کہاں گیا ہمارا قومی کھیل؟

جمعرات 31 دسمبر 2020

Mohammad Ziad

محمد ضیاد

2 اگست 1948 کو ہاکی کو پاکستان کا قومی کھیل قرار دیا گیا. اور اس وقت یہ وہ واحد کھیل تھا جس میں پاکستان کو دنیا کی سب سے بہترین ٹیم مانا جاتا تھا. چار مرتبہ عالمی کپ جیتنے کا اعزاز اس کے ساتھ ساتھ تین مرتبہ اولمپک میں سونے کا تمغہ جیتنے کا اعزاز صرف پاکستان کے پاس تھا اور اب بھی ہے مگر سوال اٹھتا ہے کہ کہاں گیا ہمارا قومی کھیل؟ کیا ہم بھول گئے اپنے قومی کھیل کو؟
وہ ایک وقت میں دنیا پر راج کرنے والی ٹیم جس کے سامنے مخالف ٹیم کے پسینے چھوٹ جاتے تھے.

وہ ٹیم جو میدان میں صرف جیت کا عزم لے کے اترتی تھی. وہ سبز لباس میں ملبوس ٹیم جس نے مخالف ٹیموں کو ان کے گھروں میں جا کر شکست دی. وہی ٹیم آج عالمی رینکینگ میں 17 نمبر پر ہے جو ہاکی کی تاریخ میں پاکستان کی سب سے کم ترین رینکینگ ہے. لیکن سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا ہمارا قومی کھیل سیاست کی بھینٹ چڑھ گیا یہ ہمارے ملک سے ہاکی کا ٹیلنٹ ختم ہو گیا.

چار مرتبہ عالمی کپ جیتنے والی ٹیم اولمپکس کے لیے کوالیفائی ہی نہ کر سکی.
کیا آپ لوگ سوچ سکتے ہیں کہ فٹبال کا عالمی کپ ہو اور اس میں برازیل، جرمنی اور ارجنٹینا جیسی ٹیمیں شامل نہ ہوں ایسا تو ممکن دکھائی نہیں دیتا پر ہاکی میں ہمیں یہ دیکھنے کا موقع مل گیا کہ کوئی عالمی مقابلہ پاکستان کے بغیر کھیلا گیا ہے.پاکستان کی ہاکی کا زوال اچانک ہی نہیں آیا بلکہ یہ دھیرے دھیرے بڑھتا گیا اور موجودہ وقت میں بلکل ہی سر کے اوپر آ پہنچا ہے .

اس زوال کا آغاز 1986 کے عالمی کپ سے ہوا جو کہ انگلینڈ میں کھیلا گیا جس میں پاکستان نے 12 ٹیموں میں سے 11ویں پوزیشن حاصل کی جس کے بعد ہمارے قومی کھیل کو کسی کی بری نظر لگ گئ اور اس وقت پاکستان میں تقریباً ہاکی کا مکمل اختتام نظر آ رہا ہے مگر مسئلہ یہ ہے کہ یہ آج بھی پاکستان کا قومی کھیل ہے. اس کھیل کی تباہی کا ذمہ دار حکومت وقت بھی ہے جو کہ قومی کھیل پر توجہ دینے کے بجائے کرکٹ پر زیادہ توجہ دے رہی ہے.

ایک طرف تو ایک ایک کھلاڑی پر کروڑوں کی بولی لگائی جا رہی ہے اور دوسری طرف قومی کھیل کی فیڈریشن کے پاس باہر کے ملکوں میں جا کر رہنے کے بھی پیسے نہیں ہیں. 1986 کے عالمی کپ میں جہاں پاکستان کو عبرت ناک شکست ہوئی وہاں ہی کچھ ایسی باتیں بھی سامنے آئیں جن پر یقین کرنا قدرے مشکل تھا شاہد علی خان جو کہ اس وقت پاکستان کے ٹاپ گول کیپر تھے انھوں نے ورلڈ کپ کے بعد بتایا کے حکومت کی طرف سے ہر کھلاڑی کو ایک میچ کے صرف 27 روپے ملتے تھے اور جب وہ اس میں اضافے کا کہتے تو ان کے ساتھ قیدیوں جیسا سلوک کیا جاتا تھا.

جس سے یہ بات صاف ظاہر ہو رہی کہ قومی کھیل کی تباہی میں حکومت  بھی شامل تھی. قومی کھیل کو وہ توجہ نہ ملی جو کرکٹ اور دوسرے کھیلوں کو مل رہی ہے. ایک دور تھا جب ہاکی کا جنون بلندیوں کو چھو رہا تھا جب گلی گلی میں بچے ہاتھوں میں ہاکی اسٹک اٹھا کر گھومتے تھے آج اسی ہاکی اسٹک کو صرف سکول کالجز اور کچھ فلموں میں دوسروں کی پٹائی کرتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے.

اس وقت پاکستان کے کچھ لوگوں کو باہر کے ملکوں کی فٹبال ٹیم کے کھلاڑیوں کے نام تو آتے ہوں گے پر وہ سہیل عباس کے نام سے واقف نہیں ہوں گے. وہ کھیل جس نے پاکستان کا نام فخر سے بلند کیا جس نے اس دنیا میں موجود 195 ممالک میں سے پاکستان کو سب سے پہلے نمبر پر لایا وہ کھیل پاکستان سے بالکل غائب ہو گیا. آج کرکٹ پر تو اتنی انویسٹمنٹ کی جا رہی ہے جگہ جگہ کرکٹ کے گراؤنڈ نظر آ رہے ہیں سال میں بہت سے کرکٹ کے ایونٹ کروائے جا رہے ہیں اور وہیں قومی کھیل پر کسی کی توجہ ہی نہیں جا رہی.

شاید ہم لوگ بھول چکے ہیں کہ ہاکی ہمارا قومی کھیل ہے. حکومت کو چاہیے کہ وہ باقی کھیلوں کے ساتھ ساتھ ہاکی پر بھی اتنی ہی توجہ دے تاکہ پاکستان ایک بار پھر ہاکی کے کھیل میں پوری دنیا پر راج کرے اور اپنا کھویا ہوا مقام دوبارہ حاصل کرے یا پھر بہت جلد ایسا وقت آنے والا ہے کہ پاکستان کو اپنا قومی کھیل تبدیل کرنا پڑھ جائے گا�

(جاری ہے)


ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :