پاکپتن کی تاریخ

بدھ 12 مئی 2021

Muhammad Ahsan Ul Haq

محمد احسان الحق

پاکپتن جس کا پرانا نام (اجودھن) تھا۔ اجودھن دریائے ستلج کے پار ایک فیری سروس کا محل وقوع تھا۔ جس نے اسے قدیم تجارتی راستوں کا ایک اہم حصہ قرار دیا جو کہ ملتان کو دہلی سے ملاتا تھا۔ پنجاپ کے فلیٹ میدانی علاقوں پر اپنی حیثیت کے پیش نظر اجودھن وسطی ایشیاء سے دسویں صدی کے آخر میں شروع ہونے والے حملوں کا شکار بنا تھا۔ اس پر 78-977 عیسویں میں سیبکٹی گین اور 80-1079ء میں ابراہیم غزنوی نے قبضہ کیا تھا۔


مغربی سلطنت کے پھیلتے ہوئے دباؤ کے نتیجے میں ترک آباد کار بھی اس خطے میں پہنچے اور اس طرح حضرت بابا فریدٖٖؒکی آمد کے وقت اجودھن میں پہلے سے ہی ایک مسجد اور مسلم برادری موجود تھی۔ جو کہ 1195 عیسویں میں ملتان کے قریب اپنے آبائی گاؤں کوٹھیوال سے اس شہر ہجرت کر کے آئے تھے۔

(جاری ہے)


اجودھن جو کہ تجارتی راستوں پر اپنی حیثیت کے پیش نظر ایک خوشحال شہر تھا۔

حضرت بابا فریدؒ نے اجودھن شہر میں ایک جامع تعمیر کی تھی۔ جہاں پر لوگ مذہبی تعلیم کے لیے جمع ہوتے تھے۔ اس شہر میں جہاں پر ہندوؤں اور سیکھوں کی بڑی تعداد موجود تھی۔ ہندوؤں اور سیکھوں کی بڑی تعداد ہونے کے باوجود اتنی تیزی سے لوگوں کو اسلام قبول کرتے دیکھا گیا۔
؎                                                     دہلی سے جب حضرت بابا فرید گنج شکرؒ پاکپتن تشریف لائے۔

جسے اُس وقت اجودھن کہا جاتا تھا۔ نماز عصر کا وقت تھا۔ آپ ؒ نے دیکھا کہ دریائے ستلج کا ایک کنارہ ہے جو کہ پختہ ہے۔ پختہ جگہ جو دریا کے کنارے اسے پتن کہا جاتا ہے۔ جہاں پر لوگ کشتیوں سے سامان بھی اتارا کرتے تھے۔ آپ ؒ وہاں پر بیٹھ کر وضو کرنے لگے۔ آپ نے اپنی آستین کو اونچا کیا۔ تو ایک ہندو جوگی جو پاس کھڑا  دیکھ رہا تھا۔اس نے دیکھا کہ میرے علاقے میں پہلی مرتبہ اتنے حسین اور ،اتنی نورانی صورت والا کوئی شخص آیا ہے ۔

وہ قریب آیا اور آکر کہنے لگا آپ اس علاقے میں پہلی مرتبہ آئے ہیں۔
آپ ؒ نے کہا جی میں پہلی مرتبہ آیا ہوں ۔ اس نے پوچھا تو آپ کیا کرنے لگے ہیں۔ آپؒ نے کہا میں وضو کرنےلگا ہوں۔ اس نے کہا آپ مسلمان ہیں۔ آپ ؒ نے کہا الحمد اللہ ۔
اُس نے کہا کہ یہ پختہ کنارہ جو ہے جیسے پتن بھی کہتے ہیں۔ یہاں پر اس بستی میں جب کوئی مر جاتا ہے۔ تو ہم یہاں پر لا کر اُسے جلاتے ہیں۔

اور تمہارے مذہب میں تمہارے دین میں اس جگہ کو ناپاک سمجھا جاتا ہے۔ آپ وضو کرو گے پانی زمین پر گرے گا اور اس کے چھینٹوں سے آپ کا لباس خراب ہو گا۔ آپ اس طرح کرو تھوڑا اوپر چلے جاؤ جہاں پر مٹی ہے۔ وہاں کنارے پر بیٹھ کر وضو کر لیں۔
تو حضرت بابا فرید رحمتہ اللہ نے جب یہ سنا ۔ آپ ؒ نے اپنی نگاہوں کو اٹھایا آپ مسکرائے تو اس کی زندگی میں پہلی مرتبہ ایک خاص سوزوگداز محسوس ہوا۔


؎                                  ایک عیشوا گر نے جامع تبسم پلا دیا
                                                                                                                        دل لٹ گیا ضرور مگر لطف آ گیا
آپ ؒ نے فرمایا کہ جب سے میں نے ہوش سنبھالا ہے۔ تو اُس وقت سے لے کر آج تک میں نے زندگی کا ہر قدم اُٹھانے سے پہلے ہر کام کرنے سے پہلے ، زبان سے ہر جملہ ہر لفظ نکالنے سے پہلے میں نے یہ ضرور سوچا ہے۔

کہ کہیں اس سے کسی دوسرے انسان کا دل تو نہیں دکھے گا۔ کوئی مجھ سے ناراض تو نہیں ہو جائے گا۔ اور اب اللہ رب العزت نے میری زبان میں اتنی تاثیر دے دی ہے۔ کہ مجھے امید ہے کہ اگر میں اپنے رب کی بارگاہ میں دست طلب بلند کروں گا۔ اس کی بارگاہ میں جھولی پھیلاؤں ، دعا کروں تو اللہ کریم میری دعا کو رد نہیں فرمائے گا۔ اور پھر فرمایا کہ قیامت تک یہ بات میری یاد رکھنا ۔

کوئی اس پتن کو جہاں پر فرید الدینؒ بیٹھ گیا ہے۔ اب کوئی مائی لا ل اے ناپاک نہیں کہے گااور قیامت تک دنیا اسے پاکپتن کہے گئی۔
1265ء میں بابا فریدؒ کی وفات کے بعد یہاں پر ایک مزار تعمیر کیا گیا۔ جس میں ایک مسجد ، لنگر خانہ، اور دیگر عمارتیں تھیں۔ یہ مزار جنوبی ایشیاء کے پہلے اسلامی مقدس مقامات میں شامل تھا۔ بعد میں یہ شہر حضرت بابا فریدؒ کے مزار کی وجہ سے ایک وسیع اسلامی دنیا میں زیارت کا مرکز بن گیا۔


حضرت بابا فریدؒ کے مزار کی ساکھ اور اثرورسوخ پھیلتے ہی یہ قصبہ بڑھتا ہی چلا گیا۔ ایک اہم تجارتی راستہ ہونے کی وجہ سے اس مقام کو اور بھی تقویت ملی۔پاکپتن وہ واحد شہر ہے۔ جہاں پر بڑی بڑی نامور شخصیات آئیں۔ 1334ء میں عرب محقق ابن بطوطہ نے اس شہر کا دورہ کیا۔ اور آپؒ کے مزار پر حاضری دی۔ محمد بن قاسم جیسی شخصیات اور 1500ء کے اوائل میں سکھ مذہب کے بانی بابا گرونانک آپؒ کی شاعری جمع کرنے کے لیے اس شہر کا دورہ کیا۔


پاکپتن 16 ویں صدی تک اجودھن کے نام سے ہی جانا جاتا تھا۔ اب یہ شہر دو الفاظ پر مرکوز ہے۔ پاک اور پتن ۔ جس کا مطلب خالص اور گودی ہے۔ ضلع پاکپتن پاکستان کے صوبہ پنجاب کا ایک ضلع ہے۔ ۔ پاکپتن کا پرانا نام اجودھن تھا مشہور شہروں میں پاکپتن اور عارف والہ شامل ہیں۔ 1998ء کی مردم شماری میں پاکپتن کی آبادی کا تخمینہ 12,86,680 لگایا گیاتھا۔ ضلع پاک پتن میں عمومی طور پر پنجابی، اردو زبانیں بولی جاتی ہیں۔

پنجابی عام فہم علاقائی زبان ہے جبکہ اروو اکثر لوگ سمجھتے ہیں۔ اس کا رقبہ 2724 مربع کلومیٹر ہے۔ یہاں کی مشہور ترین جگہ دربار بابافریدالدین گنج شکر ہے جو پاکپتن شہر میں واقع ہے۔ پاکپتن شہرمیں ایک مٹی سے بھری ہوئی اونچی پہاڑی نما جگہ بھی ہے جس کو ڈھکی یا النگ (لوکل زبان میں) کہتے ہیں، اسی ڈھکی یا النگ پر حضوربابا فریدالدین کا دربار ہے۔

ایسی ہی ایک اور ڈھکی پاکپتن ضلع کی تحصیل عارف والا کے ایک چھوٹے شہر قبولہ میں بھی ہے۔ ضلع پاکپتن میں دو نہریں پورے ضلع کو سیراب کرتی ہیں۔ شروع میں نہرایک ہی ہے جس کا نام (پاکپتن) ہے جبکہ کمہاری والا کے مقام پراس سے ایک برانچ نہر نکلتی ہے جس کا نام “کھادربرانچ“ ہے، بڑی نہر کے دونوں طرف واقع گاؤں کے نام گنتی اور ایس پی کے ساتھ درج ہیں، مثلا چک نمبر39ایس پی، چک نمبر6ایس پی، چھوٹی نہر کھادربرانچ کے سیراب شدہ گاؤ‎ں کے ناموں کے ساتھ کے بی لگایا گیا ہے مثلا چک نمبر2 کے بی، چک نمبر11کے بی وغیرہ۔ضلع پاکپتن میں مشہور شہر ملکہ ہانس واقع ہے۔اس شہر کی مسجد وارث شاہ کے ساتھ ملحقہ حجرے میں بیٹھ کر سید وارث شاہ نے پنجابی ادب کا مشہور شاہکار ہیر وارث شاہ لکھی۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :