ہم سب کی کہانی !

پیر 12 جون 2017

Muhammad Irfan Nadeem

محمد عرفان ندیم

” میری ز ندگی کا حاصل یہ گاڑی اور مکان ہے لیکن میری بدقسمتی دیکھیں کہ آج میں ان دونوں کے استعمال سے معذور ہوں ، نہ میں گاڑی پر سواری کر سکتا ہوں اور نہ اس مکان میں رہ سکتا ہوں “ انہوں نے سامنے کھڑی کرولا گاڑی کو حسرت بھری نظروں سے دیکھا اور پھر اپنے مکان کے طول و عرض پر نگاہ دوڑا کر خاموش ہو گئے ۔ میں نے پہلے گاڑی کی نظر دوڑائی پھر شیخ صاحب کے محل نما گھر کی طرف دیکھا اور آخر میں شیخ صاحب کے چہرے پر نظریں گاڑ دیں ، ان کا چہروہ واقعی رحم طلب تھااور اپنی زندگی کے آخری اسٹیج پران پر یہ حقیقت واضح ہو گئی تھی ۔

شیخ صاحب کی کہانی اس معاشرے کے ہر دوسرے فرد کی کہانی ہے اورہم لاشعوری طور پر اس کہانی کا کردار بنتے چلے جاتے ہیں ۔ ہم جیسے ہی ٹین ایج سے نکلتے ہیں ہم زندگی کی شاہراہ پر سرپٹ دوڑنا شروع کر دیتے ہیں ، اس دوڑ میں ہمیں یہ اندازہ ہی نہیں ہوتا کہ ہم غلط سمت پردوڑ رہے ہیں اور ہماری منزل ادھوری ہے ۔

(جاری ہے)

ہمیں اندازہ ہی نہیں ہوتا کہ اس دوڑ میں ہم نے کتنے رشتوں کو روند ڈالا، کتنی قربتیں قربان کر ڈالی اور کتنے لمحات کو ضائع کر دیا ۔

ہمیں احساس ہی نہیں ہوتا کہ اس دوڑ میں ہم نے کتنے دلوں کو روند ڈالا، کتنے دلوں کی بد دعائیں سمیٹی اور کتنے لوگوں کے دلوں سے اتر گئے ۔ ہم اس دوڑ میں مسلسل دوڑتے رہتے ہیں اور ہمیں تب ہوش آتا ہے جب ہم شیخ صاحب کی منزل پر پہنچ جاتے ہیں اور اس منزل پر آکر نہ ہم ان رشتوں کو بحال کر سکتے ہیں ، نہ ان قربتوں کو لوٹا سکتے ہیں اور نہ ہی ان قیمتی لمحات کو واپس لا سکتے ہیں ۔

ہم ٹوٹے ہوئے دلوں کو جوڑ سکتے ہیں ، بد دعاوٴں کو روک سکتے ہیں اور نہ ہی اپنی گاڑی اور اپنا گھر استعمال کر سکتے ہیں ۔اس اسٹیج پر آکر ہماری حالت یہ ہوتی ہی کہ ہمیں خدا ملتا ہے اور نہ ہی وصال صنم۔ میں نے اس دن شیخ صاحب کی آنکھوں میں حسرت و یاس کے جو آنسو دیکھے میں نے اپنی پوری زندگی میں کبھی ایسا تجربہ نہیں کیا ۔ میں نے شیخ صاحب سے ان کی کہانی سننے کی فرمائش کی تو وہ بولے ”میں اٹھارہ سال کا تھا جب میں نے میٹر ک کیا ، میں مڈل کلاس گھرانے سے بلانگ کرتا تھا ،ہم سات بھائی اور چار بہنیں تھیں ، میں نے اپنے گھر میں ہمیشہ غربت دیکھی تھی ، والد صاحب محنت مزدوری کرتے تھے،خاندان بڑا تھا اور اکیلے والد صاحب کی کمائی سے گھر نہیں چل سکتا تھا ، بڑے بھائی اپنی تعلیم جاری نہیں رکھ پائے اور والد کا ہاتھ بٹانے لگے، میں بھائیوں میں چھٹے نمبر پر تھا ، میں نے جب میٹرک کی تب تک گھریلو حالات کافی حد تک بہتر ہو گئے تھے اور دوسرے بھائیوں کی نسبت مجھے پڑھائی کا موقعہ مل گیا ، اب مجھے جنون تھا کہ سوسائٹی اور رشتہ داروں میں اپنا امیج بہتر بنانا ہے ، اپنی مالی حالت درست کرنی ہے اور اپنے پاوٴں پر کھڑا ہونا ہے ، میں فیصلہ کر چکا تھا اور پیچھے ہٹنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا ، میں نے پڑھائی بھی جاری رکھی اور جی بھر کر پیسا بھی کمایا ، میں ڈبل جاب کرتا تھا ، چھ سال تک میرا یہی معمول رہا ، ان چھ سالوں میں میں نے اپنی اوراپنے چھوٹے بہن بھائیوں کی شادیاں کی اور اپنا آبائی گھر مرمت کروایا۔

اب حالات کافی حد تک بدل گئے تھے، گھر میں خوشحال تھی ، پیسے کی فراوانی تھی اور سر پر کوئی بھاری ذمہ داری بھی نہیں تھی ۔ وقت اچھا گزر رہا تھا ، پھر مجھے گاوٴں چھوڑ کر شہر میں آنا پڑا ، شہر میں آکر سب سے اہم مسئلہ اپنا گھر اور بچوں کی تعلیم تھی ، اسلا م آباد جیسے شہر میں اپنا گھر بنانا کوئی آسان کام نہیں تھا ، میں نے فیصلہ کر لیا کہ مجھے یہاں اپنا گھر بنانا ہے ، ایک بار پھر میں ڈبل جاب کی طرف چلا گیا ، میں اٹھارہ اٹھارہ گھنٹے کام کرتا تھا لیکن اس کے باوجود دس سال بعد بھی میں اس قابل نہ ہو سکا کہ اپنے گھر کے لیے پلاٹ خرید سکوں ۔

میں نے سوچ لیا کہ اگر مجھے گھر بنانا ہے تو ایسے کام نہیں چلے گا ، اس کے بعد میں نے ہر وہ کام کیا جو نہیں کرنا چاہئے تھا، میں نے کرپشن بھی کی اور لوگوں کا ناجائز مال بھی کھایا ، غریبوں کی جمع پونجی بھی لوٹی اور دھوکے سے بھی مال کماتا رہا ، پانچ سال بعد میں نے اسلام آباد کے نسبتا غیر معروف علاقے میں گھر بنا لیا ، گھر بننے کے بعد میں سمجھتا تھا کہ شاید زندگی میں اب سکون آجائے گا ، میری لالچی حس کو قرار آجائے گااور اب میں ایک نارمل لائف کی طرف واپس آجاوٴں گا لیکن شاید میرا یہ خیال صرف خیال تھا اور کچھ دن بعد مجھ پر یہ حقیقت بھی واضح ہو گئی ۔


اب بچے بڑے ہو گئے تھے اور ان کی فیسوں کا مسئلہ تھا ، بڑی بیٹی یونیورسٹی میں پڑھتی تھی ، چھوٹے دو بیٹے پرائیویٹ اسکول میں پڑھتے تھے اب ان تینوں کی فیسوں کا معاملہ تھا ، میں ایک بار پھر ڈبل جاب کی طرف شفٹ ہو گیا ، میں پھر سے گدھا بن گیا اور گدھے کی طرح کام کرنے لگا ، میں رات جب کام سے آتا تھا بچے سو چکے ہوتے تھے اور صبح ان کے اٹھنے سے پہلے چلا جاتا تھا ، مجھے بچوں سے ملاقات کے لیے اتوار کا انتظار کرنا پڑتا تھا اور میں نے تین سال اسی طرح گزارے۔

بچوں نے محنت کی اور اچھے گریڈ میں پاس ہوئے تو اسکالرشپ کی وجہ سے فیسوں کا بوجھ کچھ کم ہوا ،میں نے سوچا ڈبل کی بجائے سنگل جاب کر لیتا ہوں لیکن شاید یہ خیال صرف خیال تھا ۔ بچے بڑے ہو گئے تھے اور اب سفر کے لیے گاڑی کی ضرورت تھی ، میں ایک بار پھر گدھا بن گیا۔ اور اس گدھے پن میں میں پھر سے سب کچھ بھول گیا ، بہن بھائی، دوست احباب،رشتہ دار، اللہ اوراس کے احکام ۔

اب مجھے گاڑی کے لیے دوڑنا تھا ، ویسے ہی جیسے میں ٹین ایج سے دوڑتا آ رہا تھا ، کولہو کے بیل کی طرح ۔ قصہ مختصر مجھے گاڑی بھی مل گئی ، میں سمجھتا تھا شاید گاڑی میری آخری وش ہو گی لیکن میرا یہ خیال صرف خیال تھا ۔ بچے بڑے ہو چکے تھے اور اب ان کی شادیوں کی فکر تھی اور شادی کے لیے سوسائٹی میں اپنا بھرم قائم رکھنا ضروری تھا ، میں پھر ایک بار گدھا بن گیا ۔

“ شیخ صاحب کی آواز میں درد تھا اور وہ مسلسل بولتے جا رہے تھے ، میں نے بات کاٹی اور عرض کیا ” لیکن اب توبچوں کی شادیاں ہو چکی ہیں اور آپ اکیلے اس محل نما گھر میں رہتے ہیں ، آپ کے پاس اچھی گاڑی ہے اور زندگی کی ہر سہولت موجود ہے تو اب آپ کیوں خوش نہیں “وہ بولے ”انسان تب تک خوش نہیں رہ سکتا جب تک وہ اپنے رب اور رب کی مخلوق کو خوش نہ رکھے ، میں نے ساری زندگی اس اصول کو نظر انداز کیا ، میں نے ساٹھ سالہ زندگی میں کبھی نماز اور روزہ نہیں رکھا، صاف لفظوں میں میں نے مذہب کو یکسر نظر انداز کیا اور آج جب میں بستر مرگ پر ہوں تو سوچتا ہوں میں آگے کیا لے کر جاوٴں گا، میری دوسری غلطی یہ تھی کہ میں نے اللہ کی مخلوق کو بہت دکھ پہنچائے ، میں نے غریبوں کا مال کھایا ، اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ آج حرام کی کمائی سے خریدی ہوئی گاڑی اور اس گھر میں سے میں کوئی بھی استعمال نہیں کر سکتا، میں مختلف بیماریوں میں مبتلا ہوں ، ڈاکٹروں کا کہنا ہے مجھے گاڑی کی بجائے پیدل چلنا چاہئے اور میں مہینے میں صرف پانچ دن اس گھر میں گزارتا ہوں میرے پچیس دن ہسپتال میں گزرتے ہیں ، یہ ہے میری کہانی اور اگر آپ تھوڑا سا سروے کرلیں تو آپ کو نظر آئے گا ہماری سوسائٹی میں اس طرح کی لاکھوں کہانیا ں بکھری پڑی ہیں “شیخ صاحب خاموش ہو گئے اور میں سوچ میں پڑ گیا کہ کیا میں خود اس کہانی کا کردار تو نہیں ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :