کیا ہم گِدھوں کے دیس کے باسی ہیں؟

جمعرات 5 مارچ 2020

 Mohsin Bashir Arby

محسن بشیر عاربی

انسان اپنی روزمرہ کی زندگی سے تھک ہار کر، کچھ فارغ وقت سوشل میڈیا پہ گزارنے کو آتا ھے، کہ چلیں کچھ ریلیکس ہو جائیں، پر یہاں تو عام زندگی کے مسائل سے کئی گُنا بڑے مسائل سامنے آ کھڑے ہوتے ہیں، ریلیکس ہونا تو دور کی بات، انسان الٹا نئی الجھن اور وسوسوں کا شکار ہو جاتا ھے، شاید ھی کوئی ایسا دن گزرتا ہوگا کہ جب سوشل میڈیا پہ کوئی ایشیو جنم نہ لے، روز ایک نئی کہانی، ایک نیا پراپیگینڈا، ایک نئی لا حاصل بحث اور نہ ختم ہونے والے اخلاقی پن کا دیوالیہ دیکھنے کو ملتا ھے، کچھ دن پہلے پی ایس ایل کی افتتاحی تقریب منعقد ہوئی، وہ تقریب یقیناً بد انتظامی کا شکار تھی اور اس پہ ضرور سیریس تنقید ہونی چاہیے عوامی حلقوں کی جانب سے، مگر جو تنقید ہمیں سوشل میڈیا پر دیکھنے کو ملی، کیا وہ جائز تھی؟ پرگروام کے ایک ہوسٹ احمد گوڈیل کے ساتھ ہم نے جو سلوک کیا، کیا وہ کسی اخلاقی جواز کے ساتھ قابل قبول تھا؟ اس بیچارے نے اپنی پوزیشن واضح کی اپنی قوم کو جواب دینے کیلئے کہ وہ بے قصور تھا، بد انتظامی کی ذمہ دار انتظامیہ تھی، اور اسکا نتیجہ یہ نکلا کہ پی سی بی نے اسکو نوکری سے نکال دیا اور باقی ہم سب ہتھیار لیکر اس پر چڑھ دوڑے، زرا اندازہ کی جئے سوشل میڈیا کی منفی طاقت کا کہ ایک بندہ اپنی نوکری اور شاید مستقبل سے ہاتھ دھو بیٹھا، خُدا جانے یہاں تک پہنچنے میں اس نے کتنی محنت کی ہو گی، مگر ہمیں کیا، ہمیں تو بس تفریح چاہیے، چاہے وہ تنقید کے نام پہ دوسروں کی تذلیل کر کے ھی کیوں نا ملے، کیا تنقید اور تذلیل کا فرق روا نہیں رکھا جانا چاہیے؟؟ یہ تو بات ہو گئی عام عوام کی۔

(جاری ہے)

چھوڑئیے، اب آگے چلتے ہیں۔ کچھ باذوق اور بظاہر باوقار حلقوں کی بات کر لیتے ہیں، پھر ایک نئی کنٹرو'ورسی سننے میں آئی پی ایس ایل کے ترانے کو لیکر۔ علی عظمت صاحب نے ڈھکے چھپے لفظوں میں علی ظفر کو تنقید کا نشانہ بنایا، تو علی ظفر نے شاید اسکو انا کا مسئلہ بنا لیا، بھائی نے ایک زبردست ترانا بنانے کے عزم کا اعادہ کیا، اور ایک نیا ترانہ لانچ کیا، سچی بات ھے کہ پی ایس ایل کے آفیشل ترانے کی طرح علی ظفر(بھائی) کے ترانے نے بھی سخت مایوس کیا، یہاں سوال یہ اٹھتا ھے کہ لوگوں کو اگر علی عظمت والا ترانہ اُتنا پسند نہیں آیا، تو پہلے اتنے بڑے آرٹسٹ کو اپنی انا کا مسئلہ نہیں بنانا چاہیے تھا کہ ساتھی فنکار پہ بے جا الزامات لگا کر ایک نئے شعلے کو ہوا دی جائے، اور اگر ایک سئنیر ساتھی فنکار نیبکچھ کہہ ھی دیا تھا، تو علی ظفر نے کو اس حد تک نہیں جانا چاہیے تھا،فون اٹھاتے اور علی عظمت سے بات کر کے معاملہ کلئیر کر لیتے، مگر حیرت ہوتی ھے یہ دیکھ کر کہ لوگ اتنی عزت، شہرت اور دولت کے باوجود بھی کتنے چھوٹے ہوتے ہیں اپنے قد میں، علی عظمت اور علی ظفر، دونوں کہ یہ سب زیب نہیں دیتا تھا،اور اب آتے ہیں موجودہ ہاٹ ٹاپک کی طرف، خلیل الرحمن قمر اور ماروی سرمد کی تازہ ترین لڑائی کی ویڈیو، جو اس وقت ہر جگہ موضوع بحث ھے۔

خلیل صاحب بنیادی طور پر ایک قدامت پسند نکتہ نظر رکھنے والے طبقے سے تعلق رکھتے ہیں اور ماروی سرمد صاحبہ ایک لبرل اور فیمی نیسٹ طبقہ فکر سے تعلق رکھتی ہیں، اور دونوں طبقہ فکر بالکل ایک دوسرے کے مخالف ہیں ہر اعتبار سے۔ پروگرام کے دوران خلیل صاحب نے اپنی بات کرنا چاہی تو بیچ میں ماروی صاحبہ نے انکو ٹوکنے کی کوشش کی، اور پھر وہ طوفان بد تمیزی برپا ھوا کہ اللہ کی پناہ۔

میری زاتی رائے میں خلیل صاحب نے ایک عورت کے لئے جو زبان استعمال کی، وہ ہر اعتبار سے قابل مذمت ھے۔ کسی کے نقطہ نظر سے اختلاف آپکو یہ حق نہیں دیتا کہ آپ گالیوں کے ہتھیار لیکر اپنے مخالف پر چڑھ دوڑیں، جب کہ مخالف ایک عورت ھو، آپ عورت کے احترام کے داعی ہیں تو آپکو ہر عورت کا احترام کرنا ہوگا، یہ نہیں ہو سکتا کہ آپ نیشنل ٹی وی پہ ایک عورت کو گالیوں سے نوازیں اور پھر بولیں کہ میں تو عورت کی عزت کرتا ہوں، وہ عورت آپکی کچھ نہیں لگتی، مگر وہ کسی کی تو ماں، بہن اور بیٹی ھے، کیا آپ اپنے گھر کی عورتوں کا ساتھ ایسا رویہ برداشت کریں گے، جب آپکا مخالف بھی اپنی کسی دلیل کے ساتھ انکو گالیوں سے نوازے گا،کیا تب بھی آپ یہی بھاشن دینا پسند کریں گے؟؟ دوسری طرف ماروی صاحبہ کو بھی سوچنا ہوگا، ایک عورت ہو کر اس طرح سے بات کرنا، کسی بھی عورت کو زیب نہیں دیتا۔

خُدا نے بڑی شائستگی اور نرمی رکھی ھے عورت کی شخصیت میں، اور ایسا رویہ بالکل بھی کسی عورت کی شخصیت کے شایان شان نہیں۔ موصوفہ پہلے بھی کئی پروگرامز میں ایسے ھی مردوں سے پیش آئی ہیں، اور میں اس رویے کو بھی کسی طور قبول کرنے کو تیار نہیں، یہ تو حال تھا ان دو لوگوں کا، جو بظاہر ایک پڑھے لکھے اور دانشور طبقے سے تعلق رکھتے ہیں، اُنکا یہ حال ھے تو زرا سوچئے کہ چائے کے ڈھابے پہ بیٹھے عام پاکستانیوں سے کیا توقع رکھیں گے آپ؟؟ خلیل الرحمن اور ماروی سرمد، دونوں کا رویہ قابل مذمت تھا، اور دونوں کی طرف داری کرنے والوں سے میرا ایک مودبانہ سوال ھے کہ دونوں نے ایک دوسرے کے ساتھ جو کیا،آپ میں سے کون کون اپنے ساتھ ایسے ھی رویے کو برداشت کرے گا؟؟؟ اگر نقطہ نظر سے اختلاف کا مطلب اگلے پہ چڑھ دوڑنا ھے، پھر کوئی نہ کوئی تو آپکا بھی مخالف ہو گا، کیا آپ اپنے مخالف کو یہ اجازت دیں گے کہ وہ بھرے بازار میں آپکو یوں رسوا کرے؟ خُدارا کوئی تو ان ابنارمل رویوں کو بدلنے کی کوشش کرے، کوئی تو ٹی وی پہ آکر اپنی ذمہ داری پوری کرے اور لوگوں کی اخلاقی تربیت کا کوئی سامان ھو، تا کہ ہم ان متشدد اور ابنارمل رویوں سے اپنی آنے والی نسلوں کو محفوظ رکھ سکیں، کیسا عجیب قحط ھے ہمارے معاشرے میں کہ ہم تو دوسرا اشفاق احمد بھی پیدا نہیں کر سکے کہ جو ہمیں ٹی وی اور کتابوں کے ذریعے علم اور روشنی بانٹ سکے، یقین کی جئے کبھی کبھی مجھے لگتا ھے کہ ہم انسانوں کے نہیں، بلکہ گِدھوں کے دیس کے باسی ہیں،جہاں ہر طرف گِدھ اپنے شکار کی تلاش میں منڈلا رھے ہیں، اور جب بھی کسی کو کمزور یا مشکل صورت حال میں دیکھتے ہیں، تو اپنے شکار پہ جھپٹ پڑتے ہیں، خُدارا اپنے رویوں کو متوازن کی جئے، پہلے سے تباہ حال اس معاشرے کو مزید برباد مت کی جئے، ورنہ پھر یقین رکھئے، آپکا مخالف بھی ایک گِدھ کی طرح آپ پر تاک لگائے بیٹھا ھے،اور جس لمحے وہ آپکو ذرا کمزور پائے گا، وہ بھی آپ پہ جھپٹ پڑے گا، مگر تب سوائے پچھتاوے کے کچھ ہاتھ نہیں آئے گا۔

۔۔ خُدا ہم سب کا حامی و ناصر ہو، آمین۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :