کتاب دوستی۔ قسط نمبر2

منگل 17 مارچ 2015

Muhammad Irfan Nadeem

محمد عرفان ندیم

قرطبہ اور اشبیلیہ اندلس کے دو مشہور شہر ہیں، ماضی میں جب اندلس پرمسلمانوں کی حکومت تھی تو یہ دونوں شہر علوم و فنون کا مرکز سمجھے جاتے تھے ، ان شہروں میں رہنے والوں کی آپس میں اس بات پر بحث ہوتی رہتی تھی کہ کس شہر کے باشندے ذیادہ ترقی یافتہ ،مہذب اور تعلیم یافتہ ہیں ۔اسی طرح کا ایک واقعہ ہے کہ قرطبہ کے ایک مشہور عالم ابن رشد اور اشبیلیہ کے رئیس ابو بکر بن زہر کے درمیان یہ بحث چھڑ گئی کہ کون سا شہر ذیادہ بہتر ہے ، قرطبہ یا اشبیلیہ؟ابو بکر بن زہر نے اشبیلیہ کی بہت سی خوبیاں بیان کی تو علامہ ابن رشد نے بڑا مختصر اور خوبصورت جواب دیا ، ابن رشد نے کہا ”آپ جو خوبیاں بیان کر رہے ہیں مجھے ان کا تو علم نہیں ہاں میں اتنا جانتا ہوں کہ جب اشبیلیہ میں کسی عالم کا انتقال ہو تا ہے تو اس کا کتب خانہ بکنے کے لیئے قرطبہ آتا ہے اور جب قرطبہ میں کسی گویے کا انتقال ہوتا ہے تو اس کا سازو سامان بکنے کے لیئے اشبیلیہ جا تا ہے“
یہ بڑا پر مغز اور خوبصورت تجزیہ ہے ، آپ کسی ملک ، شہر یا کسی گھر کی تہذیب یا ترقی کا جائزہ لینا چاہیں تو آپ صرف یہ دیکھ لیں کہ اس ملک یا شہر میں کتنی لائبریریا ں ہیں ۔

(جاری ہے)

اگر آپ اپنے بیٹے یا بیٹی کے لیئے کسی اچھے رشتے کی تلاش میں ہیں تو آپ دیگر خصو صیات کے ساتھ اس امر کو بھی اہمیت دیں کہ اگلے گھر میں لائبریری ہے یا نہیں اور اگلا بندہ کتابوں کاکس حد تک شوقین ہے ۔اب سوال یہ ہے کہ مطالعے اور کتاب کی عادت کس طرح ڈالی جائے،اس کا آسان طریقہ یہ ہے کہ شروع میں آپ وہ سب کچھ پڑھیں جس سے آپ کو دلچسپی ہے ، بعض لوگوں کو جنوں اور پریوں کی کہانیاں اچھی لگتی ہیں ،بعض سفرناموں کو پسند کرتے ہیں ، بعضوں کو تاریخ سے دلچسپی ہوتی ہے اور بعض کرنٹ افیئرز کو پسند کرتے ہیں ، دراصل کتابوں کا بھی اپنا ایک ذائقہ اور مزہ ہوتا ہے اور ہر انسان کی اپنی ایک چوائس ہو تی ہے تو ابتداء میں جس کو جو چیز اچھی لگی وہ پڑھ ڈالے ، اگر ہم ابتداء میں بچوں کو اسلامک لٹریچر پر پابند کریں تو شاید اس طرح ہم انہیں کبھی بھی کتاب دوست نہیں بنا سکتے ، عموما دیکھا گیا ہے کہ بچے ابتداء میں جنوں پریوں کی کہانیوں کو بڑے شوق سے پڑھتے ہیں اور پھر ایک وقت آتا ہے کہ یہ چیزیں فضول لگنے لگتی ہیں اور بچے سنجیدہ لٹریچر کی طرف راغب ہو جاتے ہیں ۔

وقت کے ساتھ ساتھ انسان کا مطالعہ بھی بالغ ہو جاتا ہے اور اس اسٹیج پر آکر فیصلہ کرنا آسان ہو جاتا ہے کہ کیا پڑھنا ہے اور کیا نہیں۔اگر آپ پڑھنا چاہیں تو موضوعات کی ایک طویل فہرست ہے ،تاریخ ،سیرت،ادب، مزاح ،آپ بیتیاں ،سفرنامے اور کرنٹ افیئرز۔معاصر ادب اور لٹریچر کو پڑھنے کے ساتھ ہماری کو شش ہونی چاہیئے کہ ہم قرآن کو بھی تھوڑا وقت دیں ، ہم دنیا جہاں کاادب پڑھ لیتے ہیں لیکن ہمیں قرآن کا ترجمہ یا تفسیر پڑھنے اور سمجھنے کی توفیق نہیں ہو تی۔

خود قرآن کا ترجمہ پڑھنا اور اسے سمجھنا ذرا مشکل ہے،قرآن کی بہت سی آیات ایسی ہیں کہ انہیں کسی عالم سے نہ سمجھا جائے تو انسان غلط فہمی،وساوس اور خدشات کا شکار ہو جاتا ہے ۔ دراصل قرآن کو سمجھنے کے لیئے بہت سے دیگر عربی علوم سے گہری واقفیت نہایت ضروری ہے اس لیئے کو شش ہو کہ کسی عالم کی زیر نگرانی ترجمہ پڑھا جائے اور اگر آپ خود ہی پڑھنا چاہیں تو اس حوالے سے مفتی تقی عثمانی صاحب کا ”آسان ترجمہ قرآن “نہایت آسان ہے اور عصری اسلوب کے مطابق لکھا گیا ہے۔

تفسیر میں معارف القرآن اور قدیم تفاسیر میں تفسیر ابن کثیربہترین ہیں۔گلدستہ تفاسیر کے نام سے مولنا عبدلقیوم مہاجر مدنی نے مختلف تفاسیر کو یکجا کر نے کی اچھی کاوش کی ہے۔قرآن میں مذکور جگہوں کی تفسیر کے لیئے علامہ سید سلیمان ندوی کی تاریخ ارض القرآن بہترین انتخاب ہے۔ حدیث میں مولنا منظور نعمانی کی ”معارف الحدیث “بہترین ہے اوراگر مشکوٰة پڑھ لی جائے تو کیا کہنے۔

لیکن میرے خیال میں ابھی تک مشکوٰة کو عوامی انداز میں نہیں لکھا گیایعنی مشکوٰة کا کوئی ایسا ترجمہ اور تشریح نہیں لکھی گئی جس سے عوام استفادہ کر سکیں۔قرآن کے بعد مشکوة ایک ایسی کتاب ہے جس میں زندگی کزارنے کامکمل ضابطہ حیات موجود ہے۔ مشکوة کا عوامی انداز میں نہ لکھا جا نا مشکوٰة جیسی عظیم کتاب کے ساتھ نا انصافی ہے اور اہل علم کو اس خلا کو پر کرنا چاہیئے۔

سیرت میں سیرت ابن اسحاق،الرحیق المختوم بہتر ہیں ، ولی رازی کی سیرت پر غیر منقوط کتاب ہادی ء عالم واقعی حیران کن کام ہے ،آپ کو پوری کتاب میں ایک بھی نقطہ نظر نہیں آئے گا۔ ڈاکٹر عبدالحئی عارفی کی اسوہ ء رسول اکرم ﷺ ایسی کتاب ہے جسے ہر گھر میں ہونا چاہیئے ، اس کتاب کو سبقا سبقا پڑھا جائے اور اسکے مطابق خود کو اسوہ رسول کے سانچے میں ڈھا لا جائے۔

جدید سیرت النبی اسحاق ملتانی کی اچھی کاوش ہے ، موٴلف نے سیرت کی مختلف کتابوں کو یکجا کر کے اچھا کام کیا ہے ،سیرت ابن ہشام ،مولنا ادریس کاندھلوی کی سیرت مصطفیٰ، شبلی نعمانی کی سیرت النبی اور بچوں کے لیئے اشتیاق احمد کی سیرت النبی قدم بقدم بہترین کتابیں ہیں ۔قدیم میں امام غزالی کی احیا ء العلوم ،ابن سیرین کی تعبیر الروٴیا،ابن جو زی کی مجالس جوزیہ،ابن خلدون کا مقدمہ ،شیخ سعدی کی گلستان اور بوستان شاہ ولی اللہ کی حجةاللہ البالغہ ہر دور کی بہترین کتابیں ہیں۔

اردو ادب میں ابوالکلام کی غبار خاطر (آپ اسے بار بار پڑھ سکتے ہیں )چوہدری افضل حق کی محبوب خدا، دین اسلام ،زندگی اور افسانہ آزادی ہند،محمد حسین آزاد کی آب حیات ،ڈپٹی نذیر احمد،پریم چند اور شرر کو ایک بار ضرور پڑھنا چاہیئے۔اردو ناول میں قرة العین حیدر کا آگ کا دریا عظیم ناول ہے ۔یہ ناول 1957میں تحریر کیا گیا تھا لیکن آج بھی ترو تازہ ہے ۔

مصنفہ نے اس ناول میں بر صغیر کی گزشتہ 2500سالہ تاریخ کو سمو دیا ہے اور قاری ناول کے ساتھ ساتھ برصغیر کی تاریخ سے بھی آگاہی حاصل کر لیتا ہے ۔عبد اللہ حسین کا اداس نسلیں وہ ناول ہے جسے راتوں رات شہرت نصیب ہوئی، بلاشبہ پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے۔شوکت تھانوی کا خدا کی بستی عمدہ ناول ہے ، اس ناول کا شمار اردو کے بہترین ناولوں میں ہوتا ہے اور اب تک اس کے پچاس سے زائد ایڈیشن شائع ہو چکے ہیں اور بیس سے زائد زبانوں میں ترجمہ ہو چکا ہے ۔

خدا کی بستی میں پچاس کے عشرے کے کراچی کو موضوع بحث بنایا گیا ہے جو کچی بستیوں کے باوجود اپنی بقا کی جد وجہد میں مصروف ہے۔راجہ گدھ 1980کے عشرے کا مقبول ترین ناول ہے،بانو قدسیہ نے اس میں سماجی مسائل کو ڈسکس کیا ہے ۔شمس الرحمان فاروقی کا کئی آسمان تھے سر آسمان پڑھنے کے لائق ہے جس میں مصنف نے برصغیر کے کلچر اور کردار کو دکھانے کی کوشش کی ہے ۔افسانوں میں ممتاز مفتی کا آپا ،اشفاق احمد کا گڈریا ،قدرت اللہ شہاب کا ماں جی اور احمد ندیم قاسمی کا گنڈاسا ضرور دیکھنے چاہیئں۔ باقی آئندہ ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :