واہ کیا بات ہے !

منگل 19 دسمبر 2017

Muhammad Irfan Nadeem

محمد عرفان ندیم

یہ 1969کی بات ہے ،دنیا بھر کے یہودی راہنماء اسرائیل میں اکھٹے ہوئے اورانہوں نے اعلان کیا پوری دینا کے یہودی چندہ جمع کر یں گے اور اس چندے سے فلسطینی شہر یروشلم میں ایک بہت بڑا سنیگاگ تعمیر کیا جائے گا ۔ دنیا بھر کے یہودیوں نے اس مہم میں حصہ لیا اور تقریبا ایک بلین ڈالر رقم جمع ہو گئی ، یہودی راہنماء یہ ساری رقم لے کر چیف ربی کی خدمت میں حاضر ہوئے لیکن چیف نے سینگاگ کی تعمیر کی تجویز مسترد کر دی ، اس نے کہا ہم کون ہوتے ہیں خدا کا گھر بنانے والے ، اس کی بندگی تو ہر جگہ کی جا سکتی ہے ، خدا کو جاننے کے لیے علم ضروری ہے جاوٴ اس رقم سے ایک تعلیمی ٹرسٹ بناوٴ تا کہ دنیا میں کوئی یہودی بے علم نہ رہے ، چناچہ اس رقم سے یہودیوں نے دنیا کا سب سے بڑا تعلیمی ٹرسٹ بنایا جس سے ہزاروں یہودی ڈاکٹر ، انجینئر اور سائنسدان پیدا ہوئے۔

(جاری ہے)

آج بھی اسرائیل میں مشہور ہے کہ خدا کے بعد سب سے بڑا درجہ تعلیم کا ہے ۔ بات آگے بڑھانے سے پہلے آپ عرب اسرائیل تنازع کے پس منظر پر ایک نظر ڈال لیں ۔عرب اور اسرائیل کے درمیان اب تک چار بڑی جنگیں ہو چکی ہیں ،پہلی جنگ 1948 میں ہوئی، اسرائیلی یہودیوں نے فلسطین پر قابض ہوتے ہی علاقے میں بڑے پیمانے پر ظلم و ستم شروع کر دیا، بڑی تعداد میں فلسطینی مسلمان شہید ہوئے ، اکثریت نے ہجرت کر لی اور بہت سوں کو اپنا آبائی وطن چھوڑنا پڑا۔

اس جنگ سے متاثر ہونے والے فلسطینیوں کی تعداد تقریبا دس لاکھ تھی۔ عرب پوری طرح مسلح یہودی دستوں کا مقابلہ نہ کرسکے اور 15 مئی 1948ء تک اندرون فلسطین عربوں کی مزاحمت ختم ہوگئی۔ 14 اور 15 مئی کی درمیانی شب 12 بجے یہودیوں نے تل ابیب میں ریاست اسرائیل کے قیام کا اعلان کردیا۔ عرب اور اسرائیل کے درمیان دوسرا ٹکراوٴ 1956میں ہوا، مصر کی خوشحالی کا تمام تر انحصار دریائے نیل پر تھا،نیل کی پانی سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانے کے لئے مصری حکومت نے اسوان کے مقام پر پرانے بند کی جگہ ایک نیا بند تعمیر کرنے کا منصوبہ تیارکر لیا ،مصرکے روس اور اشتراکی ممالک کی طرف مائل ہونے کی وجہ سے امریکہ اور برطانیہ نے قرضہ دینے سے انکار کر دیا، مصر میں امریکہ اور برطانیہ کے فیصلے کے خلاف شدید ردعمل ہوا، صدر ناصر نے فرانس اور برطانیہ کی زیر ملکیت نہر سوئز کو قومی ملکیت میں لے لیا اور اعلان کیا کہ اسوان بند نہر سوئز کی آمدنی سے تعمیر کیا جائے گا۔

برطانیہ اور فرانس نے مصر کے اس فیصلے کے خلاف اسرائیل کے ساتھ مل کر سازش تیار کی جس کے تحت 29 اکتوبر 1956ء کو اسرائیل کے ذریعے مصر پر حملہ کردیا، اسرائیل نے جزیرہ نمائے سینا پر قبضہ کرلیا۔ کچھ ہی دن بعدبرطانیہ اور فرانس نے بھی نہر سوئز کے علاقے میں اپنی فوجیں اتار دیں۔ برطانیہ اور فرانس کی اس جارحانہ کارورائی کا دنیا بھر میں شدید رد عمل ہوا، امریکہ نے بھی پرزور مذمت کی اور روس نے مصر کو کھل کر امداد دینے کا اعلان کردیا۔

عالمی دباوٴ کے تحت برطانیہ اور فرانس کو اپنی فوجیں واپس بلانا پڑیں اور اسرائیل نے بھی جزیرہ نمائے سینا خالی کردیا۔
عرب اور اسرائیل کے درمیان تیسرا ٹکراوٴ 1967ء میں ہوا ،جمال عبد الناصرکا خیال تھا کہ مصر دنیائے عرب کا سب سے طاقتور ملک ہے، اس زعم کے تحت اس نے ہزاروں فوجی یمن بھیج دیے اور دوسری طرف اسرائیل کو دھمکیاں دینا شروع کر دیں۔

اسرائیل پہلے سے جنگ کے لئے تیار تھا اور اس کو امریکہ کی مکمل سرپرستی حاصل تھی، اس نے مصر کی کمزوری کا اندازہ کرکے جون 1967ء کے پہلے ہفتے میں بغیر کسی اعلان جنگ کے اچانک مصر پر حملہ کردیا،اچانک حملے سے مصر کا بیشتر فضائی بیڑاپہلے ہی حملے میں تباہ ہو گیا۔ فوج کا بڑا حصہ یمن میں تھا جسے بروقت بلانا نا ممکن تھا نتیجہ یہ ہوا کہ 6 دن کی مختصر مدت میں اسرائیل نے نہ صرف فلسطین سے مصر اوراردن کو نکال باہر کیا بلکہ شام میں جولان کے پہاڑی علاقے اور مصر کے پورے جزیرہ نمائے سینا پر بھی قبضہ کرلیا،مغربی بیت المقدس پر بھی اسرائیلی فوج کا قبضہ ہوگیا۔

ہزاروں مصری فوجی قیدی بنالئے گئے اور روسی اسلحہ اور ٹینک یا تو جنگ میں برباد ہوا یا اسرائیلیوں کے قبضے میں چلا گیا۔اس جنگ میں عرب فوج کے 21 ہزار فوجی ہلاک اور 45 ہزار زحمی ہوئے جبکہ 6 ہزار قیدی بنالئے گئے۔تقریبا 400 سے زائد طیارے تباہ ہوئے۔جبکہ اس کے مقابلے میں اسرائیل کے صرف 779 فوجی مارے گئے، 2563 زخمی اور صرف15 قیدی بنائے گئے۔اس جنگ میں شکست کے نتیجے میں غزہ اور جزیرہ نمائے سینا کا 24 ہزار مربع میل کا علاقہ اسرائیل کے قبضے میں آگیا، نہر سوئز بند ہوگئی اور مصر جزیرہ نمائے سینا کے تیل کے چشموں سے محروم ہوگیا۔

صدر ناصر نے شکست کی ذمہ داری تسلیم کرتے ہوئے فورا استعفی دے دیا ، بعد ازاں مصری عوام کے پرزور مطالبے پر اسے اپنا استعفیٰ واپس لینا پڑا۔ چوتھی جنگ 1973میں ہوئی جسے جنگ یوم کپوریا جنگ رمضان کہا جاتا ہے، یہ جنگ6 اکتوبر سے 26 اکتوبر 1973ء کے درمیان مصر و شام کے عرب اتحاد اور اسرائیل کے درمیان لڑی گئی۔اس جنگ کا آغاز یہودیوں کے تہوار یوم کپور کے موقع پر ہوا جب مصر اور شام نے اچانک جزیرہ نما سینا اور جولان کی پہاڑیوں پر حملہ کردیا۔

جزیرہ نما سینا پر اسرائیل نے 1967ء کی جنگ کے دوران قبضہ کرلیا تھا۔اس جنگ میں مجموعی طور پر عربوں کا پلہ بھاری رہا اور اس طرح انہوں نے 27 سالہ کشمکش کے دوران پہلی مرتبہ اسرائیل کے مقابلے میں جزوی کامیابی حاصل کی۔کہا جاتا ہے کہ جنگ یوم کپور میں اگر امریکہ پس پردہ اسرائیل کی بھر پور امداد نہ کرتا تو فلسطین کامسئلہ حل ہو چکا ہوتا۔ امریکہ بظاہراس جنگ میں حصہ نہیں لے رہا تھا مگر اس کا طیارہ بردار بحری جہاز جزیرہ نما سینا کے شمال میں بحیرہ روم میں ہر طرح سے لیس کھڑا تھا اس کے راڈاروں اور ہوائی جہازوں نے اسرائیل کے دفاع کے علاوہ مصر میں پورٹ سعید کے پاس ہزاروں اسرائیلی کمانڈو اتارنے میں بھی رہنمائی اور مدد کی تھی۔

اب ایک بار پھر عرب اسرائیل آمنے سامنے ہیں لیکن اس بار یہ جنگ صرف دو ملکوں کی جنگ نہیں بلکہ یہ تیسری عالمی جنگ ہو گی جس میں ایک طرف امریکہ اسرائیل اور اس کے اتحادی ہوں گے اور دوسری طرف عرب اور مسلم ممالک کا اتحاد ہو گا ، ممکن ہے کہ یہ جنگ فی الفور نہ ہو اور اس میں چند سال یہ چند دہائیاں لگ جائیں لیکن یہ ہو گی ضرور، میرا ضطراب یہ ہے کہ حریف تو سائنس ، ٹیکنالوجی اور علم کے میدا ن میں ترقی کر کے جنگ کی تیاری کا سامان کر رہا ہے اور ہم سعودی عرب میں نئے سینما کھول رہے ہیں ،قطر میں فیفا ورلڈ کپ کی تیاری کر رہے ہیں ، دبئی میں سیاحت کے نام پر بے حسی کو فروغ دے رہے ہیں اور ہم پاکستانی لاہور کراچی اور اسلام آباد میں توڑ پھوڑ اور احتجاج کر کے امریکہ اور اسرائیل کو جواب دے رہے ہیں ،سائنس، علم اور ٹیکنالوجی کی ہمیں کوئی ضرورت نہیں ، ہماری مدد کو فرشتے اتریں گے اور وہ امریکہ اور اسرائیل کو تباہ و برباد کر دیں ۔

ہم احتجاج کے ایکسپرٹ ہیں اور کسی بھی ایشو پر احتجاج کر کے جھاگ کی طرح بیٹھ جاتے ہیں اور سمجھتے ہیں یہ مسئلہ خودبخود حل ہو جائے گا ، ہم کبھی علم ، سائنس اور ٹیکنالوجی کی طرف نہیں جائیں گے ، ہمارے ننانوے فیصد احتجاجیوں کو اصل مسئلے کا علم ہی نہیں ہو تا لیکن ہم پھر بھی سمجھتے ہیں کہ اس احتجاج سے ہم دنیا فتح کر لیں گے اور ڈونلڈ ٹرمپ اپنا بیان واپس لے لے گا۔واہ کیا بات ہے ہماری ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :