بیوروکریسی کی کارکردگی اور نیب

جمعرات 10 جون 2021

Mohsin Goraya

محسن گورایہ

قوانین،قاعدے اور ضابطے کی اہمیت ہر دور  اور  ہر ملک میں ہمیشہ رہی ہے، مگر کالے قوانین  سے  بچنا چاہئے  ،قاعدے قانون کسی ایک طبقے، مخصوص افرادیا کسی ادارے کے تحفظ کیلئے مرتب نہیں کئے جاتے  بلکہ یہ ملکی اداروں اور محکموں کو چلانے کے لئے ہوتے ہیں۔ ادارے اور محکمے اچھے انداز سے اپنے دائرہ کار میں رہتے ہوئے  کام کریں  تو  ملکی معاملات بہتر انداز میں   چلتے نظر آتے ہیں  مگر  تحریک انصاف حکومت جب سے بر سر اقتدار آئی ہے حکومت بیوروکریسی اور بیوروکریسی  نیب، میں عجیب قسم کی کھینچاتانی چل رہی ہے،اس کھینچاتانی نے گزشتہ تین سال سے بیوروکریسی کے سر پرکرپشن اور احتساب کے نام پر خوف و ہراس،غیر یقینی،بے اعتمادی کی تلوار لٹکا رکھی ہے جس کی وجہ  سے  سر کاری مشینری  عضو معطل بنی ہوئی ہے،کوئی سرکاری افسر نیب کے خوف سے کوئی بڑا  فیصلہ کرنے ،کسی منصوبے کو اپنے اختیار کے تحت منظور کرنے پر تیار نہیں جس کی وجہ سے   ترقی کا  پہیہ گھمانے  میں سخت مشکلات کا سامنا ہے ۔

(جاری ہے)

اس  وجہ سے عوام ہی نہیں تحریک انصاف کے ووٹر اور  کارکن بھی شش و پنج کا شکار اور بد دل ہیں،وزیر اعظم عمران خان کو بھی صورتحال کا ادراک ہونے کے بعد ایک سے زائد بار بیوروکریسی کو  فری ہینڈ دینے کا اعلان کرنا پڑا مگر  عملی طور پر  قوانین  جوں کے توں ہیں  اس لئے   خوف بھی ابھی تک چھایا ہوا ہے ۔
 نیب کے خوف اور ہتھکنڈوں کا سب سے  زیادہ نقصان مرکزی اور پنجاب حکومت کو ہو رہا ہے۔

پنجاب میں اکثر  محکموں کی کارکردگی  کسی زمانے میں ایکیسیلینٹ ہوتی تھی اب تو شائد  اس کیٹیگری میں بہت کم محکمے ہیں  باقی محکموں کی کارکردگی زیادہ تر  ایوریج  ہی ہے۔شائد کسی کو اس سے غرض بھی نہیں ہے۔سیاسی باسز اور انتظامی افسروں میں ایک خلیج ہے جو بڑہتی چلی جا رہی ہے ،وزیر اعلیٰ عثمان بزدار نے کچھ عرصہ قبل  صوبائی محکموں کی اب تک کی کارکردگی کا جائیزہ لینے  کا آغاذ کیا تھا جو بڑا مستحسن اقدام تھا مگر تین چار محکموں کی کارکردگی کے جائیزہ اجلاسوں کے بعد  یہ کام بھی  نہ جانے کیوں بند کر دیا گیا،اگر یہ کام اور اجلاس جاری رہتے تو اس کا فائدہ نہ صرف وزیر اعلیٰ کو خود ہوتا بلکہ صوبے کو بھی ہوتا ،ایک تو پتہ چلتا کہ کونسا محکمہ اور کون سا سیکرٹری کتنا کام کرتا ہے؟ وہ کارکردگی میں  کہاں کھڑا ہے ؟ دوسرا  محکموں اور سیکرٹریوں کو بھی اندازہ ہوتا کہ  انکی کارکردگی بھی چیک ہو رہی ہے  ورنہ یہاں تو باتیں کارکردگی کی بجائے کچھ اور چیک ہونے کی ہو رہی ہیں۔

اچھی کارکردگی کی بات کی جائے تو محکمہ داخلہ پنجاب کی کارکردگی بہت ہی اعلیٰ  جا رہی ہے ،ایڈیشنل چیف سیکرٹری  داخلہ  مومن علی آغا ایک بہت ہی سیزنڈ اور محنتی افسر ہیں وہ پنجاب سے جانا چاہتے ہیں مگر  چیف سیکرٹری  ان کے جانے کے لیے ابھی مان ہی نہیں رہے۔بورڈ آف ریونیو  بھی اس سال کارکردگی میں بہت اچھا جا رہا ہے ،وزیر اعلیٰ  بابر حیات تارڑ کی کارکردگی سے بہت خوش ہیں ۔

محکمہ مواصلات و تعمیرات  اور اس کے سیکرٹری کیپٹن اسد بھی کارکردگی میں بہت اچھے اور اوپر ہیں،میں  نہیں کہتا کہ  اس محکمے سے کرپشن کا خاتمہ ہو چکا ہے مگر ٹاپ لیول پر کام انتہائی شفاف طریقے سے  ہو رہا ہے۔
صوبائی سیکرٹری خزانہ  افتخار علی سہو  کے خلاف ان دنوں سازشوں کا جال بنا جا رہا ہے  اور انہیں تبدیل کرنے کی باتیں ہو رہی ہیں کہا جا رہا ہے کہ وہ کام نہیں کرتے  ، حالانکہ وہ ایک محنتی اور اپ رائٹ افسر ہیں ، بجٹ کی وجہ سے انکی تبدیلی روکی گئی ہے دیکھیں یہاں کام کرنے والا کون آتا ہے،کام سے مراد کیا ہے اس  کی سمجھ بھی نئے  آنے والے سے لگ جائے گی۔

ایک طرف نیب کا خوف اور بے جا پکڑ دھکڑ نظر آتی ہے اس کے بعد  کام ایک حد تک ہی ہو  سکتا ہے ۔
   وزیر اعظم عمران خان نے گریڈ بائیس کے لئے اجلاس بلانا تھا  اس کابھی اعلیٰ بیوروکریسی کو بہت انتظار ہے ،پنجاب سے وزیر اعلیٰ کے پرنسپل سیکرٹری طاہر خورشید اور ایڈیشنل چیف سیکرٹری ارم بخاری گریڈ اکیس میں اپنا عرصہ تعیناتی مکمل کر چکے ہیں اور انہیں گریڈ بائیس کا انتظار ہے  جس کے بعد پنجاب میں مزید اعلیٰ سطحی تبدیلیاں  آ سکتی ہیں۔

گریڈ بائیس کے لئے پہلے تو صرف ایک ہی شرط تھی کہ متعلقہ افسر نے گریڈ اکیس میں دوسال سروس کی ہو مگر اب ایک اور  شرط بھی لگا دی گئی ہے کہ  متعلقہ افسر وفاق میں  خدمات سر انجام دے رہا ہو ،دیکھتے ہیں اب کیا بنتا ہے   اس سے قبل پنجاب میں چیف سیکرٹری جواد رفیق ملک اور سینئر ممبر بورڈ آف ریونیو  بابر حیات تارڑ کے پاس گریڈ بائیس ہے ۔
بات نیب اور بیوروکریسی سے شروع ہوئی تھی ،   ڈاکٹر عشرت حسین اور شیخ رشید  اعتراف کر چکے ہیں کہ بیوروکریسی نیب سے ڈری ہوئی ہے جس کے باعث حکومتی اقدامات کے ثمرات عام شہری تک نہیں پہنچ پا رہے،ان کے مطابق حکومت اپوزیشن کو  بھی اس سلسلے  میں ساتھ لیکر چلنا چاہتی ہے  ۔

حکومت اپوزیشن میں معاملہ یہ ہے کہ اپوزیشن ایسی ترامیم لانا چاہتی ہے جس سے ان کی قیادت کو ریلیف مل سکے جبکہ حکومت  صرف وہی شقیں تبدیل کرنا چاہتی ہے جو کاروباری برادری اور بیوروکریسی کے حوالے سے ہیں تاکہ ان کو کام کرنے اور کاروبار کے فروغ میں معاون ہو سکیں،حکومتی ترامیم وہی ہیں جو 2019ء کے آرڈیننس میں موجود ہیں یہ آرڈیننس اپنی آئینی مدت کے خاتمے کے بعد غیر موثئر ہو چکا ہے،اس آرڈیننس میں بیورو کریسی اور کاروباری برادری کو نیب کی ہراسگی سے بچانے کیلئے قابل تعریف اقدامات کئے گئے تھے،  آرڈیننس کا مقصد ہی بیوروکریسی کے اعتماد کو بحال کر کے آزادی سے فیصلے کرنے کیلئے ان کی حوصلہ افزائی کرنا تھا تاکہ  کہ فائلیں نہ روکی جائیں اور سرکاری امور کی انجام دہی بر وقت ہو سکے،صرف سرکاری افسروں ہی نہیں سرکاری عہدیداروں (سیاستدانوں) کو بھی نیک نیتی سے قانونی تحفظ فراہم کیا گیا تھا،یہ بات بھی یقینی بنائی گئی تھی کہ سرکاری امور کی انجام دہی میں ذاتی مفاد کے بجائے ریاستی مفاد کو یقینی بنایا جا سکے۔

جب تک نیب کے اختیارات کم نہ کئے گئے بیوروکریسی کام کر پائے گی نہ کاروبار ترقی کرے گا،اس آرڈینینس کی مدت کے خاتمہ پر ایک مرتبہ پھر بیوروکریسی اور کاروباری افراد نیب کے نشانہ پر ہیں،کیونکہ نیب کے پرانے اختیارات بحال ہو چکے ہیں،جس کے بعد فریقین نے حکومت پر واضح کر دیا کہ اس ماحول میں کام نہیں کر سکتے،اس حوالے سے تحفظات سے وزیر اعظم کیساتھ آرمی چیف کو بھی آگاہ کیا گیا تھا،اور ان سے مدد طلب کی گئی تھی۔اس تمام صورتحال میں احتساب کی اہمیت سے بھی انکار ممکن نہیں مگراس کیلئے چنگیز خانی قوانین کے بجائے دوستانہ قوانین بھی بنائے جا سکتے ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :