سکون کی تلاش میں !

اتوار 19 مارچ 2017

Muhammad Irfan Nadeem

محمد عرفان ندیم

میں نے گراوٴنڈ کے گرد چکر لگایا اور سانس لینے کے لیے بینچ پر بیٹھ گیا ۔یہ گرمیوں کی ایک صبح تھی،موسم انتہائی گرم تھا اورگراوٴنڈ میں کافی لوگ جمع تھے ۔ میں اسلام آباد کے ایک ادارے میں کسی کورس میں شریک تھا ، میں روزانہ صبح نماز کے بعد واک کے لیے گراوٴنڈ میں آجاتا تھا۔مجھے بینچ پر بیٹھے چند منٹ ہی گرزے تھے کہ دامن کوہ کی طرف سے کالی گھٹائیں آئیں اور آسمان پر چھا گئیں۔

اسلام آباد میں بارش کے آنے اور جانے کا کوئی پتا نہیں چلتا ۔ اس دن بھی ایسا ہی ہوا ، اچانک بارش شروع ہو گئی ، میں بینچ سے اٹھا اور گراوٴنڈ میں موجود ایک گھنے درخت کے نیچے جا کر کھڑا ہو گیا ۔ گراوٴنڈ میں موجود دوسرے لوگ بھی درخت کے نیچے آگئے ۔ اب ہم پانچ چھ لوگ بارش کے رکنے کا انتظار کر رہے تھے ۔

(جاری ہے)

بارش جی بھر کر برس رہی تھی اور ہمارا انتظار طویل ہوتا جا رہا تھا ۔

ہم پانچوں لوگ ایک دوسرے کے لیے اجنبی تھی لیکن بارش کے طویل انتظار نے ہمار ی اجنبیت ختم کر د تھی ۔میرے دائیں طرف کھڑے ایک سوٹڈ بوٹد نوجوان نے خاموشی توڑی اور گفتگو شروع کر دی ۔یہ نوجوان چینی انجینئر کا گائیڈ تھا اور چینی انجینئر بھی اس کے ساتھ ہی کھڑا تھا ۔ پہلے تو وہ خاموش رہا اور لیکن ہماری بے تکلفی دیکھ کر وہ بھی گفتگو میں شریک ہو گیا ۔

پرسنل لائف سے شروع ہو کر بات سیاست پر آ گئی ۔ ہم سی پیک ، ٹرمپ، پاک بھارت ، پی ایس ایل ، افغانستا ن اور اسرائیل سے ہوتے ہوئے مذہب کی طرف آ گئے ۔ مجھے نوجوان گائیڈ نے بتایا کہ ہمارا یہ چینی دوست مذہب کے حوالے سے کافی دلچسپی رکھتا ہے ۔ اب میری گفتگو ڈائریکٹ چینی دوست سے ہو رہی تھی ۔ مجھے گفتگو سے اندازہ ہوا وہ مذہب کو صرف روحانیت کے آئینے سے دیکھتا ہے ۔

وہ روحانیت کی تلاش میں تھا ، باتوں باتوں میں اس نے مجھے بتایا کہ وہ روحانیت کی تلاش میں امریکہ تک گیا ۔ستر کی دہائی میں امریکہ کی کسی ریاست میں بھارت کا ایک گرو جا کر بس گیا تھا ، وہاں اس نے اپنا ایک مرکز بنا لیا ،روحانیت کی تلاش میں لوگ بھارت اور دنیا بھر سے اس کے پاس آتے تھے ، گوروں کی ایک بہت بڑی تعداد اس کی مرید تھی ، میں بھی اس کے مرکز روحانیت میں گیا لیکن مجھے دل کا سکون اور روحانیت کہیں نہیں ملی ۔

وہ بات مکمل کر کے خامو ش ہوا تو میں نے روحانیت کے حوالے سے اسے قائل کرنے کی کوشش کی اور آئندہ ملتے رہنے کے اتفاق پر ہماری بات ختم ہو گئی ۔
یہ حقیقت ہے کہ مذہب بیزار معاشرے اندر سے کھوکھلے ہو چکے ہیں ۔ انہوں نے سیکولرزم کے نام پر مذہب کا تو دیس نکالا دیا ہے لیکن ان کا سیکولرزم ان کو امن، سکون اور روحانیت نہیں دے پایا اور یہ بیچارے مصنوعی طریقوں سے روحانیت حاصل کرنے کی کوشش میں دنیا بھر میں مارے مارے پھرتے ہیں ۔

آ پ دنیا کا کوئی بھی سیکولر معاشرہ دیکھ لیں آپ کو اس میں سب سے ذیادہ بے چینی اور خودکشی کا رجحان ملے گا ۔قدیم دور سے انسان مذہب میں سکون اور روحانیت تلاش کرتا آیا ہے لیکن آج کے جدید معاشرے مذہب کو پس پشت ڈال کر سکون اور روحانیت چاہتے ہیں جو انہیں کبھی نصیب نہیں ہو سکتی۔ یہ معاشرے دنیا کی تمام سہولتوں کے باوجود اندر سے کھوکھلے اوربے چین ہیں اور انہیں روحانیت کی تلاش ہے ۔

یہ روحانی ترقی اور تسکین کے متلاشی ہیں ، زندگی کو ہر لحاظ سے پرآسائش بنانے کے باوجود ان کا دل بے چین ہے ۔وہ یہ بات نہیں سمجھ سکے کہ پر سکون زندگی کے لیے پیسا اور سہولیات کافی نہیں قلبی اطمینان ضروی ہے ، یہودی اور عیسائی مذہب کی اصل تعلیمات ان تک پہنچی نہیں اور مذہب اسلام کی اس وقت جومروجہ تصویر پیش کی جا رہی ہے اس سے یہ لوگ بیزار ہیں اس لیے مذہب کے بارے میں یہ لوگ کشمکش کا شکار ہیں،سکون ،اطمینان اور روحانیت بھی چاہتے ہیں لیکن مذہب کو بھی اپنانا نہیں چاہتے۔

اس سارے معاملے میں ہمارا قصور یہ ہے کہ ہم مذہب کا صحیح تصور وہاں پہنچا نہیں سکے یا کھلے لفظوں میں ہم نے کوشش ہی نہیں کی۔اب ان لوگوں نے اپنے ملکوں کے آئین اور قانون کو مذہب کا درجہ دے دیا ہے اور جاب کو وہ عبادت سمجھتے ہیں اور یہی ان کی مادی ترقی کی بنیادی وجہ ہے۔روحانی تسکین نہ ہونے کی وجہ سے ایسے ممالک میں خود کشی کی شرح سب سے ذیادہ ہے اور خاندانی نظام ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے ۔

تہذیب کی بنیادی اکائی خاندان ہے خاندان سے معاشرے اور معاشروں سے قومیں اور تہذیبیں پروان چڑھتی ہیں لیکن ان معاشروں میں خاندان کا کوئی تصور نہیں ان کے نزدیک محض جنسی تسکین اہم ہے ۔خاندان اور فیملی کا لفظ ان معاشروں میں ختم ہوتا جا رہا ہے ، وہ سب کچھ پالینے کے باوجود اندر سے خالی ہیں ، ان ممالک میں اسلام کی مقبولیت کا جو رجحان پروان چڑھ رہا ہے اس کی وجہ بھی یہی ہے کہ اسلامی تعلیمات کی چھتری تلے انہیں ذہنی سکون ملتا ہے۔

ان معاشروں میں خواتین میں اسلام کی مقبولیت کا جو رجحان بڑھ رہا ہے اس کی وجہ بھی یہی ہے خواتین مذہب اسلام کے دائرے میں آ کر خود کو پرامن اور محفوظ تصور کرتی ہیں اور ان کو ذہنی سکون اور روحانیت نصیب ہوتی ہے۔ مذہب بیزار معاشروں کواپنی بقا کے لیے اس وقت تین بڑے چیلنجز درپیش ہیں ،ایک یہ عقلیت پرستی کی انتہا پر کھڑے ہیں اور اس انتہا کی دوسری جانب زوال کی گہری کھائیاں اور طویل غار ہیں ،انیسویں اور بیسویں صدی عقلیت پرستی کی صدیاں کہلاتی ہیں اور عقلیت پرستی کسی قوم اور تہذیب کے زوال کاآخری اسٹیج ہوتا ہے ۔

ان معاشروں کا دوسرا بڑا چیلنج خاندانی نظام ہے ، وہاں خاندانی نظام ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے ، خاندان نہ ہونے کی وجہ سے گھر بنانے اور بسانے کا رواج نہ ہونے کے برابر ہے ، اب اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ وہاں کے مقامی لوگوں کی تعداد تیز ی سے کم ہو رہی ہے اور تارکین وطن کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے ،ایسی تحقیقات سامنے آگئی ہیں جن میں بتایا گیا ہے کہ اگلے دس ، بیس یا تیس سالوں میں ان ممالک میں مسلمانوں کی تعداد بڑھ جائے گی ۔

اب ان کی آنکھیں کھلیں ہیں اور وہاں کی حکومتوں نے خاندان بسانے اور شرح افزائش میں اضافے کے لیے مختلف پالیسیاں اور اور ترغیبات دینی شروع کر دی ہیں ۔ ان معاشروں کا تیسرا بڑا چیلنج روحانیت کا فقدان ہے ، یہ لوگ روحانی طور پر بہت پریشان ہیں اور روحانیت کی تلاش میں کبھی چرچ جاتے ہیں کبھی مندر لیکن اس کے باوجود انہیں سکون نہیں ملتا ، جس دن انہیں پتا چل گیا کہ اصل روحانیت اور دل کا سکون اسلام کے پاس ہے اس دن یہ سب لوگ مسلمان ہو جائیں گے اور کم از کم ہم سے اچھے مسلمان ثابت ہوں گے ۔


یہ حقیقت ہے کہ مذہب ہر دور میں انسان کی ضرورت رہا ہے اور قدیم معاشرے مذہب سے سکون او ر روحانیت تلاش کرتے آئے ہیں ۔ پچھلے چودہ سو سال سے اگر کوئی مذہب اس دنیا میں اپنی اصلی حالت میں باقی ہے اور مذہب کہلانے کا حقدار ہے تو وہ صرف اسلام ہے اس لیے اگر آج کوئی روحانیت اور قلبی سکون کا متلاشی ہے تو اسے یہ خزانہ اسلام کی تجوری سے ملے گا ، اسے اسلام کی چھتری تلے آنا پڑے گا۔کوئی مانے یا نا مانے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :