ٹیکنیکل اور ووکیشنل تعلیم کے لئے انگریزی ذریعہ تعلیم نافذ کرنے کے فیصلہ کے مضمرات

منگل 29 ستمبر 2020

Muhammad Aslam Aloori

محمد اسلم الوری

سرکاری ادارے ٹویٹا نے آئندہ تعلیمی سال سے ڈپلوما آف ایسوسی ایٹ انجینئرنگ سمیت تمام ٹیکنیکل اور ووکیشنل مضامین اردو کی بجائے انگریزی زبان  میں پڑھانے کا فیصلہ کیا ہے۔انہوں اس کی وجہ یہ بتائی ہے کہ اردو ذریعہ تعلیم کی وجہ سے ہمارے ڈپلوما ہولڈر ز کا تعلیمی معیار بہت پست ہے جس کی وجہ سے انہیں عالمی منڈی میں روزگار کے حصول میں شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

انگریزی ذریعہ تعلیم سے ان کی مانگ میں نمایاں اضافہ ہوگااور ملک کو کثیر زر مبادلہ حاصل ہوگا۔
ہمیں افسوس ہے کہ یہ فیصلہ ایک ایسے وقت کیا گیاجب کہ پوری قوم انگریزی ذریعہ تعلیم کے نقصانات اور مضر اثرات سے باخبر ہونے کے بعد اردو ذریعہ تعلیم اور  یکساں قومی نصاب تعلیم کے نفاذ کا مطالبہ کررہی ہے۔

(جاری ہے)


یہ فیصلہ کرنے والے بیرون ملک سے جدید اور اعلی تعلیم حاصل کرکے لوٹنے والے اور بھاری مشاہروں اور مراعات پر بھرتی ہونے والے سرکاری دانشور ہیں جو معروضی حقائق سے کامل بے خبری اور ملکی معاملات سے لاتعلقی کی بنا پر  شائد یہ نہیں جانتے کہ:

دستور پاکستان انگریزی کی جگہ اپنی قومی زبان اردو کو سرکاری زبان کے طور پر نافذ کرنے کا تقاضا کرتا ہے
2۔عدالت عظمی 5 سال قبل طویل عدالتی جنگ کے بعد اردو کو بلا تاخیر پوری قوت سے دستور کی روح کے عین مطابق نافذ کرنے کا حکم جاری کرچکی ہے لیکن نفاذ قومی زبان کا عمل اب تک تعطل ک شکار ہے۔
3۔ سابق چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ایس جواد خواجہ اور آزاد و جموں کشمیر سپریم کورٹ کے سابق سربراہ جسٹس ابراہیم ضیاء حال ہی بار بار نفاذ  اردو  میں تاخیر کو آئین شکنی اور عدالت عظمی کی توہین قرار دے رہے ہیں۔


4۔ مقابلے کے امتحانات انگریزی میں لئے جانے کی وجہ سے امتحان میں کامیابی کی شرح کئی برسوں سے صرف دو فی صد ہے جو انتہائی شرمناک ہے۔
5۔ پہلی جماعت سے انگریزی لازمی کی تدریس کی وجہ سے ترک تعلیم کی شرح 50 فی صد کے قریب پہنچ چکی  ہے ۔
6۔ملک میں اس وقت بھی تعلیمی سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے اسکول جانے کی عمر کے اڑھائی کروڑ سے زیادہ  بچے اسکولوں سے باہر تعلیم اور کسی ہنر وری کے زیور سے محروم ہیں۔


7۔ انگریزی کے جبر سے تنگ آئے بچے ہی اعلی تعلیم کا ارداہ ترک کرکے فوری روزگار کے لئے کوئی ہنر سیکھنے یا پیشہ وارانہ تعلیم حاصل کرنے کا فیصلہ کرتے ہیں۔اگر یہاں بھی ان پر انگریزی مسلط کردی گئی تو ناصرف ترک تعلیم کی شرح میں اضافہ ہوگا بلکہ تربیتی معیار بھی بری طرح متاثر ہوگا۔
8۔تمام تر ترغیبات کے باوجود ٹیکنیکل اور ووکیشنل اداروں میں طلبہ اور خاص طور پر طالبات کی تعداد بہت زیادہ حوصلہ افزا نہیں۔

انگریزی کا عفریت اب ان اداروں کی مزید تباہی کا باعث ہوگا۔
9۔ ہمارے فیصلہ ساز اس حقیقت سے بھی نا آشنا ہیں کہ ہنر اور مہارت پڑھنے پڑھانے سے زیادہ سیکھنے کا عمل ہے اور آموزشی عمل کو موثر بنانے کے لئے استاد اور شاگرد کا ہم زبان ہونا ہی بہتر اور فائدہ مند ہوتا ہے۔
10۔انگریزی ذریعہ تعلیم کی وجہ سے فنی اور تکنیکی تعلیم کے شوقین طلبہ کو اب  اپنی زبان میں پہلے سے موجود معلومات کو نظر انداز کرکے مشینری و آلات ، اوزاروں اور ان  کے نام اور کام اور دیگر معلومات کو اب انگریزی میں جاننا اور سیکھنا پڑے گا۔

اس طرح ایک دہرا عذاب ان پر مسلط ہوگا اور اس کے لئے دوسرے سائنسی مضامین رکھنے والے طلبہ کی طرح انہیں بھی ٹیوشن کا سہارا لینا پڑے گا۔
11۔ زمانہ قدیم سے گھریلو دستکاریوں اور چھوٹے پیمانے کی صنعتوں میں مستعمل ہزاروں الفاظ و تراکیب اصطلاحات اور اسما و افعال متروک ہو کر قومی حافظہ سے محو ہوجائیں گے  جو بہت بڑا تہذیبی المیہ ہوگا۔
12۔

  مثال کے طور پر فرنیچر سازی کے کام میں روزمرہ مستعمل  درج ذیل ذخیرہ الفاظ کی جگہ طلبہ کو ان کے متبادل انگریزی الفاظ سیکھنے کی ضرورت ہوگی:
رندا، گولا رندا جھری رندا نوکی  رندا بسولہ، تیشہ برما گرمٹ برما کمانی ڈرل مشین ہتھوڑا ہتھوڑی جمبور چورسی  سترا  نیہانی  دو فٹا انچی ٹیپ  گنیا  بد گنیا زاویہ سوت سوتر آری میخ  کیل گل میخ  پیچ کس شکنجہ میز یا اڈا
کٹائی چرائی رندائی گھڑائی صفائی چھلائی چھدائی دبائی رنگائی چوبی دروازہ تالا چابی سوراخ  منوت
13۔

قومی زبان و اقدار اور تہذیبی ورثہ کی قدروقیمت سے عاری انگریزی کے آسیب کا شکار نوکر شاہی تعلیم عامہ کو برباد کرنے کے بعد اب تکنیکی و فنی تعلیم کے اداروں کو تباہ کرنے پر تلی ہوئی ہے۔ان اداروں کو اپنی زبان و اقدار کی روشنی میں عصری تقاضوں اور ملک کی  تربیت یافتہ افرادی قوت کی ضروریات سے ہم آہنگ کرنے کی بجائے یہ وقتی مصالح اور ذاتی مفادات کی اسیر نظر آتی ہے۔


ان حالات میں وطن عزیز کی ترویج و سلامتی کے امور سے دلچسپی رکھنے والے شہریوں خاص طور پر اساتذہ والدین اور صاحبان علم و دانش کا فرض ہے کہ وہ اس اہم مسئلہ پر اپنی آواز بلند کریں ۔
ترقی کے نام پر انگریزی زبان و ثقافت کی یلغار کے آگے بند باندھیں۔
حکومت کو مجبور کریں کہ وہ  ٹیکنکل اداروں میں انگریزی ذریعہ تعلیم کا فیصلہ فوری طور پر واپس لے اور دستور و قانون کے مطابق قوم کے نو نہالوں کو پہلی جماعت سے جامعات تک ہر قسم کی تعلیم و تربیت کے مواقع اپنی قومی زبان میں فراہم کرنے کا اہتمام کرے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :