ریاست مدینہ، حقیقی تبدیلی

اتوار 2 ستمبر 2018

Muhammad Arslan Farid

محمد ارسلان فرید

پاکستان میں عام انتخابات کے بعد جناب عمران خان صاحب نے ملک کے 22ویں وزیر اعظم کا حلف اٹھا لیا ہے وہ اپنی کابینہ منتخب کر چکے ہیں صرف 12 دنوں میں کافی جرات مندانہ فیصلے لے بھی چکے ہیں۔ وہ یہ ثابت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ انہوں نے عام انتخابات کے دوران جو وعدے کیے وہ محض سیاسی وعدے نہیں تھے۔ عمران خان صاحب اپنی تقاریرمیں کہا کرتے تھے ہم پاکستان کو ایک فلاحی ریاست بنائیں گے ہم پاکستان کو مدینہ کی ریاست بنائیں گے۔

سوال یہ ہے کہ کیسے؟ دنیا میں سب سے زیادہ حاجیوں کی فہرست میں پاکستان کا دوسرا نمبر ہے اور ایماندار ملکوں میں 160واں، نماز کے دوران ہمارا دھیان چپل پرزیادہ ہوتا ہے کہ کوئی اٹھا کر نہ لے جائے، سنت ہمارے نزدیک صرف داڑھی رکھنا ہے، جیسے مرضی پیسے کمائو محل نما گھر بنائو اور اس پرا بڑا سا لکھو "واللہ خیر الرازقین" دو حج کرو اور فخر سے اپنے نام کے ساتھ حاجی صاحب لکھوا لو، ہمسائے کے حقوق ادا کرنا تو درکنار ہمیں یہ بھی نہیں پتا ہوتا کے ساتھ والے گھر میں کون رہائش پذیر ہے، اور اس طرح کے بے شمار معاشرتی مسائل ہیں جنہیں ہم مسائل ہی نہیں گردانتے لیکن درحقیقت انہی باتوں سے ایک اچھا معاشرہ وقوع پذیر ہوتا ہے، صرف نظام کو ہی نہیں عوام کو بھی ٹھیک کرنا ہوگا اور عوام تب تک ٹھیک نہیں ہو سکتی جب تک وہ اسلام کی روح کو سمجھ نہ لیں، لیکن اصل مسئلہ ہی یہ ہے کہ کون سا اسلام، خان صاحب آپ کو حکمرانی کے لئے ایک قوم نہیں بلکہ فرقہ واریت میں تقسیم ہجوم ملے ہیں جو اپنی مسجدوں کے باہر بڑے فخر سے بورڈ آویزاں کرتے ہیں کہ یہاں فلاں فرقے والے لوگوں کا داخلہ منع ہے، جو اپنے مسلمان بھائیوں پر بلا جھجک  کفر کے فتوے لگا دیتے ہیں، اگرکوئی غیرمسلم یہاں مسلمان ہونا چاہے تو وہ اس شش و پنج میں مبتلا ہوجاتا ہے کے وہ کس فرقے کے اسلام کو اپنائے تو وہ صحیح مسلمان ہو گا۔

(جاری ہے)

آخر یہ مذہبی منافرت کیا ہے اسے کیوں ہوا دی جاتی ہے، ہمارے نبی کریم نے تو ہمیں ایک اسلام دیا تو یہ اتنے سارے فرقے کس لئے، ہمارا رب ایک رسول ایک قرآن مجید ایک تو ہمارے ہاں قرآن مجید کے مختلف اردو ترجمے کیوں، ہمارے ہاں علما کونسل ہے، وزارت مذہبی امور ہے کیا ریاست قرآن مجید کا ایک متفقہ سرکاری اردو ترجمہ و تفسیر شایع نہیں کروا سکتی، کیا ہمارے ریاستی علما کا کام محض عید کا چاند دیکھنا ہے جب یہ لوگ اپنے سیاسی مفاد کی خاطر اکٹھے ہو سکتے ہیں تو اس ہجوم کو قوم بنانے میں اپنا کردار ادا کیوں نہیں کرسکتے۔

اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے، قرآن مجید ہمیں جینے کا زندگی گزارنے کا سلیقہ سکھاتا ہے مگر ہمارے ملک میں اکژیت نے یا تو قرآن مجید پڑھا نہیں اور اگر پڑھا بھی ہے تو محض عربی زبان میں ثواب کی نیت سے، اس میں کوئی شک نہیں کے عربی میں پڑھنے سے ہمیں ثواب تو ملتا ہے مگر چونکہ عربی ہماری مادری زبان نہیں تو ہم اسے سمجھنے سے قاصر ہیں، اور اگر سمجھ ہی نہیں پائے تو اس پر عمل کیسے ممکن ہے۔


میرے نزدیک یہ ریاست کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ لوگوں کو قرآن مجید کی تعلیمات دے اور اس پر کام ہو بھی رہا ہے، قرآن مجید کی بہت سی سورۃ بمعہ ترجمہ بچوں کے نصاب کا حصہ ہے، لیکن مسئلہ یہ ہے کے یہ بچوں کو جس عمر میں پڑھایا جاتا ہے اس عمر میں بچے اس کو سمجھنے سے قاصر ہوتے ہیں اور دوسرا یہ کہ چونکہ بہت سے بچے سکولوں میں نہیں جاتے تووہ محروم رہ جاتے ہیں یا وہ بچے جو مغرب طرز کے پرائیویٹ سکولوں میں پڑھتے ہیں وہ بھی محروم رہ جاتے ہیں۔

میری تجویز یہ ہے کہ  ریاست قرآن مجید کا ایک متفقہ سرکاری اردو ترجمہ و تفسیر شائع کروائے اور اس کے بعد سرکاری سطح پر ایک ڈپلومہ طرز کا پروگرام شروع کیا جائے جس میں اس قرآن مجید کی تعلیم دی جائے،  ہر 16 سال سے بڑی عمر کے لڑکے اور لڑکیوں پر  ڈپلومہ کی تعلیم کو لازمی قرار دیا جائے اور شناختی کارڈ کے حصول کے لئے اس ڈپلومہ کا حصول لازمی قرار دیا جائے۔ اس سے ہماری آنے والی نسل میں شعور آئے گا ، اس ڈپلومہ کی تربیت کے لئے رکھے لوگوں کو روزگار ملے گا اور  معاشرے میں حقیقی تبدیلی آئے گی۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :