حکمران نفاذ اردو کو سیاسی یا لسانی رنگ مت دیں

ہفتہ 24 اکتوبر 2020

Muhammad Aslam Aloori

محمد اسلم الوری

پی ڈی ایم میں شامل ایک قوم پرست رہنما  جناب محمود اچکزئی صاحب نے بھی دیگر علاقائی زبانوں کی طرف توجہ مبذول کراتے ہوئے اردو کو لنگوافرانیکا یعنی مختلف زبانیں بولنے والے عوام میں رابطہ کی زبان تسلیم کیا ہے۔ انہوں نے جس انداز اور لہجے میں یہ بات کی ہے اس سے شدید غلط فہمیاں پیدا ہونے کا امکان ہے۔یہی وجہ ہے کہ ان کے اس بیان کو بنیاد بنا کر ان کے سیاسی مخالفین نے اچکزئی صاحب کو اردو کا دشمن قرار دے کر  ان پر شدید تنقید اور  مذمت کا سلسلہ شروع کردیا ہے۔


ہمیں اپنے مختلف سیاسی زعماء کے بارے حسن ظن رکھنا چاہئیے کہ جو رہنما اظہار خیال کے لئے اپنی مادری زبان کی بجائے قومی زبان اردو کو اختیار کررہاہے وہ اردو کا دشمن ہر گز  نہیں ہوسکتا۔ اچکزئی صاحب بخوبی جانتے ہیں کہ اردو کے پی کے عوام کی تعلیمی کاروباری اور عوامی رابطہ کی ایک ناگزیر ضرورت ہے۔

(جاری ہے)

ہمارے ملک میں کے پی کے لوگوں کی ملک کے دیگر شہروں میں آمدورفت  سب سے زیادہ ہے۔

ایک شماریاتی جائزہ کے مطابق  پشاور سے زیادہ پختون کراچی میں آباد ہیں۔روزگار کے حصول کے لئے کے پی کے عوام قومی زبان اردو سیکھنے اور بولنے می  بہت فعال واقع ہوئے ہیں۔ ایک چھلی بیچنے والے سے لے کر اعلی سرکاری عہدے دار تک وہ دیگر زبانیں بولنے والے افراد کے ساتھ ہمیشہ اردو میں بات چیت کرنے کو ترجیح دیتے ہیں کیونکہ یہ رابطہ کی زبان ہے اور سیکھنے میں سب سے زیادہ آسان ہے۔

آج بھی تدریس اردو کا معیار دیگر صوبوں کے مقابلے میں کے پی میں بہتر ہے۔ مجلس دفتری اردو پنجاب اور ترقی اردو کے دیگر ادارے سردار عبدالر نشتر ہی کے دور حکومت میں قائم کئے گئے تھے۔ علی گڑھ دہلی اور دیو بند کے تعلیمی اداروں میں اردو ذریعہ تعلیم میں تعلیم پانے والے پختون افراد کی تعداد تمام صوبوں سے زیادہ ہے۔1973ء کے آئین میں اردو کو 3ماہ میں سرکاری زبان کے طور پر نافذ کرنے کا سب سے پرزور مطالبہ جے یو آئی کے رکن قومی اسمبلی مولانا غلام غوث ہزاروی مرحوم نے کیا تھا۔

اردو کو سب سے پہلے سرکاری زبان کے طور پر صوبہ سرحد اور بلوچستان میں فوری  نافذ کرنے کا فیصلہ  بھی مفتی محمود صاحب کے دور اقتدار میں  کیا گیا تھا۔ بلوچستان اسمبلی میں نفاذ اردو کی قرارداد بھی محمود اچکزئی کے والد شہید عبدالصمد اچکزئی نے پیش کی تھی۔ تمام پختون اور سندھ و بلوچستان کے سیاسی رہنما اہل پنجاب اور خود اہل زبان سے بہتر اردو بولتے ہیں۔

عدالت عظمی کے جس بینچ نے نفاذ قومی زبان کا حکم جاری کیا اس میں بھی جسٹس دوست محمد کا تعلق کے پی اور جسٹس قاضی فائز عیسی کا تعلق بلوچستان سے ہے۔
برایں وجوہ ہمیں اطمینان رکھنا چاہئیے کہ اردو ہماری زبان نہیں ہے والی بات اچکزئی صاحب  نے شائد اردو دشمنی میں نہیں بلکہ ایک حقیقت کے طور پر بیان کی ہے۔ یہی بات سابق گورنر جنرل خواجہ ناظم الدین نے اردو کو قومی و سرکاری زبان بنانے کی حمایت کرتے ہوئے یوں کہی تھی کہ اردو کی یہی خوبی ہے کہ یہ کسی ایک صوبے یا قوم کی زبان نہیں بلکہ یہ ہم سب کی مشترکہ زبان ہے اور اسی لئے یہ پاکستان کی قومی و سرکای زبان ہونے کی سزاوار ہے۔

وزیراعظم اور ان کی جماعت کو اس مسئلہ کو سیاسی یا لسانی رنگ دینے کی بجائے عدالت عظمی کے فیصلہ اور احکامات پر عمل کرتے ہوئے دستور پاکستان کی دفعہ 251  کی روح کے عین مطابق قومی زبان اردو کو بلا تاخیر اور پوری قوت سے نافذ کرنے اور دیگر پاکستانی زبانوں کی ترویج و ترقی کے لئے ٹھوس اقدامات کرنے چاہئیں تاکہ قوم انگریزی کے بلاجواز جبری تسلط سے نجات حاصل کرسکے اور اردو سمیت پاکستان کی تمام زبانیں نشو و نما پا کر قومی یک جہتی اور ترقی میں اپنا موثر کردار ادا کرسکیں۔

پیپلز پارٹی ایم کیو ایم نواز لیگ کے ارکان پارلیمان کو چاہئیے کہ وہ حکومت پر اردو کے فوری نفاذ کے لئے دباو ڈالیں۔ خود تحریک انصاف کے ارکان کو اپنے وزراء سے مطالبہ کرنا چاہئیے کہ وہ اپنے زیر انتظام وزارتوں میں اردو کے نفاذ کو یقینی بنائیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :