
عالمی ادب !
پیر 23 مارچ 2015

محمد عرفان ندیم
(جاری ہے)
اگر آپ کوبھی مطالعے کی عادت پڑ جائے تو کتاب کا ایک پھٹا ہوا ورق آپ کو بھی ادیب بنا سکتا ہے۔بہر حال قومی ادب کے ساتھ ساتھ اگر وقت ملے تو ہمیں عالمی ادب کو بھی پڑھنا چاہیئے اس سے فکر ونظر کے نئے زاویے سامنے آتے ہیں اور دنیا کو وسیع تر تناظر میں دیکھنے اور سمجھنے کا موقع ملتا ہے ۔در اصل دنیا کے ہر خطے اور قوم کے اپنے حالات ، اپنی اقدارو روایات ، اپنی رسم ورواج اور اپنے مخصوص عقائد ونظریات ہوتے ہیں جس کے تحت کسی ملک اور قوم کا ادب جنم لیتا ہے ۔اگر ہم بین الاقوامی ادب کی بات کریں تو اس میں لاطینی امریکہ کے نامور ادیب گبریل گارشیا مارکیزکی” تنہائی کے سو سال“ اور” وبا کے دنوں میں محبت“ آپ کو اپنے سحر میں جکڑ لیں گی، پچھلے سال وفات پا نے والے خوشونت سنگھ کی” ٹرین ٹو پاکستان “اور” سچ ،محبت اور ذرا سا کینہ “پڑھنے کے لائق ہیں۔ ہرمن ہیسے کا نوبل ایوارڈ یافتہ نا ول ”سدھارتھ“معرفت ذات کے حوالے سے بہترین انتخاب ہے ، پائیلو کوئیہلو کے نوبل ایوارڈ یافتہ ناول ”الکیمسٹ “ کا اپنا ہی مزہ ہے۔ عالمی ادب اور لکھاریوں میں ڈیل کارنیگی،ترک ادیب حان پاموک کا مائی نیم از ریڈ جسے اردو میں ”سرخ میرا نام “جمہوری پبلیکیشنز نے شائع کیا ہے ،فرخ سہیل گوئندی بڑے اہتمام سے ترک تاریخ اور ادب کو اردو میں شائع کر رہے ہیں۔اس کے علاوہ فکشن میں ٹالسٹائی کی ”وار اینڈ پیس“ ( جنگ اور امن)، الیگزنڈر پوشکن کے افسانے ،شکسپئر کی کہانیاں، انتن چیخوف کے کلاسیکل افسانے ، دستوفسکی کی” جرم اور سزا“ اور” ذلتوں کے مارے لوگ“ اور ارنسٹ ہیمنگ وے کا” بوڑھا اور سمندر“ بھی اچھے ادب کی نمائندگی کرتے ہیں ۔حوزا سارگوما کا ”اندھے لوگ“ اور ابو یحیٰ کا”جب زندگی شروع ہو ئی“ بہترین ناول ہیں۔کارل مارکس کی” داس کیپٹل “اور گرو رجنیش کی کتابیں بھی دیکھ لی جائیں۔جنرل کتابوں میں مائیکل ہارٹ کی ”سو عظیم آدمی“ ،ستار طاہر کی ”سو عظیم کتابیں “اور جدید سیاست اور سیاسی نظریات کو سمجھنے کے لیئے مولنا تقی عثمانی کی ”اسلام اور سیاسی نظریات “جہاں سے ملے فورا خرید لیں ۔ ہمارے مدارس کے طلبا عموما جدید سیاست ، جمہوریت، آمریت ، پارلیمانی ،صدارتی، وفا قی اور وحدانی نظام اور ان جیسی دیگر اصطلاحات ، تصورات اور ان کی تاریخ سے نابلد ہوتے ہیں اور دوسری طرف کالج او ر یونیورسٹی کے طلباء کے لیئے خلافت ، خلیفہ اور اسلامی نظام حکومت سے متعلقہ تمام اصطلاحات اور تصورات اجنبی ہو تے ہیں، اس مرض کا مکمل علاج مفتی صاحب کی یہ کتاب ہے ۔محاضرات میں ڈاکٹر محمود احمد غازی کے محاضرات سیرت اور فقہ علمی کام ہے ، یہودیت اور یہودی سازشوں کو سمجھنے کے لیئے مفتی ابولبابہ صاحب کی کتب بہت معاون رہیں گی۔فکری موضوعات کے حوالے سے مفتی ابو لبابہ صاحب کی کتب کو ضرور دیکھا جائے۔مختار مسعود کی ”آواز دوست“،واصف علی واصف اور اشفاق احمد کی زاویہ کو بھی دیکھ لیا جائے۔” مخزن اخلاق“ اور” بکھرے موتی“ ہر لائیبریری کی زینت ہونی چاہیئے ۔سفرناموں میں مفتی تقی عثمانی صاحب کا” جہان دیدہ“، ”دنیا مرے آگے“،مستنصر حسین تارڑ کے سفر نامے، وحید الدین خان کے ”غیر ملکی اسفار“ اور قدیم میں” سفرنامہ ابن بطوطہ“ اور البیرونی کا سفر نامہ بہترین ہیں ۔ مزاح میں پطرس بخاری کے مضامین ،مشتاق احمد یوسفی ، کرنل محمد خان کی ”بزم آرائیاں“ ،شفیق الرحمان کی” حماقتیں “، کرشن چندر کی” ایک گدھے کی سرگزشت“، شوکت تھانوی کی” شیطان کی ڈائری“ اور یونس بٹ کی کتابیں بہترین تفریح ہیں ۔تاریخ میں ڈاکٹر مبارک علی کا کام لائق تحسین ہے اور تاریخ کے ہر طالبعلم اور تاریخ سے دلچسپی رکھنے والے افراد کو ان کو ایک بارضرور پڑھنا چاہئے، اگرچہ ان کے بعض نظریات محل نظر ہیں اور ان سے اتفاق ضروری نہیں لیکن تاریخ پر ان کا کام نہایت شاندار ہے ۔ پاکستان میں تاریخ کے حوالے سے ان سے بڑھ کر شاید ہی کسی نے کام کیا ہو۔ہندوستان کی تاریخ پڑھنے کے لیئے محمد قاسم فرشتہ کی ”تاریخ فرشتہ“ دیکھ لی جائے ،اس کے علاوہ تاریخ کے حوالے سے مولنا اسمعیل ریحان کا کام بھی دیکھنے کے لائق ہے ، مقدمہ ابن خلدون ، ٹائن بی کی اسٹڈی آف ہسٹری ، گبن کی ڈیکلائن اینڈ فال آف رومن ایمپائربھی ضرور دیکھنی چایئے۔ قدیم میں ابن کثیر کی” البدایہ والنہایہ“ جس کا اردو ترجمہ” تاریخ ابن کثیر“ کے نام سے ہوا ہے ہر ایک کو پڑھنی چاہیئے۔مولانا اکبر شاہ نجیب آبادی کی” تاریخ اسلام“ بھی دیکھ لی جائے۔ خود نوشت میں مولنا زکری کاندھلوی کی ”آپ بیتی“ ہر طالبعلم کو ضرور پڑھنی چایئے ، مہاتما گاندھی کی” تلاش حق“ ،افضل حق کا میر”ا افسانہ“ ، کلدیپ نائر کی” ایک زندگی کا فی نہیں“ ، دیوان سگھ مفتون کی ”ناقابل فراموش“، بینظیر بھٹو کی” مشرق کی بیٹی “،امیر تیمور کی” میں ہوں تیمور“، قد رت اللہ کا” شہاب نامہ“ ، احسان دانش کی” جہان دانش“، علامہ اسد کی ” روڈ ٹو مکہ“ اور” بندہ ء صحرائی“ ، مشرف کی ”سب سے پہلے پاکستان“ ، عمران خان کی” میں اور میرا پاکستان“ اور حال میں صدر الدین ہاشوانی کی چھپنے والی” سچ کا سفر “بہترین آپ بیتیاں ہیں۔
مشہور موٴرخ اور ادیب ابو الحسن علی ندوی کی کتابیں بھی ہر لائیبریری میں ہونی چاہیئں ۔ ان کی کتاب ”انسانی دنیا پر مسلمانوں کے عروج وزوال کا اثر“ ،” تاریخ دعوت و عزیمت “جس میں عالم اسلام کی اصلاحی اور تجدیدی کوششوں کا تفصیلی جائزہ لیا گیا ہے ، ”پاجا سراغ زندگی“،” نقوش اقبال“،” نئی دنیا (امریکہ ) سے صاف صاف باتیں “،”مسلم ممالک میں اسلام اور مغربیت کی کشمکش “،” معرکہ ء ایمان ومادیت“ اور” پرانے چراغ “ساری کتابیں پڑھنے کے قابل ہیں ۔ کونسلنگ کے حوالے سے مولانا وحید الدین خان کی کتابیں ضرور خریدی جائیں ، مولانا کے کچھ اپنے تفردات ہیں لیکن بہرحال ان کی کتابیں لازوال ہیں ۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
محمد عرفان ندیم کے کالمز
-
ہم سب ذمہ دار ہیں !
منگل 15 فروری 2022
-
بیسویں صدی کی سو عظیم شخصیات !
منگل 8 فروری 2022
-
میٹا ورس: ایک نئے عہد کی شروعات
پیر 31 جنوری 2022
-
اکیس اور بائیس !
منگل 4 جنوری 2022
-
یہ سب پاگل ہیں !
منگل 28 دسمبر 2021
-
یہ کیا ہے؟
منگل 21 دسمبر 2021
-
انسانی عقل و شعور
منگل 16 نومبر 2021
-
غیر مسلموں سے سماجی تعلقات !
منگل 26 اکتوبر 2021
محمد عرفان ندیم کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.