
انجام !
جمعرات 26 جون 2014

محمد عرفان ندیم
(جاری ہے)
یہ میری اس سے پہلی اور آخری ملاقات تھی اور اس دن کے بعد میری زندگی میں زوال آنا شروع ہو گیاتھا ۔اب میرا کسی کام میں دل نہیں لگتا تھا ،میں کلینک میں بیٹھتا تھا لیکن نہیں بیٹھتا تھا ،میں ہفتے میں ایک بار کھانا کھاتا تھا اور میں اسٹڈی کرتا تھا لیکن ہر امتحان میں بدرجہ ء اعلیٰ فیل ہوتا تھا ۔میں سارا سال کلینک کی سیڑھیوں پر بیٹھ کر اس کا انتظار کرتا رہا لیکن کاتب تقدیر نے وہ دن میری زندگی میں صرف ایک بار لکھا تھا ۔زمانہ گزرتا گیا لیکن وہ ماں بیٹی واپس نہیں آئی ۔دس سال گزرنے کے باوجود زخم ابھی تازہ تھے اور میں نے ابھی ہار نہیں مانی تھی ۔میں بے بس ہو کر ان کے گھر کی طرف چل دیا ،مجھے معلوم ہوا وہ ماں بیٹی چار سال پہلے یہاں سے جا چکی ہیں،یہ انتہا تھی ۔اب میرے پاس دو آپشن تھے ایک ،میں اپنی زندگی کو اسی طرح تباہ ہو نے دوں ،دو،میں خود کو سنبھالوں ،اس پاگل پن سے باہر آوٴں اور اپنی پہلے والی زندگی کی طرف لوٹ جاوٴں۔دوسرا فیصلہ مشکل تھا لیکن اس کے سوا کو ئی چارہ نہیں تھا ۔میں نے ایک بزرگ کا ہاتھ تھا م لیا اور میری زندگی معمول پر آنا شروع ہو گئی ،اگلے دس سال کے اندر اندرمیرا کلینک بھی چل پڑا ،میری شادی بھی ہو گئی اور اللہ نے مجھے اولاد سے بھی نواز دیا ۔میں اپنے بچوں کی پڑھائی کے لیئے اسلام آباد شفٹ ہو گیا ۔ایک دن میں تھکا ہارا کلینک سے واپس آیا ،کھانا کھا کر ابھی لیٹا ہی تھا کہ دروازے پر دستک ہو ئی ،ایک ادھیڑ عمر خاتون دروازے پر موجود تھی ، مجھے اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آرہا تھا ،وہ لڑکی جس کی ایک جھلک دیکھنے کے لیئے میں تیس سا ل سے انتظار کر رہا تھا وہ ایک خوفناک شکل میں میرے سامنے کھڑی تھی ،اب وہ ایک ادھیڑ عمرکی بوڑھی خاتون تھی ،اس کے سارے جسم پر برص کے․ نشانات تھے اور اس کا سارا جسم گل سڑ چکا تھا ۔اس کے وجود سے بدبو کے بھبھو کے اٹھ رہے تھے اور اس کے ہاتھ پاوٴں پر میل کی تہیں جمی تھیں۔اس کے چہرے پر چھائیاں پڑ چکی تھیں ،ا س کی گردن پر ماس لٹک رہا تھا ،اس کے بال مکمل طور پر جھڑ چکے تھے ،اس کی آنکھیں اندر کو دھنس چکی تھیں ،اس کے ہاتھوں میں رعشہ طاری تھا ،اس کے رخسار اندر کو دھنس چکے تھے ،اس کے سامنے کے سارے دانت غائب تھے ،اس کی چال میں لڑکھڑاہٹ آ گئی تھی ،اس کے ہاتھ میں لا ٹھی تھی اور وہ سیدھی کھڑی نہیں ہو سکتی تھی ۔وہ ایک خوفناک شکل میں میرے سامنے کھڑی تھی اور مجھے اس کی شکل و صورت سے خوف آرہا تھا ۔میں کچھ بولنا چاہتا تھا لیکن میرے پاس الفاظ نہیں تھے ،مجھے صرف اتنا معلوم ہوا کہ وہ میرے ساتھ والے گھر میں رہتی تھی اور آج مجھے ملنے آئی تھی ۔میں اپنی تیس سالہ محبت کو اس خوفناک شکل میں دیکھ کر گھبرا گیا تھا ،میں وہاں سے بھاگ جانا چاہتا تھا لیکن وہ میرے سانے کھڑی تھی ،میں اس سے پیچھا چھڑاناچاہتا تھا لیکن اب وہ میرے پیچھے پڑ گئی تھی ،میں آنکھیں بند کرتا تھا لیکن وہ ایک خوفناک خواب بن کر میرے سامنے آ جاتی تھی ،میں نے اپنا ماضی بھلانا چاہا لیکن اس کے تیس سالہ انتظارنے مجھے ندامت اور شرمندگی کی قید میں جکڑ دیا تھا “ڈاکٹر صاحب کی کہانی ختم ہو گئی لیکن ان کی آنکھیں جاری ہو گئیں ۔ مجھے ایک لمحے کے لیئے احساس ہوا ہمارا آج کا نوجوان کس قدر احمق ،بیوقوف اور نادان ہے کہ وہ پیار،محبت اورحسن جیسی عارضی چیزوں کے پیچھے پڑ کراپنا مستقبل تباہ کر رہا ہے ۔ آپ دیکھ لیں ہماراا سی فیصد نوجون اس مرض میں مبتلاء ہے ۔لیکن اس کا انجام کیا ہے ؟اس کا احساس شاید انہیں اپنی زندگی تباہ کر نے کے بعد ہو گا ۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
محمد عرفان ندیم کے کالمز
-
ہم سب ذمہ دار ہیں !
منگل 15 فروری 2022
-
بیسویں صدی کی سو عظیم شخصیات !
منگل 8 فروری 2022
-
میٹا ورس: ایک نئے عہد کی شروعات
پیر 31 جنوری 2022
-
اکیس اور بائیس !
منگل 4 جنوری 2022
-
یہ سب پاگل ہیں !
منگل 28 دسمبر 2021
-
یہ کیا ہے؟
منگل 21 دسمبر 2021
-
انسانی عقل و شعور
منگل 16 نومبر 2021
-
غیر مسلموں سے سماجی تعلقات !
منگل 26 اکتوبر 2021
محمد عرفان ندیم کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.