ہم کتنے عجیب لوگ ہیں !

منگل 7 مارچ 2017

Muhammad Irfan Nadeem

محمد عرفان ندیم

حسین شہید سہروردی پاکستان کے باکمال وزیر اعظم تھے۔وہ بیک وقت کئی خصوصیات کے مالک تھے۔بلا کے ذہین ،مقرر،پڑھے لکھے اور بادشاہوں والا مزاج،وہ دن رات کام میں جتے رہتے اور رات کو بھی نہ سوتے اور اگر دل کرتا تو کابینہ کے اجلاس میں ہی سو جاتے ۔ایک دفعہ سہروردی صاحب ملتان میں جلسہء عام سے خطاب کرنا چاہتے تھے مگر ان دنوں میڈیا میں ایک تصویر گردش کر رہی تھی جس میں سہروردی صاحب فلپائن میں ایک خاتون کے ساتھ ڈانس کر رہے تھے ،اپوزیشن نے اس تصویر کو استعمال کر کے ان کے ملتان دورے کو ہر صورت ناممکن بنانے کی کوشش کی۔

اپوزیشن نے بڑے بڑے پوسٹر چھپوا کر ملتان شہر میں لگوا دیے اور نوائے وقت نے ان کے خلاف خبریں لگانا شروع کر دیں ۔حسین شہید سہروردی نے اپنے سیکرٹری سے ملتان کی صورتحال کا جائزہ لینے کا کہا۔

(جاری ہے)

سیکرٹری نے ملتان کی مقامی انتظامیہ سے رابطہ کیا تو انتظامیہ نے زیر اعظم کو اس غلطی سے باز رہنے کا مشورہ دیا۔حسین شہید سہروردی نے سیکرٹری سے کہا ##”انتظامیہ کو کہہ دو میں کل تین بجے ملتان میں جلسے سے خطاب کروں گا۔

“ اگلے روز حسین شہید ملتان پہنچ گئے ۔لاکھوں کا مجمع ان کے خلاف سڑکو ں پر جمع تھا ،لوگ نعرے لگا رہے تھے اور وزیر اعظم کو بر ابھلا کہہ رہے تھے،جیسے ہی سہروردی صاحب جلسہ گاہ پہنچے سارا مجمع خاموش ہو گیا ،سہروردی صاحب نے دو گھنٹے تقریر کی مجمع نے بڑے غور سے تقریر سنی ،وزیر اعظم کے حق میں نعرے لگائے اور جاتے ہوئے لاکھوں کا مجمع ان کے ساتھ تھا ۔

اگلے روز میڈیا نے اس جلسے کو بھرپور کوریج دی اور اسے ایک کامیاب جلسہ قراردیا۔
پاکستان سپر لیگ کرکٹ کا جنون دیکھ کر مجھے یہ واقعہ یاد آ گیا ۔ہم اور ہمارے عوام کتنے سادہ ہیں اس کا اندازہ آ پ مذکورہ واقعے سے لگاسکتے ہیں ۔ آپ دیکھ لیں پورا پاکستان کرکٹ بخار میں پاگل ہوا پھر رہا ہے ، بیس کروڑ عوام اسے صرف ایک فائنل میچ کے طور پر دیکھ رہے ہیں لیکن وہ یہ نہیں جانتے کہ اس میچ کے پیچھے کیا مقاصد اور کیا عزائم کار فرما ہیں اور اس کے پیچھے کن لوگوں نے سرمایہ کاری کر رکھی ہے ۔

شاید آپ کے لیے یہ انکشاف حیران کن ہو کہ کرکٹ صرف ایک کھیل نہیں بلکہ یہ ملٹی نیشنل کمپنیوں اور سرمایہ کاروں کے لیے کمائی کا بہترین ذریعہ ہے ،یہ یہودی ایجنڈے اور عالمی سرمایہ داری کو اپنے ہاتھ میں لینے کا ایک بہترین حربہ ہے ۔ملٹی نیشنل کمپنیوں کے مالکان اور مقامی سرمایہ دار اپنے مقاصد کی تکمیل کے لیئے مختلف طریقے اور مختلف حربے استعمال کرتے ہیں ،مثلا یہ کسی ملک کے دور دراز علاقوں میں جاتے ہیں وہاں سے کرکٹ کے شوقین اور نوجوان لڑکوں کو ڈھونڈتے ہیں اور انہیں مختلف آفرز کے ساتھ اپنے ایجنڈے میں شامل کر لیتے ہیں ،پہلے انہیں ضلعی سطح پر پھر ڈویژن کی سطح پر کھلاتے ہیں ،جو لڑکے کامیاب ہوں انہیں صوبائی اور قومی سطح پر کھلایا جاتا ہے اور بعد ازاں انہیں مختلف حیلے بہانوں سے قومی ٹیم میں شامل کروا دیا جا تا ہے ۔

قومی ٹیم کا حصہ بننے تک یہ کھلاڑی مکمل طور پر بک چکے ہو تے ہیں اورآئندہ کے لیے یہ کھلا ڑی انٹر نیشنل گراوئنڈزمیں ان کپمنیوں اور ان افراد کی نمائندگی کر رہے ہوتے ہیں ۔ان کھلاڑیوں کے ساتھ باقاعدہ معاہدے کیئے جاتے ہیں اور یہ معاہدے ان کے اپنے مفاد میں ہوتے ہیں ۔کرکٹ اس وقت دنیا کا سب سے مقبول کھیل ہے او ر اس وقت دنیا کے پانچ ارب افراد کرکٹ کے بخار میں مبتلاء ہیں ،دنیا کے انٹرسٹ کو دیکھتے ہوے ان لوگوں نے کھلاڑیوں پر محنت شروع کر دی ،یہ لوگ ان نوجوانوں کو قومی ٹیم میں شامل کروانے کے ساتھ ساتھ انہیں”اپنی ٹیم “کا بھی حصہ بنا لیتے ہیں ۔

کرکٹ ایک فل ٹائم کھیل ہے اور جو انسان ایک دفعہ ٹی وی کے سامنے بیٹھ جائے وہ اس تک نہیں اٹھ سکتا جب تک میچ کا فیصلہ نہیں ہو جاتا،لوگ کرکٹ کا میچ دیکھنے کے لیئے وقت سے پہلے دکانیں بند کر دیتے ہیں ،اسٹو ڈنٹ طبقہ کا لج یو نیورسٹی سے چھٹی کر لیتا ہے،خواتین جلد از جلد کچن سے فارغ ہو جاتی ہیں اور ڈرائیور طبقہ اسی کی سپیڈ پر گاڑی بگھاتا ہوا گھر پہنچتا ہے ۔

یہ ساری صورتحال ان افراد اور کمپنیوں کے لیئے بڑی دلچپ ہے ،یہ اپنی پروڈکٹس ، مصنوعات اور ایجنڈے کی تشہیر کے لیئے کرکٹ کے سنسنی خیز لمحات کو استعمال کرتے ہیں ،مثلا کرکٹ میں چوکا یا چھکا لگنے کا مرحلہ بڑا دلچسپ ہو تا ہے ،تماشائی اپنی سیٹوں سے اٹھ کر کھلاڑی کو داد دیتے ہیں اورسارے اسٹیڈیم میں شور بلند ہو جاتا ہے ،اگر کو ئی کھلاڑی آؤٹ ہو تو وہ مرحلہ بھی بڑا سنسنی خیزہو تا ہے اب ان افراد اور ان کمپنیوں کے لیئے یہی وہ لمحہ ہو تا ہے جسے وہ بڑی خوبصورتی سے استعمال کرتے ہیں ،عین اس لمحے جب چوکا یا چھکا لگتا ہے یا کو ئی کھلاڑی آؤٹ ہو تا ہے یہ افراد اور کمپنیا ں اپنا کام شروع کر دیتی ہیں ،جب دنیا کے پانچ ارب افراد ٹی وی سکرین پر چوکا یا چھکالگنے کے منظر کو دیکھ رہے ہو تے ہیں اس وقت یہ کمپنیاں ٹی وی سکرین کے کونے پر ایک اشتہار چلا دیتی ہیں اور دنیا کے پانچ ارب افراد نا چاہتے ہوئے بھی اسے دیکھنے پر مجبور ہو تے ہیں،جب کوئی کھلاڑی آؤٹ ہو تا ہے اور لوگ بڑے انہماک سے ٹی وی سکرین پر دیکھ رہے ہوتے ہیں عین اسی لمحے یہ کمپنیاں اپنے ایجنڈے کا ہتھوڑا پانچ ارب افراد کے سر پر مارتی ہیں اور دنیا کے پانچ ارب افراد بڑی خوشی سے اس ہتھوڑے کو برداشت کر لیتے ہیں ،اب یہ افراد اور کمپنیاں”اپنے کھلاڑیوں“ کو کیسے استعمال کرتی ہیں یہ منظر بھی بڑادلچسپ ہے ،یہ افراد ”اپنے کھلاڑیوں “ کوہدایات دیتی ہیں تم نے گیند پھینکتے ہوئے اتنے قدم دوڑنا ہے ،تم نے فلاں بال ”نو بال“پھینکنی ہے ،تم نے فلاں گیند پھینکے بغیر واپس چلے جانا ہے اور تم نے فلاں کیچ چھوڑنا ہے اور ان سارے سنسنی خیز لمحات میں جب پانچ ارب افراد کرکٹ بخار سے کپکپا رہے ہو تے ہیں یہ افراد اور کمپنیا ں اپنے ایجنڈے کی میڈیسن ان کی روح تک اتار دیتے ہیں ۔

شاید آپ اس سارے فلسفے پر یقین نہ کریں مگر حقیقت یہی ہے ،حالیہ سپر لیگ میں شرجیل اور خالد اس کیس میں پکڑے گئے ہیں اور اس سے پہلے بھی تین پاکستانی کھلاڑی ایسی سزا بھگت چکے ہیں ۔ یہ صرف کرکٹ کے شعبے کی مثال ہے ورنہ عالمی سرمایہ داروں اور ملٹی نیشنل کمپنیوں نے دنیا کے پانچ سو سے زائد شعبوں میں اسی طرح حکمرانی قائم کر رکھی ہے ۔ کبھی کبھی سوچتا ہوں ہم اور ہمارے عوام کتنے سادہ ہیں،ہم حکمرانوں،سیاست دانوں اور سرمایہ داروں کے پیچھے لگ کراپنی جان تک ہار جاتے ہیں ، ہم ان ناخداوٴں کو اپنا بھگوان سمجھ بیٹھتے ہیں ۔

کبھی سیاسی جلسوں میں ڈنڈے کھاتے ہیں اور کبھی جھلستی دھوپ میں بیٹھ کر ان کے بھاشن سنتے ہیں ۔ کبھی ووٹوں کے لیے اپنے سیاسی مخالفین سے الجھ جاتے ہیں اور کبھی سرمایہ داروں کے ہتھے چڑھ کر قذافی اسٹیڈیم کے باہر قطاروں میں لگ جاتے ہیں ۔ہم بارہ بارہ ہزار کے ٹکٹ خرید کر اور ساری رات ٹی وی کے سامنے بیٹھ کر سمجھتے ہیں یہ پاکستان کی جیت ہے ۔ہم کتنے عجیب لوگ ہیں،کتنے عجیب۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :