
نفاذ قومی زبان میں تاخیر کے مضمرات
ہفتہ 12 ستمبر 2020

محمد اسلم الوری
قومی زبان سے کسی ملک یا خطہ میں وسیع پیمانے پر یا قومی سطح پر عوام کے مابین باہمی رابطہ کی وہ زبان مراد ہے جو سارے ملک کو اتحاد و ابلاغ کے بندھن میں باندھے رکھتی ہے۔ قومی زبان ایک دوسرے کے عقائد و نظریات ، جذبات و احساسات اور افکاروخیالات کو سمجھنے میں معاون و مددگار ہوتی اور تعلیم کی اساس مضبوط کرتی ہے۔ اس لحاظ سے قومی زبان اتحاد و یکجہتی اور سلامتی و ترقی میں بنیادی کردار ادا کرتی ہے۔کسی قوم کا تشخص اس کی قومی زبان ہوتی ہے،جب زبان نیست و نابود ہو جائے تو تمدن اور تہذیبی و جاہت کا بھی خاتمہ ہو جاتا ہے۔
(جاری ہے)
‘‘ میں آپ کو واضح کردینا چاہتا ہوں کہ پاکستان کی سرکاری زبان اردو ہوگی اور صرف اردو۔۔اور اردو کے سوا اور کوئی نہیں۔ جو آپ کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتا ہے وہ پاکستان کا دشمن ہے۔ ایک مشترکہ سرکاری زبان کے بغیر کوئی قوم باہم متحد نہیں ہوسکتی اور نہ کام کرسکتی ہے۔ اگر پاکستان کے مختلف حصوں کو باہم متحد ہوکر ترقی کی شاہراہ پر گامزن ہونا ہے تو اس کی سرکاری زبان ایک ہی ہوسکتی ہے اور وہ میری ذاتی رائے میں ایک ہی ہوسکتی ہے اور وہ اردو ہے۔ اردو وہ زبان وہ ہے جسے برعظیم کے کروڑوں مسلمانوں نے پرورش کیا ہے، اسے پاکستان کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک سمجھا جاتا ہے۔ یہ وہ زبان ہے جو دوسری صوبائی اور علاقائی زبانوں سے کہین زیادہ اسلامی ثقافت اور اسلامی روایات کے بہترین سرمائے پر مشتمل ہے اور دوسرے اسلامی ملکوں کی زبانوں سے زیادہ قریب تر ہے۔ پاکستان کی سرکاری زبان جو مملکت کے مختلف صوبوں کے درمیان افہام تفہیم کا ذریعہ ہو، صرف ایک ہی ہوسکتی ہے اور وہ اردو ہے ، اردو کے سوا اور کوئی نہیں۔ قائد اعظم کا ڈھاکہ یونیورسٹی میں جلسہءعام سے خطاب(12تا 24مارچ 1948)
آئین پاکستان 1973ءمیں اردو کے نفاذ کا دستوری عہد
یہی وجہ ہے کہ اردو کو عوام کے منتخب نمائندوں کے بنائے تمام دساتیر میں پاکستان کی سرکاری زبان قراارددیا گیا ہے۔۱۹۷۳ء کے دستور کی دفعہ ۲۵۱ میں عزم ظاہر کیا گیا تھاکہ:
دفعہ 251 (i)پاکستان کی قومی زبان اردو ہوگی اور یومِ آغاز سے 15 سال کے اندر اندر اس کے بطور سرکاری زبان اور دیگر اغراض سے استعمال کئے جانے کے انتظامات کئے جائیں گے۔
دفعہ 251 (i)کے تابع انگریزی کو سرکاری اغراض سے استعمال کیا جائے گا۔ جب تک اسے اردو سے تبدیل کئے جانے کے انتظام نہیں کرلئے جاتے۔
دفعہ 251 (3)قومی زبان کی حیثیت کو متاثر کئے بغیر کوئی صوبائی اسمبلی قانون کے ذریعے قومی زبان کے علاوہ کسی صوبائی زبان کی تعلیم، ترقی اور اس کے استعمال کیلئے اقدامات کر سکے گی۔
اردو زبان کی ثروت
دنیا میں ہزاروں اردو اخبارات و جرائد، درجنوں ممالک سے اردو میں ریڈیائی نشریات، سینکڑوں ٹی وی چینلز ،روزانہ جدید و قدیم موضوعات پر ہزاروں تحقیقی و معلوماتی مضامین کی اشاعت، اردو میں تحقیقی جریدہ شش ماہی علم و فن اسلام آباد اور باران راولپنڈی اور دیگر کا اجراء، مسلمہ عالمی اعدادو شمار کے مطابق 840.57ملین بولنے والوں کے ساتھ اردو دینا کی دوسری بڑی زبان ہے جو دنیاکے کئی دوسرے ممالک میں تجارتی و کاروباری زبان کی خدمات انجام دے رہی ہیں۔
جدید اطلاعاتی ٹیکنالوجی کے باعث اب مضامین کی ٹائپ کاری سے لے کر دستاویزسازی،اعدادوشمارکی ذخیرہ کاری اور من پسنداندازمیں کمپیوٹر کے ذریعے سمعی اور بصری پیش کاری تک ہر کام بآسانی انجام دیا جا سکتاہے اور اس کے لئے ہزاروں تربیت یافتہ تکنیکی ماہرین و کارکنا ن موجود ہیں۔
لاکھوں سائنسی ،فنی و تکنیکی اصطلاحات کو قومی زبان کے قالب میں ڈھالا جا چکا ہے ایم اکے کی سطح پر اردو میں سائنسی مضامین کی تدریس کا عمل سالہا سال سے کامیابی کے ساتھ جاری ہے ۔ ماضی میں 800 صفحات پرمشتمل ایک سٹینڈرڈ انگلش اردو ملٹری ڈکشنری مرتب ہوکر شائع ہوئی اور تمام فوجی یونٹوں میں تقسیم بھی کی گئی ۔
اردو دنیا بھر کے مسلمانوں اور خاص طور پر سارک ممالک میں رابطہ کے لئے مشترکہ زبان ہے۔ چین کے تعاون سے سی پیک منصوبہ کی روشنی میں اردو کی ترویج معاشی مفادات اور دفاعی مقاصد کے تحفظ و فروغ کے لئے نہایت اہمیت کی حامل ہے۔
دستور پاکستان کے مطابق پندرہ برس کی مدت میں یعنی 1988 تک پورے ملک میں اردو کے نفاذ کا عمل مکمل ہوجاناچاہئیےتھالیکن حکمرانوں کی بدنیتی اور کاہلی کے باعث ہر حکومت نے اپنی اس آئینی ذمہ داری سے پہلو تہی کی۔ نفاذ اردو کے لئے محبان اردو کو 27 سال تک ایک طویل قانونی جنگ لڑنی پڑی اور آخر کار 8ستمبر 2015 ء کو عدالت عظمیٰ پاکستان نے نفاذ قومی زبان کا تاریخی فیصلہ صادر کردیا۔ اس فیصلہ کے خلاف کوئی اپیل دائر نہیں کی گئی اور یوں یہ فیصلہ حتمی قرار پاگیا۔
نفاذ قومی زبان سے متعلق عدالت عظمیٰ پاکستان کے احکامات
آرٹیکل 5اور آرٹیکل 251میں بیان کئےگئے احکامات کی اہمیت کو تسلیم کرتے ہوئے اور ان کے نفاذ میں یکے بعد دیگرے کئی حکومتوں کی بے عملی اور ناکامی کو سامنے رکھتے ہوئے ، ہمارے سامنے سوائے اس کے کوئی راستہ نہیں کہ ہم مندرجہ ذیل ہدایات اور حکم جاری کریں:
وفاقی اور صوبائی حکومتیں آرٹیکل 251کے احکامات کو بلا تاخیر اور پوری طاقت سے فوری نافذ کریں۔
اس آرٹیکل کے نفاذ کے اقدامات کے لیے جو معیاد مذکورہ بالا مراسلہ (مورخہ6جولائی2015) میں، خود حکومت کی جانب سے مقرر کی گئی ہے ، اس کی ہر صورت پابندی کی جائے۔
قومی زبان کے رسم الخط میں یکسانیت پیداکرنے کے لیے وفاقی اور صوبائی حکومتیں باہمی ہم آہنگی پیدا کریں۔
تین ماہ کے اندر اندر وفاقی اور صوبائی قوانین کا قومی زبان میں ترجمہ کر لیا جائے۔
بغیر کسی غیر ضروری تاخیر کے نگرانی کرنے اور باہمی ربط قائم کرنے والے ادارے آرٹیکل 251کو نافذ کریں اور تمام متعلقہ اداروں میں اس آرٹیکل کا نفاذ یقینی بنائیں ۔
وفاقی سطح پر مقابلہ کے امتحانات میں قومی زبان کے استعمال کے بارے میں حکومتی اداروں کی مندرجہ بالا سفارشات پر بلا تاخیر عمل کیاجائے۔
ان عدالتی فیصلوں کا ، جو عوامی مفاد سے تعلق رکھتے ہوں یا جو آرٹیکل 189کے تحت اصول قانون کی وضاحت کرتے ہوں ، لازماً اردو میں ترجمہ کروایا جائے۔
عدالتی مقدمات میں سرکاری محکمے اپنے جوابات حتٰی الامکان اردو میں پیش کریں تاکہ شہری اس قابل ہو سکیں کہ وہ موثر طریقے سے اپنےقانونی حقوق نافذ کروا سکیں۔
اس فیصلے کے اجراءکے بعد ، اگر کوئی سرکاری ادارہ یا اہلکار آرٹیکل 251کے احکامات کی خلاف ورزی جاری رکھے گاتو جس شہری کوبھی اس خلاف ورزی کے نتیجے میں نقصان یا ضرر پہنچے گا ، اسے قانونی چارہ جوئی کا حق حاصل ہو گا۔
اس تاریخی فیصلہ کو جاری ہوئے آج ۵ سال ہوچکے ہیں لیکن ابھی تک حکومت کی جانب سے اس پر عمل درآمد کے لئے کوئی قابل ذکر قدم نہیں اٹھایا گیا۔ نفاذ اردو میں تاخیر کے ہماری قومی ترقی و سلامتی پر دوررس اثرات مرتب ہوسکتے ہیں جس کا ایک اجمالی خاکہ درج ذیل ہے:
لسانی بنیادوں پر انتشارو افتراق اور قومی سلامتی کے لئے خطرہ
قومی زبان اردوو اتحاد و یک جہتی کا وسیلہ اور پاکستان کے بائیس کروڑ عوام کے مابین سیاسی معاشی سماجی اور دینی و ثقافتی میدان میں انفرادی و اجتماعی سطح پر باہمی رابطہ اور مکالمہ کا واحد اور مؤثر ترین ذریعہ ہے۔ اس لئے کہ ہر پڑھا لکھا شہری اسے پہلے ہی سے پڑھنا لکھنا اور بولناجانتا ہے۔ یہ ماحول اور روزمرہ کی زبان ہے اور انگریزی کے مقابلہ میں زیادہ بلیغ لکھنے میں سہل دیکھنے میں دلکش اور سمجھنے میں نہایت آسان اور معاشرہ کے مختلف طبقات کو آپس میں جوڑنے والی ہے۔نفاذ اردو میں مسلسل تاخیر سے ملک دشمن عناصر کو مقامی و دیگر پاکستانی زباانوں کی آڑ میں لسانی و علاقائی تعصبات کو ابھارنے اور عوام کے مابین غلط فہمیاں پھیلانے کا موقع مل رہا ہے جس سے مشرقی پاکستان کی طرح رفتہ رفتہ پاکستان کے اتحاد و یکجہتی کو بھی سنگین خطرات لاحق ہوسکتے ہیں۔
سرکار ی و نیم سرکار ی اداروں میں ملازمین کی کار کردگی کا گرتا ہوا معیار
تعلیم کے تیزی سے گرتے معیار اور خاص طور پر انگریزی زبان میں ابلاغ پر عدم دسترس کے باعث سرکاری افسران اور اہل کاروں کی کارکردگی بری طرح متاثر ہورہی ہے۔مقابلے کے امتحانات میں انگریزی زبان میں زبانی و تحریری اظہار کی مطلوبہ اہلیت نہ ہونے کی وجہ سے ۹۸ فی صد امیدوار فیل ہوجاتےہیں۔کامیاب ہونے والے ۲ فی صد افسران کو بھی قومی زبان کی بجائے انگریزی میں مسودہ نویسی اور دفتری خط و کتابت میں بے پناہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ان کی وہ صلاحیتیں جو مسائل کی تفہیم اور ان کے مناسب اور دیر پا حل تلاش کرنے میں صرف ہونا چائیے تھیں وہ انگریزی سیکھنے سمجھنے اور ماتحت عملہہ کے پیش کردہ مسودات کی تصحیح میں ضائع ہوجاتی ہیں۔اب تو گراوٹ کا یہ عالم ہے کہ اعلیٰ انتظامی عہدوں پر فائز افسران بھی معیاری انگریزی زبان میں ابلاغی صلاحیت سے محروم پائے جاتے ہیں۔اس طرح اردو کو سرکاری زبان بنانے میں تاخیر سے بیوروکریسی کی کارکردگی بری طرح متاثر ہورہی ہے اور ملک مسائل کے گرداب میں پھنستا جارہا ہے۔
عوام میں بے چینی اور بدامنی کی اہم وجہ
حکومتوں کا کام عوام کے روزمرہ مسائل کو فوری اور پائیدار بنیادوں پر حل کرنا ہے لیکن انگریزی زبان پر بے جا اصرار کے باعث وہ مسائل کے صحیح فہم اوران کے حل کے لئے معقول اور موزوں تجاویز و سفارشات پیش کرنے یا انہیں اعلیٰ سطحی اجلاسوں میں زیربحث لانے سے قاصر ہیں ۔ اس طرح عوام کی بے چینی میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے جو امن عامہ کے لئے خطرے کی گھنٹی ہے۔
عوام اور حکمرانوں کے درمیان بداعتمادی
قومی زبان کو حکومتی سطح پر رائج نہ کرنے کے باعث عوام اور حکمران طبقہ میں ذہنی فاصلے اور غلط فہمیاں فروغ پاتی ہیں۔ اہم عوامی مفاد کے معاملات اور قومی اہمیت کے امور میں بھی تمام احکامات، پالیسیاں مراسلے عوامی زبان اردو کی بجائے ایک اجنبی زبان انگریزی میں میں جاری کئےجارہے ہیں۔ یہ رویہ عوام کو امور مملکت اور خود ان سے متعلق معاملات میں درست اور بروقت معلومات تک رسائی کے بنیادی حق سے محروم کرنے کے مترادف ہے۔ اس حکومتی رویہ سے ملک میں حکمرانوں کے متعلق بداعتمادی اور منفی رجحانات جنم لے رہے ہیں ۔
معاشی ترقی پر اثرات
تجارت، صنعت و ذراعت اور قومی معیشت کے دیگر شعبوں میں بجٹ ، محصولات، پالیسی و طریق کار اور حکومتی ہدایات و احکامات سمیت سب سرکاری دستاویزات انگریزی میں وضع اور شائع کی جاتی ہیں جس کی وجہ سے انگریزی زبان سے ناواقف ۹۹ فی صد صنعتکار، زمیندار اور کاروباری حضرات انہیں سمجھنے اور اور ان پر عمل درآمد کرنے سے قاصر ہیں ۔اس طرح محض انگریزی پر اصرار اور قومی زبان اردو سے دانستہ اور مجرمانہ فرار کے باعث اکثر سرکاری پالیسیاں ناکامی سے دوچار ہوتی ہیں اور ان کے خاطر خواہ نتائج برآمد نہیں ہوتے۔
اردو و علاقائی زبانوں کی بقا کو خطرہ
اگر قومی و سرکاری امور خاص طور پر تعلیم و روزگار کے شعبوں میں انگریزی زبان کا ناجائز تسلط یونہی قائم رہا اور قومی و مادری زبانوں سے بے اعتنائی کا یہ سرکاری رویہ مزید کچھ عرصہ جاری رہا تو قومی زبان اور دیگر مادری و علاقائی بولیاں اور زبانیں بھی سرکاری سرپرستی سے محرومی کے باعث بتدریج قومی زندگی سے بے دخل ہو جائیں گی اور ان کا حشر بھی دنیا کی ان سینکڑوں زبانوں میں ہو گاجو بے کارو فرسود ہو کر نابود ہو گئیں۔
دینی و ثقافتی ورثہ کو خطرہ
پہلی جماعت سے انگریزی زبان کی لازمی تدریس اور ماضی میں انگریزی کو ذریعہ تعلیم بنانے کے عاجلانہ اور احمقانہ فیصلہ کے نتیجے میں اپنے بچوں کے مستقبل کے حوالے سے والدین کے اندر اپنی قومی زبان اردو کے بارے شدید احساس کمتری نے جنم لیا ہے۔اردو زبان کی تدریس اور اس میں مہارت کے حصول کو تضیع اوقات سمجھا جانے لگا ہے۔ تدریس اردو کے گرتے ہوئے معیار کے باعث نسل نو میں اردو کتب و رسائل کے مطالعہ کی صلاحیت اور دلچسپی ماند پڑتی جارہی ہے۔اس طرح اردو زبان میں ہمارے ملی و ثقافتی سرمایہ کی بقا و ترقی کے لئے سنگین خطرات پیدا ہوگئے ہیں جن پر قابو پانا ضروری ہے۔
عوامی حاکمیت کا خواب
انگریزی کا ناجائز تسلط عوام کو محکوم وبے خبر، بیمار و محتاج بے روزگار و بے وقار اور جاہل و پسماندہ رکھنے کا سامراجی حربہ ہے۔ جب کہ اردو عوام کو تعلیم صحت روزگار سے متعلق ان کے آینی و قانونی حقوق و فرائض سے آگاہی فراہم کرنے اور انہیں علم و ہنر کے ذریعے بااختیاربناکر امور ریاست میں شامل کرنے کا بہترین اور مؤثر ترین ذریعہ۔ملک میں جمہوری روایات اور اعلی انسانی اقدار کے فروغ کے لئے ہر سطح پر اردو کو ذڑیعہ تعلیم بنانا ناگزیرہے۔اس عمل میں تاخیر سے قومی ترقی اور عوامی حاکمیت کا خواب کبھی بھی شرمندہ تعبیر نہیں ہوگا اور عوام یونہی سامراجی کارندوں کی غلام بے دام بنی رہے گی۔
اردو رسم الخط کو لاحق خطرات
اردو عالمی سطح پر ہماری شناخت ہے، اس کا رسم الخط بھی زبان کی طرح دلکش آسان اور زود فہم ہے۔اردو کابطورسرکاری زبان و ذریعہ تعلیم فوری نفاذ ہماری قومی ضرورت ہے اور اس کے رسم الخط کا تحفظ ہماری انفرادی اور قومی ذمہ داری ہے۔رومن اردو کا فروغ بین الاقوامی کمپنیوں کی کاروباری ضرورت اور ہماری زبان و ثقافت کے لئے موت کا پیغام ہے۔اس لئے قومی زبان کے رسم الخط میں یکسانیت پیدا کرنے کے عدالت عظمیٰ کے فیصلہ پر عمل درآمد میں مزید تاخیر سے نفاذ قومی زبان کا عمل مزید تاخیر کا شکار ہوگا جس کے نتیجے میں قوم اجتماعی طور پر اس کے نتائج و ثمرات اور فیوض و برکات سے نا معلوم عرصہ تک محروم رہے گی۔ اگر ہم نے اپنی شناخت کھو دی جو اردو کے دم سے قائم ہے تو ایک قوم نہیں بلکہ ہم ایک مغلوب و معتوب ریوڑ کی شکل میں زندہ رہیں گے۔
نیپرا، پیمرا، مسابقتی کمیشن، واپڈا، آئی پی پیز ،1 ایس ای سی پی، آڈیٹر جنرل آف پاکستان، پبلک اکاونٹس کمیٹی، محتسب اعلی، وفاقی بورڈ آف ریوینیو، ٹیکس کمشنرز و محتسب، پارلیمانی کمیٹیوں اور مختلف قسم کے قومی تحقیقاتی کمیشنوں جیسے عوامی مفاد کے تحفظ کے لئے بنائے گئے تمام اداروں کے اغراض و مقاصد ،دائرہ اختیار، قواعدوضوابط، طریق کار، سرکاری فارمز، کارکردگی رپورٹیں، انضباطی اختیارات و طریق کار، عہدیداروں کی تفاصیل، کارکردگی معیارات سمیت ہر قسم کی ضروری معلومات ایک اجنبی زبان انگریزی میں ہونے کی وجہ سے عام آدمی اور حتی کہ انگریزی سے نا بلد عوام کے منتخب اراکین پارلیمان اور صحافیوں کی اکثریت بھی ان سے بے خبر یا انہیں سمجھنے سے قاصر ہے۔مستند سرکاری معلومات تک عدم رسائی کے باعث ہرسال مافیاز کے ساتھ مل کر کھربوں روپے قومی خزانے اور عوام کی جیبوں سے خرد برد کئے جاتے ہیں لیکن عوام کو ان ڈاکوں کی خبر تک نہیں ہوتی۔قومی و عوامی مفادات کے تحفظ ، عوام کو بااختیار بنانے اور کرپٹ مافیاز کے خلاف موثر کارروائی کے لئے لازم ہے کہ مفاد عامہ اور معلومات تک رسائی کے بنیادی حق کا احترام کرتے ہوئے مذکورہ تمام معلومات فوری طور پر عوام کی قومی زبان اردو میں جاری کی جائیں۔ وزیراعظم سے اپیل ہے کہ نوکر شاہی کی طرف انگریزی کی آڑ میں کرپٹ مافیا کو تحفظ دینے اور حقائق کو عوام سے چھپانے کا مذموم ڈرامہ اور دھوکہ دہی کا سلسلہ فوری طور پر بند کرکے مفاد عامہ اور قومی اداروں سے متعلق ہر قسم کی معلومات اردو میں جاری کرنے کے احکامات جاری کئے جائیں۔
ٹیکنیکل تعلیم و تربیت
قومی وسائل سے افرادی قوت کی فنی و تکنیکی استعداد و صلاحیت میں اضافہ اور ان منصوبوں کو مفید و بارآور بنانے کے لئے ٹیکنیکل و ووکیشنل تعلیم و تربیت اور افرادی قوت سے متعلق ہر قسم کی سرکاری معلومات تک عام رسائی اور استفادہ عام کے لئے تمام سرکاری دستاویزات ، کاغذات اور معلومات کوقومی زبان اردو میں منتقل کرکے اردو اور صرف اردو کو تمام ٹیکنیکل و ووکیشنل تربیت کے اداروں میں ذریعہ تعلیم و تربیت کے طور پر نافذ کیا جائے۔
اختتامیہ
ہمیں افسوس ہے کہ ہمارے حکمران آزادی کے تہتر برس بعد بھی سامراج کی ذہنی غلامی سے نہیں نکلے ۔ انہیں نا تو قائد اعظم اور علامہ اقبال کی شرم ہے اور نہ ہی ملکی آئین و قوانین کا پاس۔ یہ بد بخت قومی وسائل سے قومی تعمیرو ترقی کے لئے قومی زبان کے نفاذ کی بجائے سامراجی مفادات کے نگہبان بنے عہد غلامی کی یادگار انگریزی زبان کے ذریعے ایک آزاد وطن میں غلام نسلیں پروان چڑھا رہے ہیں۔
آئیے یوم نفاذ قومی زبان کے موقع پر عہد کریں کہ ہم اپنی قومی زبان کو دستور پاکستان، عدالت عظمیٰ کےفیصلہ اور بانیان پاکستان کے افکار کی روشنی میں ہر سطح پر ذریعہ تعلیم و تربیت، مقابلے کے تمام امتحانات کے لئے ذریعہ اظہار اور عدلیہ اور عسکری اداروں سمیت تمام سرکاری اور نجی شعبوں میں دفتری زبان بنا کر اور تمام ملکی قوانین و قواعد، پالیسیوں اور طریق کار اور ذرائع ابلاغ کو اردو کے قالب میں ڈھال کر اپنے عوام کو باخبر باشعور اور با اختیار بنائیں گے تاکہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کو قرارداد مقاصد کی روشنی میں مصطفائی معاشرہ کی تشکیل کے ذریعہ اقوام عالم کی قیادت کے قابل بنایا جاسکے، یہ اس لئے بھی ناگزیر ہے کہ پاکستان معاشی طور پر ترقی کرسکےاوردنیا کشمیر و فلسطین اور دیگر بین الاقوامی و انسانی مسائل پر ہمارا مؤقف سمجھ سکے۔کہتے ہیں دنیا صرف طاقت اور طاقت ور کی زبان سمجھتی ہے اور قومی زبان اردو اس قوت و توانائی کے حصول کا بہترین سرچشمہ ہے۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
محمد اسلم الوری کے کالمز
-
تربیت اطفال کے نئے ذاویے
جمعرات 12 نومبر 2020
-
تربیت اطفال کے نئے ذاوئیے
منگل 10 نومبر 2020
-
میلاد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم اور تعمیر معاشرت
پیر 26 اکتوبر 2020
-
حکمران نفاذ اردو کو سیاسی یا لسانی رنگ مت دیں
ہفتہ 24 اکتوبر 2020
-
زرعی معیشت کی تعمیر و ترقی میں قومی زبان کا کردار
بدھ 14 اکتوبر 2020
-
نفاذ اردو کی راہ میں حائل نفسیاتی مسائل
اتوار 4 اکتوبر 2020
-
ٹیکنیکل اور ووکیشنل تعلیم کے لئے انگریزی ذریعہ تعلیم نافذ کرنے کے فیصلہ کے مضمرات
منگل 29 ستمبر 2020
-
نفاذ قومی زبان میں تاخیر کے مضمرات
ہفتہ 12 ستمبر 2020
محمد اسلم الوری کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.