
بڑےا فسر اور چھوٹے شہر
جمعرات 8 جولائی 2021

محسن گورایہ
آج اگر ہم دیکھیں تو سرکاری افسر تو درکنار عام شہری بھی اپنی زمین مال مویشی بیچ کر شہروں کا رخ کر رہے ہیں ،ہر سرکاری افسر کی خواہش ہے کسی بڑے شہر یا گردو نواح میں تعیناتی ہو سکے،بات اسی حد تک رہتی تو گزارا ہو جاتا ، چھوٹے شہروں میں سہولتوں کے اضافے کے باوجود بڑے افسر اب بھی لاہور اور پنجاب کے بڑے شہروں میں تعیناتی کیلئے بضد ہیں جبکہ صوبائی افسروں کی اکثریت تو لاہور چھوڑنے کو ہی تیار نہیں حالانکہ انکی اکثریت کا تعلق دیہات سے ہے۔
(جاری ہے)
اس صورتحال کی بہت سی وجوہات ہیں مگر اہم ترین چھوٹے شہروں قصبوں اور دیہات میں جدید بنیادی سہولیات کا فقدان ہونا ہے،اسی وجہ سے کوئی سینئر استاد دیہات یا قصبے کے تعلیمی ادارہ میں جانے ،کوئی ڈاکٹر دیہی علاقوں میں کسی ہسپتال میں تعیناتی،کوئی ضلعی افسر کسی پسماندہ تحصیل یا ضلع میں جانے کو تیار نہیں،وجہ پسماندہ اور دور دراز علاقوں میں سہولیات کا نہ ہونا ہے،کہیں اچھے تعلیمی ادارے نہیں جن میں یہ افسر اپنے بچوں کو تعلیم دلا سکیں،جدید سہولیات سے آراستہ ہسپتال نہیں جہاں وہ اپنے اہل خانہ کا فوری اور معیاری علاج معالجہ کرا سکیں،افسروں کی تفنن طبع اور اچھا وقت گزارنے کیلئے دیہی علاقوں میں جمخانہ طرز کے کلب بھی نہیں،ان سہولیات کی کمی کی وجہ سے افسر دیہی ،پسماندہ اور دور دراز علاقوں میں تعیناتی کو اپنے لئے سزا سمجھتے ہیں،اس رویہ کی سزا دیہی عوام کو بھگتنا پڑ رہی ہے،کہ ان
کو اچھے اساتذہ،ڈاکٹر اور افسر دستیاب نہیں،موجودہ دور میں دیہی لوگ بھی جدید ترین سہولتوں کے حقدار ہیں،قواعد کے مطابق افسر بھی
اپنی تعیناتی کے مقام پر جوائیننگ دینے کے پابند ہیں مگر ایسا نہ ہونے کی وجوہات پر توجہ نہیں دی گئی مگر اب دیہی علاقوں میں سہولیات دینے کی ضرورت ہے ورنہ دیہی اور پسماندہ علاقوں میں ترقی کا خواب شرمندٔہ تعبیر نہ ہو سکے گا۔
اشد اور فوری ضرورت سرکاری افسروں کی دیہی اور پسماندہ علاقوں میں دلچسپی پیدا کرنے کی ہے،دلچسپی کے بناء کوئی افسر کسی جگہ تعیناتی کی صورت میں نتائج نہیں دے سکتا، تاہم اگر سرکاری افسر کے فرائض کی انجام دہی میں اس کی دلچسپی بھی ہو تو بد ترین حالات میں بھی وہ بہترین خدمات انجام دے سکتا ہے ڈیلیور بھی کر سکتا ہے اور عوام کو ریلیف بھی دینا ممکن ہو سکتا ہے،دیہی اور پسماندہ علاقوں میں خدمات انجام نہ دینے کی ایک وجہ وہاں کے سیاسی رہنمائوں،جاگیر داروں کا انتہا درجے با اثر اور طاقتور ہونا بھی ہے،یہ لوگ نہ کسی
قاعدے قانون کو مانتے ہیں نہ کسی سرکاری افسر کی ان کے سامنے کوئی اہمیت ہے،ہر حکومت میں ان کے مراسم ہوتے ہیں انہی مراسم اور اپنی ذاتی قوت کی وجہ سے کوئی افسر عوام کو ریلیف دینے والا ایسا کوئی کام نہیں کر سکتا جو ان با اثر افراد کو ناپسند ہو،اولین ضرورت دیہی علاقوں میں قانون کی حکمرانی کی ہے،سیاسی اثر و رسوخ کو عوام کی بھلائی کیلئے استعمال میں لانا ہو گا،ہر شہری کو قانون کا پابند بنانا ہو گا تا کہ سرکاری افسر بغیر کسی رکاوٹ اور مخالفت ،ڈر اور خوف،دبائو کے بغیر قانون کے مطابق فرائض انجام دے سکے۔
یہ بات اب کوئی خفیہ راز نہیں کہ بعض با اثر لوگ ابھی تک اپنے علاقہ میں تعلیمی ادارہ قائم نہیں ہونے دیتے انہیں خدشہ لا حق رہتا ہے کہ اگر ان کی مملکت کی رعایا پڑھ لکھ گئی تو حقوق اور قانون کی بات کریگی اور اس کی غیر اعلانیہ رعیت سے نکل جائیگی،یہ لوگ اپنی مرضی کا پٹواری اور تھانیدارتعینات کرا کے ان کے ذریعے سے اپنی حکمرانی قائم کرتے ہیں،ہسپتالوں میں ڈاکٹر بھی ان کی مرضی سے تعینات ہوتے ہیں،تحصیل کی سطح تک کے افسر بھی ان کی جنبش پلک کے محتاج ہوتے ہیں،سب سے اہم یہ کہ ان کے بچوں کی تعلیم کیلئے اچھے تعلیمی ادارے دستیاب نہیں عمارات ہیں تو اچھے اساتذہ کی کمی ہے،ہسپتال اور ڈسپنسریاں یا بنیادی مراکز صحت ہیں تو اچھا عملہ دستیاب نہیں افسروں کو فارغ اوقات میں تفریح کے مواقع نہیں،صبح و شام کی واک کیلئے ٹریک یا پارک نہیں،علاج کرانے کیئے ڈاکٹر بھی نہیں تو ایسے میں کون اپنی جان جوکھم میں ڈالے گا،لہٰذا کوئی سرکاری افسر کسی بھی شعبے سے ہو دیہی یا دور دراز پسماندہ علاقہ میں جانے کو تیار نہیں۔
ضروری ہے کہ دیہی اور دور دراز پسماندہ علاقوں میں سرکاری افسروں کو زندگی کی تمام بنیادی اور جدید سہولیات موقع پر فراہم کی جائیںتا کہ کوئی افسر کہیں بھی تعینات ہو وہ اس جگہ سے اجنبی نہ ہواس کی دلچسپی کا ماحول ہو تاکہ وہ پوری لگن اور دل جمعی سے اپنے فرائض انجام دے اور تعیناتی کی جگہ کو بھی اپنا گھر سمجھے،سہولیات کی عدم فراہمی پر افسروں کو لاہور یا ایسے شہروںجہاں سہولیات دستیاب ہیں سے نکالنا ممکن نہیں اور اگر کوئی نئی تعیناتی پر جوائیننگ دے بھی دے گا تو فرائض منصبی ادا کرنے میں اس کی دلچسپی کم سے کم ہو گی،وہ وہاں سے بھاگنے کے بہانے ڈھونڈے گا،وقت گزاری کر کے اپنا عرصہ تعیناتی قیدی کی طرح گزارے گا،ایسی سوچ کے افسر سے ڈیلیوری اور نتائج کی توقع حماقت ہو گی، حکومت نے اس وقت ڈویزن لیول پر کافی سہولیات دی ہیں مگر انتہائی ضروری ہے کہ دیہی پسماندہ اور دور دراز علاقوں میں ضلع اور تحصیل کی سطح پر بڑے شہروں کے برابرسہولیات دی جائیں۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
محسن گورایہ کے کالمز
-
اعتماد سے عاری اپوزیشن
جمعرات 17 فروری 2022
-
ٹکے ٹوکری سیکرٹیریٹ
منگل 15 فروری 2022
-
مقامی حکومتیں ضروری ہیں
ہفتہ 12 فروری 2022
-
’’آ ملے ہیں سینہ چاکان چمن سے سینہ چاک‘‘
منگل 8 فروری 2022
-
پنجاب ،بلدیاتی انتخابات اور گورننس؟
جمعرات 3 فروری 2022
-
چیف سیکرٹری پنجاب ؟
پیر 31 جنوری 2022
-
مقامی حکومتیں اور با اختیار بیوروکریسی
جمعرات 27 جنوری 2022
-
صدارتی نظام کی باتیں؟
پیر 24 جنوری 2022
محسن گورایہ کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.