زندگی!

منگل 18 اپریل 2017

Muhammad Irfan Nadeem

محمد عرفان ندیم

” میں اپنی زندگی کو تین حصوں میں تقسیم کرتا ہوں اور مجھے لگتا ہے کہ میں زندگی کے ان تینوں حصوں میں ناکام رہا “ انہو ں نے پہلو بدلا ، موٹے شیشوں والی عینک اتار کر میز پر رکھی اور میری طرف متوجہ ہو کر بولے ” سب سے پہلے میں تمہیں اپنے بچپن میں لے جاتا ہوں ، ہر کامیاب انسان کی طرح میرا بچپن بھی سادہ اور معمولی تھا ، میں نے پنجاب کے ایک دور دراز گاوٴں میں پرورش پائی ، میرے والدین لوئر مڈل کلاس گھرانے سے تعلق رکھتے تھے اور وہ ہندوستان سے ہجرت کر کے پنجاب کے ایک غیر معروف قصبے میں آکر آباد ہو گئے تھے ،میرا سارا بچپن اسی گاوٴں میں گزرا ، میں بھی عام دیہاتی بچوں کی طرح صرف شلوار یا قمیض میں گھومتا تھا ، شلوار کی صورت میں مجھے قمیض کی حاجت نہیں ہوتی تھی اور اگر قمیض گلے میں ہوتی تو شلوار کا تکلف نہیں کیا جاتا تھا ، تب عام دیہاتی بچوں کا یہی کلچرمعروف ہوا کرتا تھا ۔

(جاری ہے)

میرے والد صبح سویرے ڈھور ڈنگر لے کر کھیتوں میں جاتے تو میں بھی ان کے ساتھ ہو لیتا تھا اور جب وہ کھیتوں میں کام کرتے تو میں کسی قریبی درخت پر چڑھ کر چڑیوں کے گھونسلوں سے لطف اندوز ہوتا تھا ۔ یہ بہت سادہ زندگی تھی اور میں نے اپنی زندگی کے پہلے دس سال اسی کلچر کے تحت گزارے ۔ دس سال کے بعد مجھے یاد پڑتا ہے کہ والد صاحب نے مجھے گاوٴں کے ایک پرائمری اسکول میں داخل کروا دیا ، یہ اسکول کم تھا اور تفریح گاہ ذیادہ ۔

ماسٹر صاحب کرسی پر بیٹھ کر اخبار پڑھتے یا خراٹے لیتے اور ہم کلاسوں میں بیٹھ کر چور سپاہی کھیلا کرتے تھے ، اگر کبھی سبق پڑھابھی دیا تو سننے کی نوبت نہیں آتی تھی ۔ میرے والد صاحب کا معمول تھا کہ رات مغرب کے بعد ہم سب بہن بھائیوں کو لے کر بیٹھ جاتے تھے اور اسکول کا سبق یاد کرواتے تھے ، والد صاحب کی توجہ سے میں واحد طالبعلم تھا جسے کلاس میں سبق یاد ہوتا تھا اور ماسٹر صاحب میری ڈیوٹی لگا دیتے تھے کہ میں کلاس کے دوسرے بچوں کا سبق سنوں ۔

پرائمری کے بعد پہلے مڈل اور پھر ہائی اسکول جانا ہوا اور اللہ کا شکر ہے کہ میں ہمیشہ ہر کلاس میں مانیٹر رہا اور کبھی کسی استاد سے مار کھانے کی نوبت نہیں آئی ۔ میں ہائی اسکول تک کے زمانے کو اپنی زندگی کا پہلا حصہ شمار کرتا ہوں “ ۔وہ رکے ،گردن جھکائی اور کافی دیر سوچتے رہے ، میں نے عرض کیا ” سر آپ کی زندگی کا دوسرا حصہ کون سا ہے اور کب شروع ہوتا ہے “ انہوں نے سر اٹھایا ، سرد آہ بھری اور چھت کی طرف حسرت آمیز نظروں سے گھورا اور دوبار ہ گویا ہوئے ” میری زندگی کا دوسرا حصہ ایف ایس سی سے شروع ہو کر پی ایچ ڈی تک جاتاہے ۔

اب میں گاوٴں سے نکل کر شہر میں آگیا تھا ، میں نے ایک اچھے کالج میں ایڈمیشن لیاا ور بہترین نمبروں کے ساتھ ایف ایس سی کا امتحا ن پا س کیا ، میں ایف ایس سی میں پوزیشن ہو لڈر تھا ، اچھے نمبروں کی بنیاد پر مجھے لاہور کی پبلک سیکٹر یونیورسٹی میں فری ایڈمیشن مل گیااور اس کے ساتھ ماہانہ اسکالرشپ بھی ملنے لگا ، یہ میرے لیے اعزاز کی بات تھی اور میں اپنے اس اعزاز کو کبھی ختم نہیں کرنا چاہتا تھا لہذ ا میں یونیورسٹی میں بھی اسی دلجمعی کے ساتھ اپنی پڑھائی میں مشغول رہا ۔

یہ وہ دور تھا جب میں ٹین ایج میں داخل ہو چکا تھا اور مجھ پر شرعی ، سماجی اور گھریلو پابندیاں لاگو ہو چکی تھیں، لیکن میری بدقسمتی تھی کہ میں اپنی پڑھائی اور روٹین میں اس قدر مشغول رہتا تھا کہ نہ مجھے نماز کی فرصت تھی ، نہ میں نے کبھی قرآن کو ہاتھ لگایا اور نہ ہی میں نے اپنے گھر والوں ،فیملی ممبرز اور رشتہ داروں کو ذیادہ وقت دیا ، مجھے جنون کی حد تک پڑھائی سے لگاوٴ تھا اور میں اپنے اعزاز کو برقرار رکھنے ، اپنے مستقبل کو روشن دیکھنے اور بہترین جاب کے حصول کے سپنے دیکھتا تھا اور یہی وہ بنیادی فیکٹر تھا جو مجھے کسی اور طرف متوجہ ہونے اورکسی اور کام کو وقت دینے سے مانع تھا ۔

میں اپنی محنت کے بل بوتے پر اپنا اعزاز برقرار رکھنے اور بہترین جاب حاصل کرکے اپنا مستقبل روشن کرنے میں کامیاب ہو گیا اور یوں میں نے اپنی زندگی کا یہ بہترین حصہ بھی گزار دیا “
ان کی زندگی کا ایک حصہ ابھی باقی تھا ، میرا تجسس بڑھ رہا تھا ، وہ کافی دیر رکے رہے ، جب سکتہ طویل ہو گیا تو میں نے عرض کیا ”سر آپ کی زندگی کا ایک حصہ ابھی باقی ہے “ ان کے چہرے پر مسکراہٹ چھا گئی ، انہوں نے پہلو بدلا اور دوبارہ گویا ہوئے ” میری زندگی کا تیسر ا حصہ وہ ہے جو میں اب گزار رہا ہوں اور یہ میری ریٹائر منٹ کے بعد شروع ہوتا ہے اور میری آخری سانس تک چلے گا ، زندگی کے اس حصے میں ، میں ان خوش نصیب شہریوں میں سے ہوں جو اچھی پوسٹ سے ریٹائر ہو تے ہیں اور انہیں پنشن کی مد میں اچھی خاصی رقم مل جاتی ہے اور یوں مجھے زندگی کے اس حصے سے بھی کوئی شکوہ نہیں اور میری زندگی کا یہ حصہ بھی خوبصورت ہے لیکن “ لیکن کے بعد وہ رک گئے اور کافی دیر رکے رہے ، مجھ سے رہا نہ گیا میں نے عرض کیا ” سر لیکن کے بعد کیا ہوا “ان کی آنکھوں میں حسرت اور افسوس کے ملے جلے اثرات نمایاں ہو گئے اور ان کا چہرہ حسرت اور یاس کی خوبصورت پینٹنگ بن گیا ، وہ بمشکل خود کو سنبھال پائے اور بولے ” میں جب اپنی زندگی کے ان تینوں حصوں پر نظر ڈالتا ہوں تو مجھے لگتا ہے میں نے اپنی ساری زندگی برباد کردی ، ظاہری طور پر تم نے دیکھا کہ میں بہت خوشحال تھا اور میں ہمیشہ کامیاب ہوتا رہا لیکن اب بڑھاپے میں آکر جب میں دیکھتا ہوں تو مجھے میری زندگی میں روحانیت کہیں نظر نہیں آتی ،مجھے اپنی زندگی میں بہترین پڑھائی ، بہترین جاب اور بہترین مستقبل تو نظرآتا ہے لیکن مجھے نماز کہیں نظر نہیں آتی ، مجھے بہترین گاڑی اور بنگلہ تو نظر آتا ہے لیکن مجھے اپنی زندگی میں قرآن کہیں نظر نہیں آتا ، مجھے لاکھوں روپے تنخواہ تو نظر آتی ہے لیکن حج اور زکوة کہیں نظر نہیں آتے ۔

مجھے یاد ہے جب یونیورسٹی لائف میں دوست مجھے روحانیت کی طرف بلاتے تھے تو میں کہتا تھا ابھی ساری زندگی پڑی ہے بعد میں روحانیت کی طرف توجہ دے لوں گا ، جاب کے دورا ن جب کولیگ مجھے اس طرف متوجہ کرتے تو میں انہیں بھی ٹال دیتا اور آج جب میں زندگی کی آخری سیڑھی پر کھڑا ہوں اور کوئی خبر نہیں کس وقت عزرائیل آئے اور مجھے اس سیڑھی سے دھکا دے دے ،آج سوچتا ہوں کاش میں پروفیشنل لائف کے ساتھ اپنے رب سے بھی جڑ جاتا ۔

میں اپنے رب کو ہمیشہ ٹالتا رہا ، اسٹوڈنٹ لائف میں سوچتا تھا ابھی پڑھائی اہم ہے باقی سب کچھ بعد میں ہو جا ئے گاا ور پروفیشنل لائف میں آیا تو سوچا ابھی اپنا مستقبل بناوٴ باقی بعد میں دیکھا جائے گا اور اب میں دیکھتا ہوں تو دیکھتا ہی رہ جاتا ہوں ، میری زندگی میں سب کچھ ہے بس نماز اور قرآن نہیں ہے اور میں چاہتے ہوئے بھی اپنی زندگی کی اس کمی کو پورا نہیں کر سکتا ۔

میرے پاس آج اتنی دولت ہے کہ میں اپنی خوشی کے لیے زندگی کی ہر چیز خرید سکتا ہوں لیکن میری زندگی کے وہ مہ و سال جو نمازاور قرآن کے بغیر گزرے میں اپنی ساری دولت دے کر بھی انہیں واپس نہیں لا سکتا “ میں نے دیکھا ان کی آنکھوں سے دوموتی نکلے اوران کے گالوں سے ہوتے ہوئے حسرت ویاس کے گہرے سمندروں میں کہیں کھو ہو گئے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :