
زندگی!
منگل 18 اپریل 2017

محمد عرفان ندیم
(جاری ہے)
ان کی زندگی کا ایک حصہ ابھی باقی تھا ، میرا تجسس بڑھ رہا تھا ، وہ کافی دیر رکے رہے ، جب سکتہ طویل ہو گیا تو میں نے عرض کیا ”سر آپ کی زندگی کا ایک حصہ ابھی باقی ہے “ ان کے چہرے پر مسکراہٹ چھا گئی ، انہوں نے پہلو بدلا اور دوبارہ گویا ہوئے ” میری زندگی کا تیسر ا حصہ وہ ہے جو میں اب گزار رہا ہوں اور یہ میری ریٹائر منٹ کے بعد شروع ہوتا ہے اور میری آخری سانس تک چلے گا ، زندگی کے اس حصے میں ، میں ان خوش نصیب شہریوں میں سے ہوں جو اچھی پوسٹ سے ریٹائر ہو تے ہیں اور انہیں پنشن کی مد میں اچھی خاصی رقم مل جاتی ہے اور یوں مجھے زندگی کے اس حصے سے بھی کوئی شکوہ نہیں اور میری زندگی کا یہ حصہ بھی خوبصورت ہے لیکن “ لیکن کے بعد وہ رک گئے اور کافی دیر رکے رہے ، مجھ سے رہا نہ گیا میں نے عرض کیا ” سر لیکن کے بعد کیا ہوا “ان کی آنکھوں میں حسرت اور افسوس کے ملے جلے اثرات نمایاں ہو گئے اور ان کا چہرہ حسرت اور یاس کی خوبصورت پینٹنگ بن گیا ، وہ بمشکل خود کو سنبھال پائے اور بولے ” میں جب اپنی زندگی کے ان تینوں حصوں پر نظر ڈالتا ہوں تو مجھے لگتا ہے میں نے اپنی ساری زندگی برباد کردی ، ظاہری طور پر تم نے دیکھا کہ میں بہت خوشحال تھا اور میں ہمیشہ کامیاب ہوتا رہا لیکن اب بڑھاپے میں آکر جب میں دیکھتا ہوں تو مجھے میری زندگی میں روحانیت کہیں نظر نہیں آتی ،مجھے اپنی زندگی میں بہترین پڑھائی ، بہترین جاب اور بہترین مستقبل تو نظرآتا ہے لیکن مجھے نماز کہیں نظر نہیں آتی ، مجھے بہترین گاڑی اور بنگلہ تو نظر آتا ہے لیکن مجھے اپنی زندگی میں قرآن کہیں نظر نہیں آتا ، مجھے لاکھوں روپے تنخواہ تو نظر آتی ہے لیکن حج اور زکوة کہیں نظر نہیں آتے ۔ مجھے یاد ہے جب یونیورسٹی لائف میں دوست مجھے روحانیت کی طرف بلاتے تھے تو میں کہتا تھا ابھی ساری زندگی پڑی ہے بعد میں روحانیت کی طرف توجہ دے لوں گا ، جاب کے دورا ن جب کولیگ مجھے اس طرف متوجہ کرتے تو میں انہیں بھی ٹال دیتا اور آج جب میں زندگی کی آخری سیڑھی پر کھڑا ہوں اور کوئی خبر نہیں کس وقت عزرائیل آئے اور مجھے اس سیڑھی سے دھکا دے دے ،آج سوچتا ہوں کاش میں پروفیشنل لائف کے ساتھ اپنے رب سے بھی جڑ جاتا ۔میں اپنے رب کو ہمیشہ ٹالتا رہا ، اسٹوڈنٹ لائف میں سوچتا تھا ابھی پڑھائی اہم ہے باقی سب کچھ بعد میں ہو جا ئے گاا ور پروفیشنل لائف میں آیا تو سوچا ابھی اپنا مستقبل بناوٴ باقی بعد میں دیکھا جائے گا اور اب میں دیکھتا ہوں تو دیکھتا ہی رہ جاتا ہوں ، میری زندگی میں سب کچھ ہے بس نماز اور قرآن نہیں ہے اور میں چاہتے ہوئے بھی اپنی زندگی کی اس کمی کو پورا نہیں کر سکتا ۔ میرے پاس آج اتنی دولت ہے کہ میں اپنی خوشی کے لیے زندگی کی ہر چیز خرید سکتا ہوں لیکن میری زندگی کے وہ مہ و سال جو نمازاور قرآن کے بغیر گزرے میں اپنی ساری دولت دے کر بھی انہیں واپس نہیں لا سکتا “ میں نے دیکھا ان کی آنکھوں سے دوموتی نکلے اوران کے گالوں سے ہوتے ہوئے حسرت ویاس کے گہرے سمندروں میں کہیں کھو ہو گئے۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
محمد عرفان ندیم کے کالمز
-
ہم سب ذمہ دار ہیں !
منگل 15 فروری 2022
-
بیسویں صدی کی سو عظیم شخصیات !
منگل 8 فروری 2022
-
میٹا ورس: ایک نئے عہد کی شروعات
پیر 31 جنوری 2022
-
اکیس اور بائیس !
منگل 4 جنوری 2022
-
یہ سب پاگل ہیں !
منگل 28 دسمبر 2021
-
یہ کیا ہے؟
منگل 21 دسمبر 2021
-
انسانی عقل و شعور
منگل 16 نومبر 2021
-
غیر مسلموں سے سماجی تعلقات !
منگل 26 اکتوبر 2021
محمد عرفان ندیم کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.