
دینی مدارس کا المیہ !
اتوار 23 ستمبر 2018

محمد عرفان ندیم
یہ لاوا کیوں ابل رہا ہے اور سونامی کی لہریں کیوں بلند ہو رہی ہیں اس کی بہت ساری وجوہات ہیں، مدارس کا نصاب و نظام ،طریقہ تدریس، اسناد کا مسئلہ، عصری تعلیم کا معاملہ،امتحانات کا نظام، مہتممین کا رویہ، بعد از فراغت روزگار کے مسائل اور سماج میں اپنی معتبر شناخت کا حصول ۔
(جاری ہے)
اصل مسائل کی طرف آنے سے قبل چند تمہیدی باتیں سمجھ لی جائیں ۔ مدارس اہل پاکستان کے لیے اللہ کی بہت بڑی نعمت ہیں اور ان کی بدولت آج بھی سماج کا رشتہ اللہ اور رسول سے جڑا ہوا ہے ،لیکن مسئلہ یہ ہے کہ آج یہ مدارس اپنی اتھارٹی ، اہمیت اور حیثیت کو برقرا نہیں رکھ پائے۔ اس کی وجوہات کچھ بھی ہوں لیکن نتیجہ ایک ہی ہے کہ ایک عالم جسے سوسائٹی میں لیڈرشپ کا کردار ادا کرنا تھا وہ سوسائٹی میں اپنی ذات کی شناخت تک نہیں کروا سکا۔ وہ بذات خود شناخت کے بحران کا شکار ہے۔ مدارس کے علاوہ جو دینی قوتیں مصروف کار ہیں وہ بھی زمانے کے تقاضوں کا کما حقہ ادارک نہ ہونے کی وجہ سے بظاہر ناکام دکھائی دے رہی ہیں۔ یوں کہہ لیں کہ ہماری پوری روایتی مذہبی فکر، مجموعی طور پر تنزلی کا شکار ہے اوراس سے بڑا المیہ یہ ہے کہ اس فکر کے حاملین کو اس کا احساس تک نہیں۔ اگر کہیں احساس ہے بھی تو وہ کوئی کردار ادا کرنے کو تیار نہیں ۔
دوسری طرف یہ بھی حقیقت ہے کہ ہمارے عصری تعلیمی ادارے بھی وہ رجال کا ر پیدا نہیں کر پا رہے جو دین و مذہب اور ملک و ملت کے خیر خواہ اور اپنی ذمہ داریوں سے آگاہ ہوں۔اس سے بڑی پریشانی یہ ہے کہ ان اداروں کا جو ماحول ہے اس سے کوئی بہت ذیادہ امید بھی نہیں کی جاسکتی۔ایسی صورت میں لامحالہ نظریں مدارس کی طرف اٹھتی ہیں کہ اہل مدارس ہی ہماری تراث کے وارث اور آئندہ اس کے احیاء کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ ملک کا دانشور اور اہل علم طبقہ متعدد مواقع پر ا ہل مدارس کی اس صلاحیت کا اعتراف کر چکاہے۔
اس ساری صورتحال کے پیش نظر گزشتہ پندرہ بیس سالوں سے ،مدارس سے فیض یافتہ کچھ ایسے لوگ سامنے آئے جنہوں نے اپنی ذاتی محنت، لگن ،شوق، حالات کے ا دارک اور مستقبل بینی کے تحت اپنی شناخت خود پیدا کرنے کی کوشش کی۔ انہوں نے قدیم و جدید پر عبور حاصل کیا، وقت کے تقاضوں اور حالات کو سمجھا اورجدید فقہی،ریاستی اورآئینی مسائل پر عبورحاصل کر کے انہیں رسپانڈ کرنے کی کوشش کی۔ لیکن ان کا مسئلہ یہ ہے کہ ان میں سے بہت سارے اپنی بنیاد سے ہٹ گئے ، اکابرین اور بڑوں پر عدم اعتماد کا اظہار کر دیا اور اصلاح کی بجائے بذات خود مدارس کو تنقید و تحقیر کا نشانہ بنانا شروع کر دیا ۔ایسا رویہ اپنانے والوں پر گزشتہ دو کالموں میں تفصیلی تبصرہ کر چکا ہوں۔قدیم و جدید پر عبور اور اپنی محنت سے شناخت پیدا کرنے والوں میں سے، سو میں سے دو چارایسے ہوں گے جنہوں نے بڑوں اور اکابرین پر اعتماد قائم رکھا اور اپنی حد تک بہتری اور اصلاح کی کوشش جا ری رکھی ۔ یہی وہ لوگ ہیں جو قابل قدر ہیں اور جن سے مدارس اور ہماری روایت کو فائدہ پہنچ سکتا ہے ۔ اس پر تفصیلی بات اگلے کالم میں کریں گے ۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
محمد عرفان ندیم کے کالمز
-
ہم سب ذمہ دار ہیں !
منگل 15 فروری 2022
-
بیسویں صدی کی سو عظیم شخصیات !
منگل 8 فروری 2022
-
میٹا ورس: ایک نئے عہد کی شروعات
پیر 31 جنوری 2022
-
اکیس اور بائیس !
منگل 4 جنوری 2022
-
یہ سب پاگل ہیں !
منگل 28 دسمبر 2021
-
یہ کیا ہے؟
منگل 21 دسمبر 2021
-
انسانی عقل و شعور
منگل 16 نومبر 2021
-
غیر مسلموں سے سماجی تعلقات !
منگل 26 اکتوبر 2021
محمد عرفان ندیم کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.