اقبال اور موجودہ دور کا مسلمان

جمعہ 29 جنوری 2021

Mohammad Umar Shah Umar

محمد عمر شاہ عمر

کی محمدﷺ سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں   
یہ جہاں  چیز  ہے  کیا  لوح  و  قلم  تیرے ہیں
ڈاکٹر علامہ محمد اقبالؒ 9 نومبر 1877 کو پاکستان کے مشہور شہر سیالکوٹ میں پیدا ہوۓ۔ انہوں نے ابتدائی تعليم سیالکوٹ سے ہی حاصل کی۔ آپؒ نے ایم اے  M.A کا امتحان لاہور سے پاس کیا اور اعلٰی تعليم کے لئے انگلستان چلے گئے۔

وہاں سے انہوں نے Ph.D اور بیرسٹری کا امتحان پاس کیا اور پاکستان (لاہور) میں مستقل رہائش پذیر ہوئے ۔ کچھ عرصہ لاہور میں وکالت کی اور اس کے بعد شعبہ تدریس سے وابستہ رہے۔
آپؒ نے اپنی شاعری کے زریعے ہندوستان کے مسلمانوں کو ان کی کھوئی ہوئی اقدار یاد کروائی۔ آپؒ نے مسلمانوں کو "فلسفہ فکر و خودی" دیا۔آپؒ نے اپنی شاعری کے زریعے برِصغیر کے مسلمانوں کو جھنجھوڑ کے رکھ دیا۔

(جاری ہے)


آپؒ نے اردو اور فارسی میں شاعری کی اور آنے والی نسلوں کے لئے خاصا ذخیرہ چھوڑا۔ آپؒ کی شاعری مکمل طور پر قرآن و حدیث کی عکاسی کرتی ہے۔ جس کی وجہ ان کے گھر کا مزہبی ماحول ہے۔ ان کی پرورش ایک مزہبی ماحول میں ہوئی۔ عشقِ مصطفٰیﷺ ان کی نس نس میں شامل تھا۔ وہ ایک صوفی منش انسان تھے۔
انہوں نے جابجا اپنی شاعری میں مسلمانوں کے زوال کی وجہ "دین سے دوری" قرار دیا۔

اقبالؒ نے اس وقت کے مسلمانوں کو اپنی شاعری کے زریعے اپنا کھویا ہوا مقام حاصل کرنے کی ترغیب دی۔
قیامِ پاکستان کی جدوجہد میں علامہ اقبالؒ نے اپنی شاعری کو ہتھیار کے طور پہ استعمال کیا۔ انہوں نے اس وقت کے بے حال مسلمانوں کے مسائل اور ان کے تدارک کو اپنی شاعری میں قرآن و حدیث کی روشنی میں وضع کیا۔
ایک صدی کا عرصہ گزرنے کے بعد بھی آج کا مسلمان بے راہ روی اور ذہنی غلامی کا شکار ہے۔

جس طرح ایک صدی پہلے کے مسمانوں نے اقبالؒ کے پیغام کو سینوں سے لگایا اور اس پر عمل کے نتیجے میں مملکتِ خداداد جسے آج دنیا "پاکستان" کے نام سے جانتی ہے حاصل کیا۔ آج کے مسلمان کو پھر سے اقبالؒ کے "فلسفہ فکر و خودی"  اپنانا ہو گا۔
پوری دنیا کے لوگوں نے اقبالؒ کے فلسفہ فکر و خودی کو تسلیم کیا اس پر عمل کیا اور عروج حاصل کیا۔ افسوس صد آفسوس کے آج کا مسلمان اقبالؒ کے "فلسہ فکر و خودی" سے عاری ہو چکا ہے۔

افسوس کا موجودہ دور کا مسلمان مغرب کی غلامی میں دلی تسکین محسوس کرنے لگا ہے۔ موجودہ دور کا مسلمان ایک دفعہ پھر سے غفلت کی نیند سو رہا ہے۔ اس وقت ہمیں قرآن و حدیث کے اقبالؒ کے فلسفہ کی مکمل پاسداری کی ضرورت ہے۔ جہاں قرآن  و حدیث سے ہماری اصلاح ہو گی وہاں *فلسفہ اقبالؒ* سے ہمارے نظریے کی اصلاح ہو گی۔
اقبالؒ ہی تو نظریہ پاکستان کے بانی ہیں اور بانی کو تو سب علم ہوتا ہے نا۔

اسی لئے انہوں نے مسلمانوں کو حرم کی پاسبانی کے لئے ایک ہونے کا درس دیا۔
  ایک  ہوں  مسلم حرم کی پاسبانی کے لئے
نیل  کے ساحل   سے لیکر  تابخاکِ  کاشغر
اقبال سب سے زیادہ اپنی شاعری میں اپنی نوجوان نسل سے مخاطب رہے۔ جگہ جگہ انہوں نے نوجوان کو متحرک ہونے کا درس دیا۔انہوں نے نوجوانانِ مسلم کے لئے اپنے رب کے حضور سر بسجود ہو کے دعائیں کی۔


انہوں نے جوانوں کو اپنے جیسا نظریہ اور عشق حاصل کرنے کا درس دیا۔ انہوں نے خاص طور پر نوجوان نسل کو اپنا کھویا ہوا مقام یاد کرنے کی ترغیب دی۔
انہوں نے مسلمانوں کو ایک ہو جانے کا درس دیا۔ وہ پوری دنیا کے مسلمانوں کو اخوت و محبت کے ساتھ ایک ہوتا دیکھنا چاہتے تھے۔۔۔
بقول اقبالؒ:
 یہی مقصودِ فطرت ہے یہی رمزِ مسلمانی
اخوت کی جہاں گیری محبت کی فراوانی
اقبالؒ مسلمانوں کی فرقہ پرستی سے بہت نالاں تھے کیونکہ وہ مسلمانوں کو ایک جگہ متحد دیکھنا چاہتے تھے۔


ایک جگہ اقبالؒ فرماتے ہیں ۔۔۔۔
یوں تو سیّد بھی ہو مرزا بھی ہو افغان بھی ہو
 تم   سبھی  کچھ  ہو  بتاؤ تو مسلمان بھی ہو
 فرقہ بندی ہے کہیں اور کہیں ذاتیں ہیں
کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں
آج کا مسلمان بھی فرقہ بندی ، تہمت پرستی اور مغربی غلامی کی دلدل میں دھنستا چلا جا رہا ہے۔ اس وقت کے مسلمانوں کو اقبالؒ کے فلسفہ کو اپنانے کی شدّت سے ضرورت ہے۔

اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہمیں اقبالؒ کے فلسفہ کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرماۓ (آمین)
آخر میں اقبال کے چند اشعار نوجوانانِ مسلم کے نام:
جوانوں کو میری آہِ سحر دے
پھر ان شاہین بچوں کو بال و پر دے
خدایا آرزو میری یہی ہے
میرا نورِ بصیرت عام کردے
جوانوں کو سوزِ جگر بخش دے
میرا عشق میری نظر بخش دے
خرد کو غلامی سے آزاد کر
جوانو کو پیروں کا استاد کر
کبھی اے نوجوانو تدبر بھی کیا تو نے
وہ کیا گردوں تھا تو جس کا ہے اک ٹوٹا ہوا تارا؟
عقابی روح جب بیدار ہوتی ہے جوانوں میں
نظر آتی ہے ان کو اپنی منزل آسمانوں میں
وہی جواں ہے قبیلے کی آنکھوں کا تارا
شباب جس کا ہے بے داغ ضرب ہے کاری
محبت مجھے ان جوانوں سے ہے
ستاروں پہ جو ڈالتے ہیں کمند

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :