زرعی معیشت کی تعمیر و ترقی میں قومی زبان کا کردار

بدھ 14 اکتوبر 2020

Muhammad Aslam Aloori

محمد اسلم الوری

ماہرین کہتے ہیں سائنس و ٹیکنالوجی کی ترقی ذرائع پیداوار، عوام کے چال چلن، افکاروخیالات، عقائد و نظریات اور سماجی و معاشی اقدار و روایات پر اثر انداز ہو کر اس کے پورے سیاسی سماجی و معاشی ڈھانچے کو یکسر بدل دینے کا رجحان رکھتی ہے۔ تبدیلی کے اس عمل سے مختلف اقوام مختلف انداز میں متاثر ہوتی ہیں۔ کچھ قومیں بلا سوچے سمجھے خود کو ان تبدیلیوں کے رحم و کرم پر چھوڑ کر اپنی تاریخی و تہذیبی اقدار و روایات سے دستبردار ہوجاتی ہیں اور چلو ادھر کو ہوا ہو جدھر کی کے فارمولا پر عمل کرتے ہوئے نئے تہذیبی ڈھانچوں میں ڈھل کر اور ماضی سے کٹ کر ایک نیا مستقبل تخلیق کرتی ہیں۔


کچھ قومیں آگے بڑھ کر حکمت و بصیرت اور پورے تہذیبی شعور کے ساتھ صورتحال کا گہرا تجزیہ کرتے ہوئے منفرد انداز میں ان تبدیلیوں کی سمت ، رفتار اور شدت کا جائزہ لے کر اپنے سماجی و معاشی نظام کو مثبت اور مناسب انداز میں بدلنے کی راہ اپناتی ہیں اور سب سے زیادہ فائدے میں رہتی ہیں۔

(جاری ہے)


کچھ وہ ہیں جو ہماری طرح طرز کہن پر اڑے رہنے اور ہر تبدیلی کی مزاحمت کا فیصلہ کرتی ہیں ۔

وقت کا تیز رفتار دھارا انہیں روندتا ہوا آگے بڑھتا ہے اور ایک طویل عرصہ کے لئے انہیں تعمیروترقی کے عمل سے باہر کردیتا ہے اور یوں وہ ترقی کی دوڑ میں باقی اقوام سے پیچھے رہ جاتی اور پسماندہ کہلاتی ہیں۔
ہم آزاد ہوئے تو زرعی معیشت کہلاتے تھے۔ زرعی تعلیم و تحقیق اور زرعی ٹیکنالوجی کے بنیادی ڈھانچے سے محروم پست ترین پیداواری استعداد و صلاحیت کا حامل مصارف کثیر سے محض ترقی یافتہ ممالک کی صنعتوں کے لئے خام مال پیدا کرنے والا ایک زرعی ملک۔

ہم نے زرعی علوم و فنون کو اپنی زبان میں پڑھنے پڑھانے سمجھنے اور سیکھنے کی کوشش نہیں کی۔ بیرون ملک دنیا کی بہترین جامعات سے اعلی تعلیم و تربیت حاصل کرنے کے باوجود ہمارے زرعی سائنسدانوں اور تحقیق کاروں نے ان جدید علوم اور مفید معلومات کو اپنے ملک کے طلبہ اساتذہ زرعی شعبہ سے وابستہ صنعتی کارکنان کاروباری حضرات اور خاص کر کسانوں تک منتقل کرنے کی شعور ی اور منصوبہ بند کوشش نہیں کی۔

اس کے نتیجے میں زرعی سائنسدانوں اور اسٹیک ہولڈر ز کے درمیان ذہنی و فکری بعد نے جنم لیا۔
ہمارے ماہرین فارم، سائل سیڈ، فرٹیلائزر، ڈیزیز، واٹر، پیٹ پیسٹ ، پیس ٹی سائڈ ایلڈ ، کراپس ، ویجیٹیبل اور فروٹ کی زبان میں بات کرتا ہے جب کہ ہمارا کسان کھیت مٹی بیج کھاد بیماری پانی کیڑوں کیسے مار دواوں فی ایکڑ پیداوار فصلوں سبزیوں اور پھلوں کی بات کرتا ہے ۔

ہر دو طبقات کی لفظیات، نفسیات ، فکر و عمل اور زاویہ نظر یکسر مختلف ہوگئے۔ زرعی ماہرین و پالیسی سازوں کا زرعی شعبہ کے محنت کشوں کاروباری طبقات زرعی صنعت سے وابستہ کاری گروں سے عدم رابطہ نے زرعی شعبہ میں ہونے والی ترقیات سے استفادہ کی راہیں مسدود کردیں۔ہم اپنی قومی و مادری زبانوں میں جدید زرعی علوم و فنون کو ترقی دے کر زرعی معیشت کو جدید خطوط پر استوار کرسکتے تھے۔

ہم دور غلامی کی طرح بیرونی ممالک کی صنعتوں کے لئے سستا خام مال فراہم کرنے کی بجائے قدر افروز ی یا ویلیو ایڈیشن کے ذریعے خود زرعی مصنوعات بنا کر عالمی منڈی میں مسابقتی بنیادوں پر قیمتی زر مبادلہ کما کر اپنے محنت کشوں اور قوم و ملک کی تقدیر بدل سکتے تھے۔ ہم ملکی وسائل کو نت نئے چونچلوں میں برباد کرنے کی بجائے اپنے دیہی علاقوں میں قومی زبان کو ذریعہ تعلیم کے طور پر نافذ کرتے ہوئے علاقائی ضروریات اور مقامی معیشت و معاشرت کی روشنی میں جدید ٹیکنالوجیوں سے استفادہ کرتے ہوئے ایک مستحکم پیداواری نظام تشکیل دے سکتے تھے۔

ہم دیہی معیشت کو اردو میں دستیاب کمپیوٹر و انفارمیشن ٹیکنالوجی کی سہولیات کی مدد سے شہروں اور منڈیوں سے منسلک کرکے ذخیرہ اندوزی سمگلنگ اور ناجائز منافع خوری کا خاتمہ کرکے کسانوں کی آمدن میں اضافہ کرسکتے تھے۔ لیکن ہم نے بوجوہ اس طرف توجہ نہیں دی اور آج بھی قدرتی وسائل کی فراوانی کے باوجود ہم مختلف فصلوں سبزیوں اور پھلوں کی پیداواری استعداد کے اعتبار سے ہمسایہ ملک سے بھی پیچھے ہیں۔

گندم میں خود کفالت کے باوجود ہمارے 40 فی صد سے زائد عوام خط غربت سے نیچے زندگی بسر کررہے ہیں۔ اناج پیدا کرنے والا کسان آج خود نان جویں کو ترس رہا ہے۔ ان مسائل کا علاج آج بھی اپنی قومی و علاقائی زبانوں میں جدید زرعی علوم و فنون کی ترویج و ترقی ہے۔
جدید اطلاعاتی و ابلاغی ٹیکنالوجی اور سہولیات کے ذریعے زرعی معیشت سے وابستہ اسٹیک ہولڈر ز کو معیاری بیجوں، کھادوں، زمین اور پانی کے وسائل کے موثر استعمال ، جدید پیداواری طریقوں ، موسمی حالات، منڈیوں سے متعلق تازہ ترین صورتحال، فصلوں کی بیماریوں و مدافعتی تدابیر، برداشتی عمل اور پیداوار کی نقل و حمل کے دوران ہونے والے نقصانات سے بچنے کی تدابیر اور زرعی پیداوار و مصنوعات کی ارزاں نرخوں پر محفوظ طریقوں سے ذخیرہ کاری سے متعلق سہولیات اور جدید و مفید معلومات کی بروقت اور آسان ترسیل انگریزی میں نہیں فقط اپنی قومی و مادری زبانوں ہی میں ممکن ہے ۔

قومی زبان میں ہر ضلع کی زرعی معلومات اور اہم اعدادوشمار پر مشتمل جامع پروفائل یعنی معلوماتی اساسیہ  کی تیاری اور ویب گاہ پر اجرا زرعی تعلیم تحقیق تربیت اور ترقی کے لئے اہم اساس ثابت ہو سکتا ہے۔کیا ہمارے زرعی ماہرین، تحقیق کار، منصوبہ ساز اور ارباب اقتدار ان خطوط پر خود کو بدلنے کے لئے تیار ہیں؟

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :