نفاذ اردو کی راہ میں حائل نفسیاتی مسائل

اتوار 4 اکتوبر 2020

Muhammad Aslam Aloori

محمد اسلم الوری

قومی زبان اردو کو قیام پاکستان سے اب تک بننے والے پاکستان کے تمام دساتیر میں عوام پاکستان کے منتخب نمائندوں کے اتفاق رائے سے ریاست کی سرکاری زبان قرار دیا گیا ہے۔ لیکن عجب تماشا ہے کہ حکومت کی اعلی ترین سطح پر دستور شکنی کرتے ہوئے پچھلے تہتر برسوں سے امور مملکت اپنی قومی زبان اردو کی بجائے غیر ملکی زبان انگریزی میں چلائے جارہے ہیں۔


8 ستمبر  2015 ء کو عدالت عظمی نے نفاذ قومی زبان میں حکومت کی عدم ق
دلچسپی اور لاپرواہی کا سختی سے نوٹس لیتے ہوئے اس روش کو آئین و قانون شکنی سے تعبیر کیاتھا اور اپنے تاریخی  فیصلہ میں حکم صادر کیا تھا کہ قومی زبان اردو کو دستور کی دفعہ  251 کی روح کے عین مطابق بلا تاخیر اور پوری قوت کے ساتھ فوری طور پر سرکاری زبان کے طور پر نافذ کیا جائے۔

(جاری ہے)


لیکن کتنے افسوس کی بات ہے کہ پانچ سال گزرنے کے بعد بھی حکومت اپنی پرانی ڈگر پر  گامزن ہے اور ابھی تک قومی زبان کو انگریزی کی جگہ سرکاری زبان بنانے کو تیار نہیں۔
آئین پاکستان سے انحراف اور عدالت عظمی کے فیصلہ سے مسلسل روگردانی کی ایک وجہ نظام حکومت پر ایسے افراد کا تسلط ہے جن کا رعب و دبدبہ محض انگریزی زبان پر قدرے مہارت کی بدولت قائم ہے۔

قومی زبان میں اظہار بیان کی ان کی استعداد واجبی سی ہے۔ دوسری جانب عوام کی اکثریت انگریزی زبان سمجھنے بولنے اور لکھنے سے قاصر ہے اس لئے اعلی سرکاری اہل کاروں اور ان کے بیرونی جامعات سے تعلیم یافتہ مشیروں کی پیشہ وارانہ نااہلی  اور عوامی مسائل کی تفہیم اور ان کے پائیدار حل پیش کرنے کی عدم استعداد پر انگریزی کے دبیز پردے پڑے رہتے ہیں۔

انٹرنیٹ اور اطلاعاتی ٹیکنالوجی نے ان کی یہ مشکل بھی آسان کردی ہے اور اب کسی بھی موضوع یا مسئلہ پر انگریزی میں موجود مواد و معلومات کو ڈاون لوڈ کرکے ذرا سی کوشش سے قطع و برید کے بعد  پاور پوائنٹ پیش کاری کے ذریعے اپنی قابلیت کا رعب ڈالنا اور دوسروں کے سامنے خود کو ذہین و فطین اور انٹلیکچوؤل ظاہر کرنا اور بھی آسان ہوگیا ہے۔ اس طرح نفاذ قومی زبان ایک طرح کی ذاتی پسند اور ناپسند اور تساہل و تن آسانی کا مسئلہ بن کر رہ گیا ہے۔


نفاذ اردو میں تاخیر کی ایک اور وجہ نوکر شاہی کا یہ خوف ہے کہ سرکاری قوانین پالیسیاں تجاویز قرطاس کار اعدادوشمار اور دستاویزات اردو میں منتقل یا وضع کرنے سے یہ ہر اس شہری کی دسترس میں ہوں گے جسے اپنی قومی زبان میں ذرا بھی شد بدھ ہے۔ اس طرح گویا عام شہری امور مملکت سے باخبر ہوکر ان کے مضمرات کو سمجھ کران پر نقدوجرح  کے قابل ہوجائے گا۔

عام آدمی کی اطلاعات و معلومات تک آسان رسائی اور امور مملکت سے آگاہی  کو وہ محض انگریزی زبان کے سہارے قائم اپنے  بلا شرکت غیرےاقتدار کے لئے سنگین خطرہ محسوس کرتے ہیں۔
نفاذ اردو کی راہ میں دانستہ مزاحمت کی ایک اور وجہ اشرافیہ کے بچوں کا زر کثیر خرچ کرکے  سٹی اسکول بیکن فرابل لاہور گرامر اسکول وغیرہ جیسے انتہائی مہنگے انگریزی میڈیم تعلیمی اداروں سے تعلیم پانا ہے۔

نفاذ قومی زبان کا نام سنتے ہی انہیں اردو سے یکسر نا بلد اپنے بچوں کے روشن مستقبل کی فکر لاحق ہوجاتی ہے جو فقط انگریزی کلچر ہی میں ترقی اور نشونما پاسکتے ہیں۔ انگریزی اسکولوں میں تعلیم پانے والے طلبا و طالبات مراعات یافتہ طبقات کی نمائندگی کرتے ہیں جو اسکولوں سے باہر بنیادی تعلیمی سہولیات سے محروم قوم کے اڑھائی کروڑ سے زائد  بچوں اور اردو میڈیم اسکولوں میں تعلیم پانے والے طلبہ کو حقیر و ناکارہ اور غیر مہذب گردانتے اور ان کو اپنا زیر نگیں  رکھنا اپنا موروثی حق سمجھتے ہیں۔


اس طرح نفاذ قومی زبان برسر اقتدار اشرافیہ کی ذاتی انا ،نفسیاتی خوف عدم تحفظ کے احساس  اور قومی زبان اور اس کے نفاذ کے حامی عوام پاکستان سے ضد اور عناد کا مسئلہ بن چکا ہے۔
نفاذ قومی زبان میں دلچسپی رکھنے والے اور اس عظیم قومی مقصد کے لئے جدوجہد میں مصروف قائدین اور کارکنان کو ان نفسیاتی مسائل کو سامنے رکھتے ہوئے ان کے مناسب حل تلاش کرنے کی سنجیدہ کوشش کرنی چاہئیے۔

عدالت عظمی کی طرح انہیں بھی نفاذ اردو کا مقدمہ اردو کی انگریزی یا  دیگر پاکستانی زبانوں پر فضیلت کی بنیاد پر نہیں بلکہ ریاست اور اس کے عوام کے مابین باہمی رابطہ ہم آہنگی قومی یک جہتی اور ان کی روزمرہ تجارتی کاروباری تعلیمی ضروریات کی روشنی میں پیش کرنا چاہئیے۔ عدالت عظمی نے اپنے 8 ستمبر 2015ء کے تاریخی فیصلہ میں حکام کی توجہ اس اہم قومی مسئلہ کی طرف مبذول کراتے ہوئے لکھا ہے کہ
"اس امر کا اعادہ نہایت ضروری ہے کہ یہ ہماری پسند ناپسند کا معاملہ نہیں اور نہ ہی تن آسانی کا بلکہ یہ آئینی حکم ہے کہ اردو کو بطور سرکاری زبان اور برائے دیگر امور یقینی بنایا جائے اور صوبائی زبانوں کی ترویج کی جائے۔

"
عدالت عظمی نے اسے ایک لسانی مسئلہ کی بجائے آئین و قانون اور شہریوں کے بنیادی حقوق کی روشنی میں طے کرتے ہوئے قرار دیا ہے کہ
" آرٹیکل 251 کا نفاذ محض قانون کی پابندی کا معاملہ نہیں بلکہ پاکستان کے عوام کی عملی نمائندگی سے براہ راست متعلق ہے۔"
ہمیں بھی چاہئیے کہ ہم نفاذ اردو سے متعلق عدالتی  فیصلہ کا بغور مطالعہ کریں، اس فیصلہ میں بیان کردہ دلائل کو سمجھیں اور انہی محکم بنیادوں پر  نفاذ اردو کی اپنی آئینی جدوجہد کو استوار کریں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :