ہمارے مسیحا

پیر 15 مئی 2017

Muhammad Arslan Farid

محمد ارسلان فرید

وہ لوگ جو روزگار کی تلاش میں دوسرے شہر جاتے ہیں ان لوگوں کا سب سے بڑا مسئلہ کھانے پینے کا ہے۔ ہوٹل سے کھانا کھانے کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں، اور آپ روزانہ کی بنیاد پر باہر سے کھانا کھایں اور بیمار نہ ہو ایسا کیسے ممکن ہے۔ میں بھی ان ہی لوگوں میں سے ایک ہوں اور ملتان سے لاہور روزگار کے لئے آیا ہوا ہوں۔ اللہ کی کرنی ایسی ہوئی کہ میں پچھلے دنوں بیمار ہو گیا اور لاہور کے کلینک پر چلا گیا، ڈاکڑ صاحب نے ایک لمبا چوڑا نسخہ تھما دیا خیر میں نے اس نسخے پر باقاعدگی سے عمل جاری رکھا مگر طبیعت تھی کے سنبھلنے کی بجائے اور بگڑتی جا رہی تھی، آخر کار میں نے ملتان اپنے بھائی سے رابطہ کیا تو اس نے مشورہ دیا کے آپ ملتان آجائو یہاں کسی دوسرے ڈاکٹر کو دکھا دیتے ہیں، میں نے اپنا بوریا بستر باندھا اور کچھ دنوں کی چھٹی لے کر ملتان چلا گیا۔

(جاری ہے)

ملتان جا کر ایک ڈاکٹر سے ملا اور اسے اپنے لاہور والے ڈاکٹر کا نسخہ دکھایا اور اپنی بیماری سے متعلق بتایا تو ڈاکٹر صاحب اپنا سر پکڑ کر بیٹھ گئے۔ میرے استفسار پر انہوں نے بتا یا کے اس نسخے میں ایک ہی قسم کی تین مختلف کمپنیوں کی گولیاں لکھی ہوئی ہیں، جو بیماری مجھے تھی وہ تو ٹھیک ہو گئی مگر مقدار زیادہ ہونے کی وجہ سے میرے معدہ پر اثر پڑا اور ایک اور بیماری لاحق ہوگئی۔

نئے ڈاکٹر صاحب نے مجھے میری نئی لاحق ہونے والی بیماری کی دوائی دے کر رخصت کردیا۔ مجھے اب یہ تجسس تھا کے پہلے والے ڈاکٹر نے مجھے زیادو دوائی کیوں دی۔ جب میں نے تحقیق کی تو ایک عجیب کہانی سامنے آئی۔ آپ میں سے بھی اکثر لوگ بیمار ہوتے ہوں گے اور ڈاکٹر کے پاس جاتے ہوں گے، ڈاکٹر کے کلینک پر مریضوں کے ساتھ ہاتھ میں بیگ اٹھائے خوش لباس لوگ دیکھے ہوں گے انہیں میڈیکل ریپس کہتے ہیں، یہ فارماسوٹیکل کمپنیوں کے نمائندے ہوتے ہیں اور ان کا کام ڈاکٹر کو اپنی کمپنی کی مارکیٹ میں نئی آنے والی دوائی کے بارے میں آگاہ کرنا ہوتا ہے۔

یہ لوگ ڈاکڑز کو کمپنی کے خرچے پر باہر کے ملکوں کے ٹور بھی کرواتے ہیں، ڈاکڑز اور ان کی فیملی کے لئے تحفے تحائف دیتے ہیں تاکہ ڈاکڑ صاحب مریضوں کے نسخے میں ان کی کمپنی کی دوائی کو لکھ کر دیں۔ اب اگر ڈاکٹر صاحب نے ایک ہی طرح کی دوائی بنانے والی مختلف کمپنیوں سے تحائف لے لئے تو سب کمپنیوں کو راضی کرنے کے لئے وہ مریض کے نسخے میں ہر کمپنی کی دوائی کو لکھ کر دیں گے۔

مریض مرتا ہے تو مرے اپنی بلا سے مگر دوائی بنانے والی کمپنیوں کو خوش ہونا چاہئے ورنہ ڈاکٹر صاحب کو تحفے کیسے ملیں گے۔ خیر میں نئے ڈاکڑ صاحب کا نسخہ لے کر ایک میڈیکل سٹور پر گیا، میڈیکل سٹور کا مالک میرا جاننے والا تھا وہ نسخے کو دیکھ کر بولا کے جو دوائی اس میں لکھی ہوئی ہے اس کی گولی 35 روپے کی ہے، کیوں نہ میں تمہیں جس فامولے سے یہ گولی بنی ہے اسی فارمولے کی ایک اور کمپنی کی بنی ہوی گولی دے دوں جو کہ 10 روپے کی ہے۔

قیمت کا فرق جان کر میں حیران رہ گیا، میں نے پوچھا کے آخر فرق کیا ہے ان دونوں میں تو کہنے لگا کہ جی صرف کمپنی اور اس کی پیکنگ کا فرق ہے باقی دوائی کام ایک جیسا ہی کرے گی، مہنگی کمپنی اپنی دوائی کی مشہوری زیادہ کرتی ہے اور سستی والی مشہوری نہیں کرتی یہ ایسا ہی ہے جیسے آپ ایک عام دکان سے سوٹ خریدیں تو وہ سستا ملے گا لیکن وہی سوٹ آپ اگر کسی مشہور برانڈ سے جا کر لیں تو آپ کو مہنگا ملے گا۔

اب سوال یہ ہے کہ کیا 10 روپے والی گولی کا فارمولا ناقص ہے؟ اگر ناقص ہے تو ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی اس کمپنی کو بند کیوں نہیں کرواتی اور اگر 35 روپے والی گولی میں بھِی وہی کچھ ہے تو اس کی قیمت اتنی زیادہ کیوں ہے؟ جیسے معاشرے میں امیر اور غریب کے تعلیم اور رہائش کا فرق ہے ویسے ہی اب اس میدان میں بھِی اس تفریق نے جنم لے لیا ہے۔ اگر آپ غریب ہو تو 10 روپے والی گولی کھائو اور اگر امیر ہو 35 روپے والی۔

لیکن کیوںکہ 10 روپے والی گولی کی کمپنی کا نمائندہ جا کر ڈاکڑ صاحب کو تحفے نہیں دیتا اس لئے آپ امیر ہو یا غریب ڈاکٹر صاحب آپ کو 35 روپے والی گولی ہی لکھ کر دیں گے۔ بات یہاں پر ختم نہیں ہوئی، میں دوائی لے کر واپس لاہور آگیا اور کچھ دنوں بعد دوائی ختم ہونے پر لاہور کے ایک میڈیکل سٹور پر گیا اور وہاں سے 10 روپے والی گولی طلب کی تو وہ موجود نہیں تھی اب یہاں مجھے اس 35 روپے والی گولی کی قیمت 40 روپے بتائی گئی، کافی بحث مباحثے کے بعد میڈیکل سٹور کے مالک نے کہا کے جی یہاں ہمارے قریب اور کوئی دوسرا میڈیکل سٹور نہیں ہے ہماری گولی 40 روپے کی بکتی ہے اگر آپ کو لینی ہے تو لیں ورنہ کہیں اور سے جا کر لے لیں۔

نہ چاہتے ہوئے بھی مجھے وہ گولی 40 روپے میں لینی پڑی کیوںکہ اس سے پہلے میں 2 میڈیکل سٹور والوں سے بحث کے بعد اس گولی کو لینے سے انکار کر چکا تھا۔ بات 5 روپے کی نہیں ہے بات اصول کی ہے۔ دوائی بنانے والی کمپنیوں سے لے کر ڈاکٹار اور میڈیکل سٹورز تک آوے کا آوا بگڑا ہوا ہے۔ اور اس سارے معاملے میں نقصان میں صرف وہ مریض ہے جو مقدس لباس اوڑھے ان حیواںوں کے چنگل میں آ پھنستا ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :