جہیز ایک لعنت

ہفتہ 1 مئی 2021

Muhammad Ahsan Ul Haq

محمد احسان الحق

جہیز ایک ناسور ہے جو ہمارے معاشرے میں کینسر کی طرح پھیل چکا ہے۔ اس لعنت نے لاکھوں بہنوں اور بیٹیوں کی زندگی کو جہنم بنا رکھا ہے۔ ان کی معصوم آنکھوں میں بسنے والے رنگین خواب چھین لئے ہیں۔ ان کی آرزؤں، تمناؤں اور حسین زندگی کے سپنوں کا گلا گھونٹ دیا ہے۔ انہیں ناامیدی، مایوسی اور اندھیروں کی ان گہری وادیوں میں دھکیل دیا ہے جہاں سے اُجالے کا سفر ناممکن ہو چکا ہے۔

یہ ایک رسم ہے جس سے صرف غریب والدین زندہ درگور ہو رہے ہیں اور اس آس پر زندہ ہیں کہ کوئی فرشتہ صفت انسان اس لعنت سے پاک دو جوڑا کپڑوں میں ان کے لخت جگر کو قبول کر لے لیکن ہمارے معاشرے میں جو رسمیں رواج پا چکی ہیں اور وہ وقت گزرنے کے ساتھ اپنے قدم مضبوطی سے جما لیتی ہیں ان سے چھٹکارا پانا ناممکن ہے۔

(جاری ہے)

درحقیقت جہیز خالص ہندوستانی رسم ہے اور ہندو معاشرے میں تلک کے نام سے مشہور ہے جسے آج ہمارے مسلم معاشرے نے اپنا لیا ہے۔

اس لعنت نے موجودہ دور میں ایسے پھن پھیلا لئے ہیں کہ غریب گھروں میں پیدا ہونیوالی لڑکیاں شادی سے محروم اپنی چار دیواری میں بیٹھی رہنے پر مجبور ہیں۔ جہیز ایک غلط اور فطرت کے خلاف رسم ہے۔ آج اس رسم نے جو قبیح صورت اختیار کر لی ہے اس کی مثال نہیں ملتی۔
یہ درست ہے کہ کچھ سال قبل جن اشیاء کو قیمتی شمار کیا جاتا تھا وہ آج معمولی ضروریات زندگی بن چکی ہیں لیکن اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ جہیز کے نام پر لڑکی کے والدین کو قرض کے سمندر میں ڈبو دیا جائے۔

اگر غور سے مطالعہ کیا جائے تو آج کل انسان ایک سائنسی دور سے گزر رہا ہے۔ بالخصوص ہمارے معاشرے میں غریبوں کی کوئی اہمیت نہیں وہ محض رینگتے کیڑے مکوڑے ہیں جنہیں ہر کوئی مسلتا ہوا آگے نکل جاتا ہے۔ غریب کے گھر اگر بیٹی پیدا ہو جائے تو ایک طرف خدا کی رحمت اور جب شادی کی عمر کو جائے تو زحمت بن جاتی ہے کیونکہ لڑکے والے جہیز جیسی لعنت کا تقاضا کرتے ہیں۔

جہیز کی اصل حقیقت اس کے سوا کچھ اور نہیں کہ لڑکی کے والدین جنہوں نے اسے پال پوس کر بڑا کیا اور گھر کی دہلیز سے رخصت ہوتے وقت اگر کچھ تحفے دیتے ہیں تو اسے جہیز نہیں بلکہ اپنی اولاد سے محبت و تعلق کی بناء پر فطری عمل ہے لیکن موجودہ دور میں ان تحائف کی جو حالت بنا دی گئی ہے وہ پہلے کبھی نہ تھی۔ ماں باپ کے ان تحفوں کو لڑکے والوں نے فرمائشی پروگرام بنا دیا ہے اور پورا نہ ہونے پر ظلم و زیادتی کی جاتی ہے جو کہ سراسر ناانصافی ہے۔

یہی وجہ ہے کہ پہلے یہ سماجی رسم ہوا کرتی تھی آج جہیز بن گیا ہے۔ اس لعنت کی وجہ سے جو ظلم و ستم بہو بیٹیوں پر کئے جاتے ہیں وہ بیان نہیں کئے جا سکتے۔
جہیز دینا بری بات نہیں، والدین اپنی حیثیت و استطاعت کے مطابق جو اپنی بیٹی کو دے سکتے ہیں دیتے ہیں۔ اور وہی لڑکے والوں کو قبول بھی کرنا چاہیے۔ جہیز کو لعنت اس لئے کہا جاتا ہے کہ اکثر لڑکے والے باقاعدہ جہیز کا مطالبہ کرتے تھےجو غیر اخلاقی ، انتہائی نامناسب اور بہت بری بات ہے۔

بہت سے خاندان لڑکی والوں سے جہیز میں گاڑی، موٹرسائیکل یا قیمتی اشیاء کی ڈیمانڈ کرتے ہیں یہ جانتے ہوئے بھی کہ لڑکی والوں کی معاشی حیثیت کمزور ہے اور پھر رشتوں کی خاطر لڑکی کے بھائی یا والد لڑکے والوں کے مطالبات پورا کرنے کی کوششوں میں لگ جاتے ہیں۔ لڑکی کی پیدائش جو کہ اسلامی تعلیمات کی روشنی میں خوش بختی کی علامت ہے۔ اس کو اس مطالبے نے بدبختی میں تبدیل کر دیا ہے۔


میرا لڑکیوں کو مشورہ ہے کہ جہاں سے جہیز کا مطالبہ ہو وہاں شادی نا کریں، کیونکہ جو لوگ گاڑی، فریج اے سی دیکھتے ہیں وہ لوگ رشتوں کی قدر نہیں کرتےاور نا ہی ایسے لوگوں کے نزدیک رشتوں کی کوئی اہمیت ہوتی ہے۔ رشتہ وہیں کریں جہاں پر آپ کی قدر ہو نا کہ جہیز کی۔ میں حیران ہوں کہ ایک باپ اپنی بیٹی اپنے جگر کا ٹکڑا کسی کو سونپ رہا ہوتا ہے۔

جو کہ ایک با پ کی کل کائنات ہوتی ہے اس کے باوجود لوگ اسے چیزوں میں تولتے ہیں۔ ایک باپ اپنی زندگی کی انمول دولت اپنی بیٹی تمہارے حوالے کر رہا ہے جو آگے چل کر تمہارا خاندان چلائے گی مگر تم اس کے باوجود گاڑی ، فریج ، موٹرسائیکل وغیرہ کو اہمیت دیتے ہو؟ افسوس ہے ایسے لوگوں پر اور ایسے لوگوں پر صرف افسوس ہی کیا جا سکتا ہے۔
حکومت کو چاہئے کہ جیسے رات گئے شادی بیاہ اور شوروغل پر پابندی عائد کی ہے ویسے ہی ایک قانون بنایا جائے جس سے جہیز لینے دینے کو جرم قرار دیا جائے اور جو اس جرم کا ارتکاب کرے گا اسے جیل اور بھاری جرمانے کئے جائیں تاکہ ایسا کوئی آئندہ گھناؤنا مطالبہ نہ کرے۔

اس کو ختم کرنے کیلئے سخت کارروائی کی ضرورت ہے ۔ معاشرے میں جہیز جیسی لعنت کو ختم کرنے کیلئے والدین کو بھی سختی سے عمل کرنا ہو گا۔ وہ عہد کریں کہ نہ جہیز دیں گے اور نہ لیں گے۔ لوگوں کو بھی بتایا جائے کہ جہیز مانگنا ہی جرم نہیں بلکہ اپنی حیثیت سے بڑھ کر تحائف کے نام پر جہیز دینا یا اپنی جائیداد وغیرہ فروخت کرکے جہیز کے مطالبات پورے کرنا ایک اخلاقی جرم ہے۔

ہمارے معاشرے میں جہیز کے علاوہ بہت سی غیراسلامی رسمیں پائی جاتی ہیں جن کی وجہ سے سماج میں زبردست بے چینی بڑھ رہی ہے۔ امراء کیلئے کوئی بات نہیں لیکن غریبوں کیلئے بیٹیاں مصیبت ثابت ہو رہی ہیں اور ہزاروں لڑکیاں اس ناسور کی بھینٹ چڑھ رہی ہیں۔ جہیز کا لین دین غیراسلامی ہے۔ اس گھناؤنی غیراسلامی رسم کو ختم کرنے میں نوجوان اہم رول ادا کر سکتے ہیں۔ یہ اسی صورت ممکن ہے جب آج کی نسل جہیز کا لالچ اپنے دلوں سے نکال دے اور معاشرے میں اپنے اس مخلصانہ عمل سے انقلاب برپا کرے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :