کیا وزیر اعلیٰ پنجاب کو احساس ہے ؟

پیر 30 اکتوبر 2017

Muhammad Irfan Nadeem

محمد عرفان ندیم

سکندر اعظم سے کسی نے پوچھا : ”تم اپنے باپ پر اپنے استاد کو کیوں ترجیح دیتے ہو؟ “ اس نے بڑی خود اعتمادی کے ساتھ بڑا خوبصورت جواب دیا۔ اس نے کہا: ”میرا باپ مجھے آسمان سے زمین پر لے کر آیا اور میرا استاد مجھے زمین سے آسمان پر لے گیا۔ میرے باپ نے میرے جسم کی پرورش کی اور میرے استاد نے میری روح کی پرورش کی۔ میرا باپ میری فانی زندگی کا باعث بنا جب کہ میرا استاد ارسطو میری جاودانی زندگی کا سبب بنا“۔

میں نے پچھلے ہفتے اپنے کالم میں پنجاب کے گورنمنٹ اسکولوں میں اساتذہ کے ساتھ ہونے والے ظلم اور ناانصافی کے بارے میں لکھا تھا، قارئین کے فیڈ بیک سے معلوم ہوا جو کچھ لکھا ہے وہ بہت کم ہے اصل صورتحال اس سے بھی ذیادہ تکلیف دہ ہے ۔ آپ صورتحال ملاحظہ کریں ، پنجاب گورنمنٹ نے پچھلے سات آٹھ سالوں میں تقریبا ڈیڑھ سے دو لاکھ نئے اساتذہ بھرتی کیئے ہیں ، یہ بھرتیاں اسکیل 9سے لے کر سترھویں اسکیل تک ہوئی ہیں، ان نئے بھرتی ہونے والے اساتذہ کی عمریں بیس سے تیس سال کے درمیان ہیں ، یہ یونیورسٹیوں کے گریجوایٹ، ماسٹر اور پی ایچ ڈی لو گ ہیں ، یہ محنتی لوگ ہیں اور یہ سسٹم کو چینچ کرنا چاہتے ہیں ، یہ اپنے ملک کو بھی آگے لے کر جانا چاہتے ہیں اور اپنا نظام تعلیم بھی بہتر بنانا چاہتے ہیں۔

(جاری ہے)

یہ نئے نئے یونیورسٹیوں کے فارغ التحصیل ہیں اوریہ یونیورسٹی سے ایک جذبہ اور مشن لے کر آتے ہیں ۔ ان کا اپنا ذہن بھی کلیئر ہے اور یہ نئی نسل کو بھی آگے لانا چاہتے ہیں ، یہ تعلیم اور تعلیم کے نئے تصورات کو بھی اچھی طرح جانتے ہیں، یہ طریقہ تدریس اور تدریس کی جدید تکنیکس سے بھی واقف ہیں ، یہ کمپیوٹر اور جدید ٹیکنالوجی پر بھی بھرپوردسترس رکھتے ہیں اور یہ لوگ یہی سپرٹ آگے نئی نسل میں بھی منتقل کرنا چاہتے ہیں لیکن ظلم یہ ہے کہ ڈیپارٹمنٹ انہیں کام نہیں کرنے دے رہا ۔

ان لوگوں نے اپنے ملک کو اپنی آنکھوں سے کرپشن کا چمپیئن بنتے دیکھا ہے ، یہ لوگ سیاست میں فوج کی مداخلت کے بھی چشم دید گواہ ہیں،یہ ملک کے پولیٹکل سسٹم سے بھی آ گا ہیں اور یہ جدید فلاحی ریاست کے تصور سے بھی آگا ہ ہیں لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ڈیپارٹمنٹ انہیں سمجھنے کے لیے تیار نہیں اور ڈیپارٹمنٹ آج بھی انہیں 1950کے تناظر میں دیکھ رہا ہے ۔ یہ نئے لوگ ہیں اور نئی سپرٹ کے ساتھ کام کرنا چاہتے ہیں لیکن ڈیپارٹمنٹ انہیں 1950کے قوانین کے تحت چلانا چاہتا ہے ۔

یہ لوگ جدید معاشروں اور جدید نظریات کے مطابق چلنا چاہتے ہیں ، یہ اپنے رائٹس مانگتے ہیں ، یہ کسی قسم کے دباوٴ کے بغیر آزادانہ کام کرنا چاہتے ہیں،یہ اپنی عزت نفس پر بھی کمپرومائز نہیں کرنا چاہتے ، یہ کسی قسم کے دباوٴ کو بھی برداشت نہیں کرتے اور یہ ہر وقت سر پر لٹکنے والی تلوار سے بھی بغاوت کرنا چاہتے ہیں لیکن ڈیپارٹمنٹ انہیں ان تمام مسائل میں جکڑنا چاہتا اور ساتھ ا ن سے اچھا رزلٹ بھی مانگتا ہے ، یہ دونوں چیزیں بیک وقت ممکن نہیں ۔

مثلا آپ دیکھیں ، انٹرنیشنل قوانین کے مطابق ہر ملازم کو مہینے میں دو c leave کی اجازت ہوتی ہے اور ان اساتذہ کے جاب لیٹر میں بھی مہینے میں دو چھٹیوں کی اجازت لکھی ہوئی ہے لیکن سکولز ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ اپنی ہی پالیسیوں کی مخالفت کر رہا ہے۔ ایک پرائمری یا مڈل اسکول کے استاد کو اگر چھٹی لینی پڑے تو ہیڈ ماسٹر کہتا ہے ڈپٹی سے رابطہ کریں ، ڈپٹی تحصیل لیول کا افسر ہوتا ہے اور پوری تحصیل کو ڈیل کرتا ہے ، ڈپٹی سے رابطہ کیا جائے تو کہا جاتا ہے مانیٹرنگ والا جب تک نہیں ہو جاتا تب تک چھٹی نہیں مل سکتی ، اگر بالفرض مانیٹرنگ والا ہو کر چلا بھی جائے تو ڈپٹی پوری تحصیل میں سے پانچ سات اساتذہ کو چھٹی دیتا ہے اور باقیوں کو یہ کہہ کر ٹرخا دیا جاتا ہے کہ پہلے ہی پانچ اساتذہ چھٹی پر ہیں ۔

گویا پانچ سات سو اساتذہ میں سے صرف چار پانچ کو چھٹی دی جاتی ہے اور باقیوں کو رد کر دیا جاتا ہے۔ اور اگر ہائی اسکول کے استاد کو چھٹی لینی پڑ جائے تو اسے ہیڈ ماسٹر کی منتیں کرنی پڑتی ہیں ، یہ ہیڈ ماسٹر عموما ساٹھ ستر سال کی عمر کے ہوتے ہیں ،یہ نئے لوگوں کو پسند نہیں کرتے کیونکہ نئے بھرتی ہونے والے اساتذہ اپنا رائٹ مانگتے ہیں ، اس سے بحث ہوتی ہے اور ہیڈ ماسٹر کو ایسے اساتذہ پسند نہیں ہوتے اور انہیں ہر جگہ تنگ اور نظر انداز کیا جاتا ہے۔


اسی طرح ایک مسئلہ بچوں کی انرولمنٹ کا ہے ، ڈیپارٹمنٹ کی طرف سے آرڈر ہوتا ہے کہ ذیادہ سے ذیادہ بچوں کو سکول میں داخل کیا جائے اور جو بچے اسکول آ رہے ہیں ان کی حاضری نوے فیصد سے کم نہ ہو ، اب ایک استاد جو اپنے کام سے کمٹڈ ہے اور محنت سے پڑھا رہا ہے اسے ہیڈ ماسٹر کی طرف سے آرڈر بک پر لکھ کر دیا جاتا ہے کہ آپ چاہے گھروں سے بچوں کو لے کر آئیں لیکن حاضری نوے فیصد سے کم نہ ہو۔

اگر آپ کی کلاس کے بچوں کی حاضری نوے فیصد سے کم ہے تو دفتر کے چکر لگانے کے لیے تیار ہو جائیں ۔ایک مسئلہ مار نہیں پیار کا ہے ، کلاس میں مختلف گھرانوں اور ماحول کے بچے ہوتے ہیں ، ان میں ذہین اور پڑھنے والے بھی ہوتے ہیں اور نالائق اور شرارتی بھی ، اب ایک استاد کو ان سب کو ساتھ لے کر چلنا پڑتاہے ، اگر آپ پوری کلاس کو پڑھا رہے ہیں اور ایک بچہ پوری کلاس کو تنگ کر رہا ہے تو آپ کیا کریں گے ؟ ظاہر ہے اسے سزا دینی پڑے گی لیکن ڈیپارٹمنٹ نہیں مانتا، اسی طرح ایک بچہ مسلسل چھٹیاں کر رہا ہے تو اسے بھی سزا نہیں دی جا سکتی ، ایک طرف ڈیپارٹمنٹ نوے فیصد حاضری مانگتا ہے اور دوسری طرف بچوں کو اسکول حاضر کرنے پر قدغنیں بھی لگاتا ہے۔

اب ہوتا کیا ہے ، اساتذہ بے بس ہو جاتے ہیں اور بچوں کوان کے حال پر چھوڑ دیا جاتا ہے۔ میں نے کئی اساتذہ کو یہ کہتے ہوئے سنا ہے کہ بچوں کو بھاڑ میں جانے دو کوئی نہیں پڑھتا تو نہ پڑھے اپنا آپ سیو کرو۔ حالانکہ ایک استاد کی یہ سپرٹ نہیں ہونی چاہئے ، اگر استاد یہ سوچنے پر مجبور ہے تو ڈیپارٹمنٹ کو اس نزاکت کا احساس کرنا چاہئے۔ میں نے بیسیوں مسائل میں سے چند ایک کی نشاندہی کی ہے ورنہ ڈیپارٹمنٹ نے اساتذہ کے ساتھ جو رویہ اپنا یا ہوا ہے وہ ہرگز قابل قبول نہیں ۔

اب اس کا نتیجہ کیا نکل رہا ہے ، یہ نئے بھرتی ہونے والے لوگ ڈیپارٹمنٹ کو چھوڑ کر جا رہے ہیں ، یہ پرائیویٹ نوکریوں کو ترجیح دے رہے ہیں یا یہ بیرون ملک منتقل ہو رہے ہیں ، یہ اسٹڈی کے لیے باہر جا تے ہیں اور مستقل وہیں سیٹ ہو جاتے ہیں ۔ہمارا سارا ٹیلنٹ باہر جا رہا ہے، میرے جو دوست اس ڈیپارٹمنٹ میں کام کر رہے ہیں اکثر مجھے فون کرتے ہیں کہ اگر کوئی پرائیوٹ نوکری ہو تو ہمیں بتاوٴ ہم یہ ڈیپارٹمنٹ چھوڑنا چاہتے ہیں۔

ان لوگوں کے آنے سے ڈیپارٹمنٹ میں جو بہتری آئی تھی وہ ختم ہوتی جا رہی ہے ۔ یہ نئے لوگ تھے، نیا خون تھا، کا م کرنے کا جذبہ تھا اور ملک کو آگے لے جانے کی تڑپ تھی لیکن ڈیپارٹمنٹ ایسا نہیں ہونے دے رہا ۔ کسی ملک کی تقدیر بدلنے کا واحد حل یہ ہوتا ہے کہ اس کی درسگاہوں کو آباد کیا جائے اور انقلاب کے لیے نئی نسل تیار کی جائے ،ا گر ان اساتذہ کے مسائل پر توجہ نہ دی گئی تو یہ درسگاہیں خالی ہو جائیں گی اور شہباز شریف کا پنجاب بیس تیس سال پیچھے چلا جائے گا۔ کیا وزیر اعلیٰ پنجاب کو اس بات کا احساس ہے ۔؟
(نوٹ ) میری اساتذہ سے درخواست ہے کہ وہ اپنے مسائل[email protected]پر میل کریں تاکہ انہیں ڈیپارٹمنٹ اور وزیر اعلیٰ پنجاب تک پہنچایا جا سکے ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :