیں- اچھے معاشرے کی تعریف ہی یہی ہے کہ وہاں حکمران اور رعایا کے درمیان زیادہ فاصلہ نہ ہو اور جہاں لوگ اپنی آواز حکمران جماعت تک باآسانی پہنچا سکیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :