"بچوں کا میڈیا سے لگاؤ اور دین سے دوری"

جمعرات 4 مارچ 2021

Mubashar Hassan Yousaf

مبشر حسن یوسف

آج جس موضوع پر میں یہ تحریر لکھ رہا اس سے پہلے بھی اس موضوع پر کئ بڑے مصنفوں،کالم نگاروں اور تجزیہ نگاروں نے لکھا اور بات چیت کی ہوئی ہے۔اب رہ گئ بات میرے لکھنے کی تو شاید کوئی ایک بندہ بھی پڑھ کر عمل کرلے تو ہمارہ فرض پورا ہو جائے گا۔
آج کے جدید دورمیں آپ دیکھتے ہیں کہ ہر دوسرے والدین اس بات کی شکایت کرتے ہوئے دیکھائی دیتے ہیں کہ،ہمارے بچے نافرمان دین سے دور اور ہر وقت موبائل فونز, گیمز اور مویز وغیرہ دیکھنے میں مصروف رہتے ہیں۔


تو میرے بھائیو اور بہنو ! اس میں سراسر قصور ہمارا ہی ہے۔آئیں اب اس پر دلیل سے بات کرتے ہیں کہ ہمارا قصور کیسے ہے؟؟باقی فیصلہ آپ پہ ہے
1.حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت باسعادت کے زمانے میں عربوں میں یہ رواج تھا کہ،جب کوئی نومولود پیدا ہوتا ،تو اسکی پرورش کے لیے اسے دائیوں کے ساتھ دیہاتوں میں بھیج دیا جاتا تھا،تاکہ وہاں وہ اپنی اصل روایات،اچھے اخلاق اور اصل زبان سیکھیں کیونکہ ہم سب جو دیھاتوں سے شہروں آکر آباد ہیں اچھی طرح جانتے ہیں کہ،ہماری مادری زبان بولنے اور گاؤں میں موجود مادری زبان بولنے میں کتنا فرق ہوتا ہے.ہمارے شہر میں پیدا ہونے والے بچے اور گاؤں کے بچے کی جسامت میل جول اور رکھ رکھاؤ میں کتنا فرق ہوتا ہے۔

(جاری ہے)


2.مؤرخین لکھتے ہیں کہ،جب حضرت شیخ عبد القادر جیلانی رحمتہ اللہ علیہ پیدا ہوئے تو انکو قرآن مجید کے تین پارے یاد تھے،اور اسکی وجہ یہ بیان کی گئی ہے کہ،جب وہ اپنی ماں کے پیٹ میں تھے تو آپ کی والدہ کثرت سے کلام الٰہی کی تلاوت کیا کرتی تھیں۔
3.ہر ایک بندہ اس بات کو جانتا اور مانتا ہے کہ،اسرائیل جو ایک چھوٹا سا ملک ہے ،مگر سائنس اور ٹیکنالوجی کی دنیا میں سب سے آگے ہے،اور اگر چاہے تو امریکہ جیسی سپر پاور کو تگنی کا ناچ نچا سکتا ہے۔

آپ کو باور کرانا چاہتا ہوں کہ،اس بات پر ریسرچ کی گئی تھی کہ،اسرائیل اتنا چھوٹا ہونے کہ باوجود اتنا آ گے کیوں ہے؟؟ تو پتہ چلا کہ انکی عورتیں جب انکے پیٹ میں بچہ ہوتا ہےوہ ریاضی،سائنس اور فزکس کو بھت زیادہ پڑھتی ہیں ،جسکی وجہ سے انکا ہر پیدا ہونے والا بچہ کسی نہ کسی طرح سے ٹیکنالوجی سے آشنا ہوتا ہے۔
4.اب بات کرتے ہیں گھرکی۔ریسرچ سے یہ بات ثابت ہے کہ، پاکستان میں موجود گھریلو خواتین اور نوجوان نسل اپنا کام کرنےکے بعد ٹی وی،سوشل میڈیا کا استعمال کرتے ہیں۔

جبکہ آج سے ڈیڑھ دھائی پیچھے جایا جائے تو سوشل میڈیا کا استعمال بھت کم تھا اور لوگ فارغ وقت میں ایک دوسرے کو ٹائم دیتے تھے۔
کہنا یہ چاہتا ہوں کہ چونکہ ہماری نوجوان نسل موبائل فونز،ٹی وی ،اور سوشل میڈیا کا بھت زیادہ استعمال کرتی ہے،اور آ جکل تو جب بچہ  روتا ہے تو  اس کو  چپ کروانے کے لیے بھی ماں باپ موبائل پر کوئی گانا وغیرہ لگا کے سناتے ہیں اور اس طرح وہ عادی ہو جاتا ہے،پھر جب بچہ موبائل کا استعمال کرتا ہے تو ہم حیران ہوتے ہیں۔ میری گزارش ہے،کہ بچوں کو نیک اور صالح بنانے کے لیے دعاؤں کے ساتھ مناسب اقدامات کریں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :