میں نے خدا کو کیسے پہچانا !۔ قسط نمبر1

منگل 7 نومبر 2017

Muhammad Irfan Nadeem

محمد عرفان ندیم

وہ بڑی سرد اور خوفناک رات تھی ، ہر طرف سموگ تھا ،سموگ کی لہریں سمندر کی جھاگ کی طرح آتی تھیں اور میرے جسم سے ٹکرا کر ہڈیوں میں جذب ہو جاتی تھیں۔درجہ حرارت منفی ڈگری تک چلا گیا تھا، برفباری کا آغاز ہو چکا تھا اور ہر شئے نے برف کی سفید چادر اوڑھ لی تھی ۔خوفناک جنگل تھا ، سناٹا تھا اور اس سناٹے میں آگے بڑھتا ہوا ایک کمزور اور ڈرپوک انسان تھا۔

میرے چاروں طرف اندھیرا تھا ، جنگل کی خوفناک آوازیں تھیں ، سامنے لمبے لمبے سائے تھے اور اس سائے میں کھڑا کوئی خو فناک بھوت میری بیوقوفی پر ہنس رہا تھا ۔ راستے میں بندروں کے غول آتے میری ڈرپوک حرکتوں کی نقل اتارتے اور تالیاں بجاتے ہوئے جنگل میں گم ہو جاتے ۔ جنگل میں انتہا کی سردی تھی لیکن اس سردی کے باوجود میرے ہونٹ خشک تھے اور میرے جسم پر پسینے کے قطرے خاموش ندی کی طرح بہہ رہے تھے ۔

(جاری ہے)

میں قدم اٹھاتاتھا تو میرے پاوٴں کی سرسراہٹ مجھے بجلی کی کڑک سے ذیادہ خوفناک لگتی تھی۔ میں نے ابھی آدھا راستہ طے کیا تھا ،اچانک جنگل کے ایک کونے سے گہرے سیاہ بادل اٹھے اور آسمان پر چھا گئے ، تیز بارش شروع ہوئی اور میرا خوف بڑھتا چلا گیا ۔ آج زندگی میں پہلی بار جنگل کی بارش سے مجھے خوف آنے لگا تھا ۔ میرے لیئے واپسی کی کوئی صورت ممکن نہیں تھی اس لیئے میرے پاس آگے بڑھنے اور جنگل میں گم ہو جانے کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا ۔

میں نے بمشکل دس منٹ کا فاصلہ طے کیا تھا اچانک دائیں جانب مجھے ایک جھونپڑی دکھائی دی ، جھونپڑی دیکھتے ہی میری سانسیں بحال ہونا شروع ہو گئیں ۔ میں رفتہ رفتہ آگے بڑھا اور دروازے تک پہنچ گیا ، دروازے پردستک دی لیکن میری دستک کی آواز آندھی اور بارش کے شور میں گم ہو گئی۔ پانچویں دستک کے بعد دروازہ کھلا ،سامنے ایک ضعیف العمر اورسفید ریش بزرگ کھڑے تھے ،میں نے سینے پر ہاتھ رکھ کر سر جھکایااور سلام عرض کیا ، انہوں نے دروزہ کھول دیا ، شاید میں ٹھیک جگہ پر پہنچ گیا تھا اورمجھے اسی جھونپڑی کی تلاش تھی ۔


یہ بزرگ فلکیات کے ماہر تھے ، یہ ساری زندگی ستاروں، سیاروں ا ور کائنات کا مشاہدہ کرتے رہے اوراخیر عمر میں ان کا یہ مشاہدہ انہیں اس جنگل میں لے آیا ۔اب یہ اکیلے یہاں رہائش پزیر ہیں اور اللہ کی طاقت اور اس کی قدرت کے گن گاتے ہیں،یہ اس کی وسیع کائنات اور کائنات میں پھیلے رازوں پر غور و فکر کرتے ہیں اور یہ اسی حالت میں مرنا چاہتے ہیں ۔

یہ نوے کے پیٹے میں ہیں اور شاید اب یہ ذیادہ دیر زندہ نہیں رہیں گے ۔مجھے کچھ عرصہ پہلے ان کے بارے میں معلوم ہوا او رآج میں ان کے سامنے بیٹھا ان کے مشاہدات جاننا چاہتا تھا ، میں نے پہلا سوال کیا ” آپ کی ساری زندگی فلکیات اور کائنات کا مشاہدہ کرتے ہوئے گزری ، آپ کی ریسرچ اور تحقیقات دنیا بھر کی یونیورسٹیوں میں پڑھائی جاتی ہیں اور آپ خود دنیا کی مشہور یونیورسٹیوں میں لیکچر دیتے رہے ہیں لیکن اخیر عمر میں یہ آپ نے کیا کیا ، آپ کو چاہئے تھا کہ کسی یونیورسٹی میں شعبہ فلکیات کے ڈائیریکٹر ہوتے یا خود کسی یونیورسٹی کی بنیاد رکھتے “ انہوں نے میری بات غور سے سنی اور زیرلب مسکرا کر بولے ” آپ کا سوال بجا ہے لیکن میرا مشاہدہ مجھے جس جگہ پر لے آیا ہے میں یہاں مطمئن ہوں،میں یہاں اپنے رب کی عبادت کرتا ہوں ، ا س کی طاقت اور قدرت پر اس کا شکریہ ادا کرتا ہوں اور کی بے پایا ں کائنات کے بارے میں سوچ کر حیران و پریشان ہو تا ہوں اور اس سے اپنی آخرت اور قیامت کے دن کے بارے میں خیر طلب کرتا ہوں۔

“ میں نے عرض کیا ”کائنات کا مطالعہ اور مشاہدہ آپ کو اس سنسان جنگل میں لے آیا یا اس کی وجہ کچھ اور ہے “وہ بولے ” اس کی وجہ میرا مشاہدہ تھا ، میں نے ساری زندگی فلکیات اور کائنات کا مشاہد ہ کیا ، جیسے جیسے میرا مشاہدہ وسیع ہوتا گیا خدا ، آخرت اور قیامت پر میرا یقین پختہ ہوتا چلا گیا اور اب مجھے خدا، قیامت اور آخرت کے بارے میں کسی قسم کا کو ئی شک شبہ نہیں رہا اس لیے میں نہیں چاہتا کہ اپنی زندگی کو مزید غفلت کی حالت میں گزار وں چنانچہ میں اس جنگل کی طرف نکل آیا “میں نے مزید وضاحت چاہی تو وہ دوبارہ گویا ہوئے ” کائنات اور فلکیات کے مطالعے سے مجھے معلوم ہوا کہ اس کائنات میں ہماری زمین کی حیثیت ریت کے ایک زرے کے برابر بھی نہیں ، مجھے معلوم ہوا کہ دنیا کے تمام سمندروں کے کنارے جتنے ریت کے ذرات ہیں اس سے کہیں زیادہ تعداد میں آسمان میں ستارے موجود ہیں ، ان ستاروں کا حجم ہماری سوچ سے بھی ماورا ہے ، کچھ ستارے ایسے ہیں جو ہماری زمین کے برابر ہیں ، کچھ ایسے ہیں جن میں ہماری زمین جیسی ہزاروں زمینیں سما جائیں اور کچھ اس قدر بڑے ہیں کہ ان میں ہماری زمین جیسی لاکھوں اور کچھ اتنے بڑے ہیں کہ ان میں اربوں کھربوں زمینیں سما سکتی ہیں ۔

اس کائنات کی وسعت کا عالم یہ ہے کہ اگرا یک ہوائی جہاز جس کی رفتار ایک لاکھ چھیاسی ہزار میل فی سیکنڈ ہو اورو ہ کائنات کے گرد چکر لگانے کے لیے نکلے تو اسے کائنات کے گرد ایک چکر مکمل کرنے میں تقریبا ایک ارب سال لگیں گے ، اسی پر بس نہیں بلکہ یہ کائنات مسلسل پھیل رہی ہے اوراس کے پھیلنے کی رفتار اتنی تیز ہے کہ ہر ایک سو تیس کروڑ سال کے بعد اس کے تمام فاصلے دگنے ہو جاتے ہیں ۔

اس کائنات میں ستاروں کے بے شمار جھرمٹ ہیں اور ہر جھرمٹ ایک کہکشاں کہلاتا ہے ، یہ سب ستارے مسلسل حرکت میں ہیں ، ہمارے سیارے کی قریب ترین حرکت جس سے ہم واقف ہیں وہ چاند کی حرکت ہے ، چاند زمین سے دولاکھ چالیس ہزار میل دور رہ کر مسلسل اس کے گرد گھوم رہا ہے ،چاند ہماری زمین کے گرد گھوم رہا ہے اور ہماری زمین سورج کے گرد گھوم رہی ہے ، ہماری زمین سورج سے ساڑھے نو کروڑ میل دور ہے ، یہ اپنے محور پر ایک ہزار میل فی گھنٹہ کی رفتار سے گھوم رہی ہے اور یہ سورج کے گرد انیس کروڑ میل کا دائرہ بناتی ہے جو ایک سال میں پورا ہوتا ہے ۔

زمین کے علاوہ آٹھ سیارے اور ہیں جو سورج کے گرد مسلسل گھوم رہے ہیں ، ان سیاروں میں بعید ترین سیارہ پلوٹو ہے جو سورج کے گرد ساڑھے سات ارب میل کے دائرے میں چکر لگا رہا ہے ۔ ان تمام سیاروں کا مرکز سورج ہے اور سورج بذات خود اپنے سے ایک بڑے نظام کا حصہ ہے اور اپنے ستاروں اور سیاروں سمیت ایک عظیم کہکشاں کے اندر چھ لاکھ میل فی گھنٹہ کے حساب سے دوڑ رہاہے ۔

سورج کی طرح کے اور ہزاروں متحرک نظام ہیں جن سے مل کر ایک کہکشاں وجود میں آتی ہے ، کائنات میں اربوں کھربوں کہکشائیں ہیں اور یہ اپنے سے بڑے نظام کا حصہ ہیں اور مسلسل اس نظام کے گرد گھوم رہی ہیں ۔ ایک اندازے کے مطابق کائنات پانچ سو ملین کہکشاوٴں پر مشتمل ہے اور ہر کہکشا ں میں ایک لاکھ ملین ستارے ہیں ہمارے نزدیک ترین کہکشاں جس کا ہم حصہ ہیں اس کا رقبہ ایک لاکھ نوری سال ہے ۔ یہ ساری حرکت حیرت انگیز طور پر باقاعدہ منظم اور ایک ضابطے کے تحت ہو رہی ہے کہ نہ اس کا کسی سے ٹکراوٴ ہوتا ہے اور نہ ہی رفتار میں ایک سیکنڈ کا فرق آتا ہے ۔ “ وہ سانس لینے کے لیے رکے اور دبارہ گویا ہوئے ۔(باقی آئندہ)

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :