
میں نے خدا کو کیسے پہچانا !۔ قسط نمبر1
منگل 7 نومبر 2017

محمد عرفان ندیم
(جاری ہے)
یہ بزرگ فلکیات کے ماہر تھے ، یہ ساری زندگی ستاروں، سیاروں ا ور کائنات کا مشاہدہ کرتے رہے اوراخیر عمر میں ان کا یہ مشاہدہ انہیں اس جنگل میں لے آیا ۔اب یہ اکیلے یہاں رہائش پزیر ہیں اور اللہ کی طاقت اور اس کی قدرت کے گن گاتے ہیں،یہ اس کی وسیع کائنات اور کائنات میں پھیلے رازوں پر غور و فکر کرتے ہیں اور یہ اسی حالت میں مرنا چاہتے ہیں ۔ یہ نوے کے پیٹے میں ہیں اور شاید اب یہ ذیادہ دیر زندہ نہیں رہیں گے ۔مجھے کچھ عرصہ پہلے ان کے بارے میں معلوم ہوا او رآج میں ان کے سامنے بیٹھا ان کے مشاہدات جاننا چاہتا تھا ، میں نے پہلا سوال کیا ” آپ کی ساری زندگی فلکیات اور کائنات کا مشاہدہ کرتے ہوئے گزری ، آپ کی ریسرچ اور تحقیقات دنیا بھر کی یونیورسٹیوں میں پڑھائی جاتی ہیں اور آپ خود دنیا کی مشہور یونیورسٹیوں میں لیکچر دیتے رہے ہیں لیکن اخیر عمر میں یہ آپ نے کیا کیا ، آپ کو چاہئے تھا کہ کسی یونیورسٹی میں شعبہ فلکیات کے ڈائیریکٹر ہوتے یا خود کسی یونیورسٹی کی بنیاد رکھتے “ انہوں نے میری بات غور سے سنی اور زیرلب مسکرا کر بولے ” آپ کا سوال بجا ہے لیکن میرا مشاہدہ مجھے جس جگہ پر لے آیا ہے میں یہاں مطمئن ہوں،میں یہاں اپنے رب کی عبادت کرتا ہوں ، ا س کی طاقت اور قدرت پر اس کا شکریہ ادا کرتا ہوں اور کی بے پایا ں کائنات کے بارے میں سوچ کر حیران و پریشان ہو تا ہوں اور اس سے اپنی آخرت اور قیامت کے دن کے بارے میں خیر طلب کرتا ہوں۔ “ میں نے عرض کیا ”کائنات کا مطالعہ اور مشاہدہ آپ کو اس سنسان جنگل میں لے آیا یا اس کی وجہ کچھ اور ہے “وہ بولے ” اس کی وجہ میرا مشاہدہ تھا ، میں نے ساری زندگی فلکیات اور کائنات کا مشاہد ہ کیا ، جیسے جیسے میرا مشاہدہ وسیع ہوتا گیا خدا ، آخرت اور قیامت پر میرا یقین پختہ ہوتا چلا گیا اور اب مجھے خدا، قیامت اور آخرت کے بارے میں کسی قسم کا کو ئی شک شبہ نہیں رہا اس لیے میں نہیں چاہتا کہ اپنی زندگی کو مزید غفلت کی حالت میں گزار وں چنانچہ میں اس جنگل کی طرف نکل آیا “میں نے مزید وضاحت چاہی تو وہ دوبارہ گویا ہوئے ” کائنات اور فلکیات کے مطالعے سے مجھے معلوم ہوا کہ اس کائنات میں ہماری زمین کی حیثیت ریت کے ایک زرے کے برابر بھی نہیں ، مجھے معلوم ہوا کہ دنیا کے تمام سمندروں کے کنارے جتنے ریت کے ذرات ہیں اس سے کہیں زیادہ تعداد میں آسمان میں ستارے موجود ہیں ، ان ستاروں کا حجم ہماری سوچ سے بھی ماورا ہے ، کچھ ستارے ایسے ہیں جو ہماری زمین کے برابر ہیں ، کچھ ایسے ہیں جن میں ہماری زمین جیسی ہزاروں زمینیں سما جائیں اور کچھ اس قدر بڑے ہیں کہ ان میں ہماری زمین جیسی لاکھوں اور کچھ اتنے بڑے ہیں کہ ان میں اربوں کھربوں زمینیں سما سکتی ہیں ۔ اس کائنات کی وسعت کا عالم یہ ہے کہ اگرا یک ہوائی جہاز جس کی رفتار ایک لاکھ چھیاسی ہزار میل فی سیکنڈ ہو اورو ہ کائنات کے گرد چکر لگانے کے لیے نکلے تو اسے کائنات کے گرد ایک چکر مکمل کرنے میں تقریبا ایک ارب سال لگیں گے ، اسی پر بس نہیں بلکہ یہ کائنات مسلسل پھیل رہی ہے اوراس کے پھیلنے کی رفتار اتنی تیز ہے کہ ہر ایک سو تیس کروڑ سال کے بعد اس کے تمام فاصلے دگنے ہو جاتے ہیں ۔ اس کائنات میں ستاروں کے بے شمار جھرمٹ ہیں اور ہر جھرمٹ ایک کہکشاں کہلاتا ہے ، یہ سب ستارے مسلسل حرکت میں ہیں ، ہمارے سیارے کی قریب ترین حرکت جس سے ہم واقف ہیں وہ چاند کی حرکت ہے ، چاند زمین سے دولاکھ چالیس ہزار میل دور رہ کر مسلسل اس کے گرد گھوم رہا ہے ،چاند ہماری زمین کے گرد گھوم رہا ہے اور ہماری زمین سورج کے گرد گھوم رہی ہے ، ہماری زمین سورج سے ساڑھے نو کروڑ میل دور ہے ، یہ اپنے محور پر ایک ہزار میل فی گھنٹہ کی رفتار سے گھوم رہی ہے اور یہ سورج کے گرد انیس کروڑ میل کا دائرہ بناتی ہے جو ایک سال میں پورا ہوتا ہے ۔ زمین کے علاوہ آٹھ سیارے اور ہیں جو سورج کے گرد مسلسل گھوم رہے ہیں ، ان سیاروں میں بعید ترین سیارہ پلوٹو ہے جو سورج کے گرد ساڑھے سات ارب میل کے دائرے میں چکر لگا رہا ہے ۔ ان تمام سیاروں کا مرکز سورج ہے اور سورج بذات خود اپنے سے ایک بڑے نظام کا حصہ ہے اور اپنے ستاروں اور سیاروں سمیت ایک عظیم کہکشاں کے اندر چھ لاکھ میل فی گھنٹہ کے حساب سے دوڑ رہاہے ۔ سورج کی طرح کے اور ہزاروں متحرک نظام ہیں جن سے مل کر ایک کہکشاں وجود میں آتی ہے ، کائنات میں اربوں کھربوں کہکشائیں ہیں اور یہ اپنے سے بڑے نظام کا حصہ ہیں اور مسلسل اس نظام کے گرد گھوم رہی ہیں ۔ ایک اندازے کے مطابق کائنات پانچ سو ملین کہکشاوٴں پر مشتمل ہے اور ہر کہکشا ں میں ایک لاکھ ملین ستارے ہیں ہمارے نزدیک ترین کہکشاں جس کا ہم حصہ ہیں اس کا رقبہ ایک لاکھ نوری سال ہے ۔ یہ ساری حرکت حیرت انگیز طور پر باقاعدہ منظم اور ایک ضابطے کے تحت ہو رہی ہے کہ نہ اس کا کسی سے ٹکراوٴ ہوتا ہے اور نہ ہی رفتار میں ایک سیکنڈ کا فرق آتا ہے ۔ “ وہ سانس لینے کے لیے رکے اور دبارہ گویا ہوئے ۔(باقی آئندہ)
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
محمد عرفان ندیم کے کالمز
-
ہم سب ذمہ دار ہیں !
منگل 15 فروری 2022
-
بیسویں صدی کی سو عظیم شخصیات !
منگل 8 فروری 2022
-
میٹا ورس: ایک نئے عہد کی شروعات
پیر 31 جنوری 2022
-
اکیس اور بائیس !
منگل 4 جنوری 2022
-
یہ سب پاگل ہیں !
منگل 28 دسمبر 2021
-
یہ کیا ہے؟
منگل 21 دسمبر 2021
-
انسانی عقل و شعور
منگل 16 نومبر 2021
-
غیر مسلموں سے سماجی تعلقات !
منگل 26 اکتوبر 2021
محمد عرفان ندیم کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.