ایسا اس لیے ہے !

جمعہ 29 مارچ 2019

Muhammad Irfan Nadeem

محمد عرفان ندیم

ایک اہم سوال انٹرٹینمنٹ کے حوالے سے ہے کہ ہمارے ہاں انٹرٹینمنٹ کا مروجہ تصور کہاں سے آیا ، ہمارے ہاں جو فلمیں اور ڈرامے بن رہے ہیں ان کے اسکرپٹس کون لکھ رہا ہے اور لکھنے والے کس سے انسپائر ہیں، پروڈیوسرز اور ڈائریکٹرز کی فکری غذا کا منبع اور ماخذ کیا ہے۔ان فلموں اور ڈراموں میں پیش کیے جانے والے کردار ، ایکٹر اور ایکٹرس کا لباس اور ان میں دکھائے جانے والے کلچر کی بنیاد کیا ہے۔

ڈائریکٹرز اور پروڈیوسر زجو مناظر اور تہذیب و ثقافت دکھاتے ہیں ان کی یہ ذہنیت کہاں سے پروان چڑھتی ہے اور ان کے آئیڈیاز کا ماخذ کیا ہوتاہے ۔ وہ کیا سوچ کر یہ فیصلہ کرتے ہیں کہ ہمیں نوجوان نسل کو کیا دکھانااور کیا نشر کرنا ہے۔ ہمارے سکول ، کالجز اور یونیورسٹیوں میں رائج نصاب تعلیم کی بنیاد کیا ہے، ہمارے ہاں پڑھائے جانے والی سوشل سائنسز اور نیچرل سائنسز کے بنیادی تصورات کہاں سے ماخوذ ہیں ،یہ نصاب مرتب کرنے والے کس علمیت سے متاثر اور کس سوچ اور فکر کے خوشہ چین ہیں۔

(جاری ہے)

نوجوان نسل میں سکول ، کالج اور یونیورسٹی میں پڑھنے کے بعد وہ خصوصیات کیوں پیدا نہیں ہو رہی جو ایک مسلمان میں ہونی چاہیے تھی ۔ نئی نسل میں اخلاقیات کا وہ تصور کیوں پروان نہیں چڑھ رہا جو دین محمدی کی پہچان ہے ۔ سوسائٹی اور سماج میں امت مسلمہ کا وہ تصور کیوں ڈویلپ نہیں ہو پا رہا جو اسلامی تہذیب کا خاصہ تھا ، کرائسٹ چرچ یا دنیا کے کسی بھی خطے میں مسلمانوں پر ہونے والے ظلم پر ہمارے سماج میں وہ احساس و اضطراب اور درد کی وہ کیفیت کیوں پیدا نہیں ہوتی جو ترکی میں بیٹھا ایک عام ترک اور طیب اروان محسوس کرتا ہے۔

جب امت کی بات کی جائے تو ہماری نئی نسل کے لیے یہ تصور اجنبی اور بیگانہ کیوں ہوتا ہے۔ہمارے ہاں مروج فنون لطیفہ کی بنیاد کیا ہے اور ہم فنون لطیفہ میں کس کی پیروی کررہے ہیں۔ہمارے ہاں شادی بیاہ کی مروجہ رسمیں کہاں سے آئی ہیں، شادی پر ناچ گانے اور مہندی کا تصور کہاں سے آیا۔ ہمارا تصور عبادت کیوں بدل چکا ہے، ہمارے ہاں عباد ت کا وہ تصور کیوں پروان نہیں چڑھ سکاجوایک مسلمان کی شان تھا ،ہم ترکوں کی طرح تصور عبادت کیوں ڈویلپ نہیں کر سکے کہ جب اذان ہوتی ہے وہ جہاں ہوں جیسے ہوں مسجد کی طرف چل دیتے ہیں اور دوران سفر قرآن کی تلاوت کرتے ہیں۔

ہم نے اپنی زندگیوں سے تعلق مع اللہ کو کیوں نکال دیا ، ہمارے اقوال و افعال میں قرون وسطیٰ اور ایک سچے مسلمان کا ظہور کیوں نہیں ہورہا ، ہم نے اپنی زندگیوں کو تعلق مع اللہ کے رشتے سے کیوںآ ذاد کر دیا۔ ہم نے معاشیات ، سیاسیات ، معاملات اور اخلاقیات میں سے دین کا تصور کیوں نکال دیا اور اس کے نتائج کیا نکل رہے ہیں۔
اب ہم آتے ہیں جوابات کی طرف ،جوابات کو سمجھنے کے لیے آپ کو انیسویں صدی میں جانا پڑے گا ، برصغیر میں جدید مسلم ذہن کی تشکیل میں انیسویں صدی کا کردار بڑا اہم رہا ہے ، انیسویں صدی میں مسلمانوں نے اپنی بقا ء کے لیے دوراستوں کا انتخاب کیا ، ایک راستہ مذہبی ذہن نے چنا اور دوسرے راستے کے امام سر سید احمد خان ٹھہرے ۔

ہم اس وقت مذہبی ذہن کو ڈسکس نہیں کریں گے ،جدید تعلیم اور سوشل سائنسز کے میدان میں سر سید احمد خان نے مغرب کو معیار بنا کر ہمارے لیے جس راستے کا انتخاب کیا تھا بدقسمتی سے ہم آج تک اسی راستے پر چلے آ رہے ہیں ۔ سر سید احمد خان نے مغرب کو معیار بنانے کی جو پالیسی اپنائی وہ ان کی وقتی مجبوری ہو سکتی تھی لیکن ہم نے اس پالیسی کو ایسے گلے لگایا کہ آج تک اس سے جان نہیں چھڑاسکے ۔

کسی بھی سماج کی ذہنی تشکیل میں سوشل سائنسز کا کردار بڑا اہم ہوتا ہے اور ہم انیسویں صدی سے سوشل سائنسز کے میدان میں مغرب کو معیار بنا کر مسلم سماج کی ذہنی تشکیل مغرب کے ہاتھ میں دے چکے ہیں ۔ مغرب میں سوشل سائنسز کا اارتقاء کیسے ہوا اس کے لیے آپ سولہویں اور سترویں صدی کے یورپ کا مطالعہ کر لیں ، سولہویں صدی میں جب مذہب پوپ اور کلیسا کے ہاتھوں یرغمال ہوئی تو مذہب کے خلاف تحریک کا آغاز ہوا ، لوگوں نے مذہب سے بیزاری کا اظہار کیا ، بڑے بڑے فلسفی اور مفکر پیدا ہوئے جنہوں نے مذہب کے خلاف زور و شور سے دلائل دیئے ، سوشل سائنسز کے وہ سوالات جن کے جوابات پہلے مذہب دیتا تھا اب عقل اور سائنس کو بنیاد بنا کر دیے جانے لگے۔

فر د ، علم ، کائنات اور خدا کے بارے میں تمام جوابات سیکولر ہونے لگے اور رفتہ رفتہ پوری سوشل سائنسز کو سیکرلر زم کا لبادہ دہ پہنا دیا گیا ۔ پندرویں صدی کے یورپ میں جہاں سوشل سائنسز عیسائیت کی تابع تھی سترویں صدی کے آغاز تک مکمل طور پر سیکولرائز ہو چکی تھیں ۔ انیسویں اور بیسویں صدی میں جب انہی سوشل سائنسز کو معیار بنا کربرصغیر میں جدید مسلم ذہن کی تشکیل کی گئی تو وہ تمام مفاسد پیدا ہوئے جن کا آج ہم مشاہدہ کر رہے ہیں ۔

آج ہم زندگی کے ہر میدان میں شعوری یا غیر شعوری پر مغرب کو اپنے لیے معیار بنا چکے ہیں ، ہم کسی دینی فریضے کی تکمیل میں بھی لگے ہوں تو ارادی یا غیر ارادی طور پر مغرب کی نقالی کر رہے ہوتے ہیں ۔ ہم سیاسی ، سماجی ، معاشی اور نفسیاتی میدان میں مغرب کے چنگل میں بری طرح پھنس چکے ہیں اور مغرب کا نفسیاتی غلبہ اس قدر شدید ہے کہ ہمیں احساس تک نہیں کہ ہم کس مصیبت میں پھنس چکے ہیں ۔

جب تک ہم مغرب کے اس نفسیاتی غلبے کے حصار کو نہیں توڑیں گے ہماری بقاء اور ارتقاء ممکن نہیں ہو گا ۔ محترم احمد جاوید صاحب لکھتے ہیں ” آج علم کا کوئی بھی شعبہ ہو یعنی علم بعنوان سائنس، طبیعات ، سماجیات، سائنسی علوم ہوں یا سماجی علوم ان میں سے ہر قسم کو مغرب نے دین کے لئے اجنبی بنانے میں کامیابی حاصل کر لی ہے۔ آج دنیا کو چلانے والا، انسانی ذہن کی تربیت کرنے والا، انسان کے عملی مقاصد کو پورا کرنے والا کوئی علم ایسا نہیں ہے جو مذہبی ذہن اور دینی شعور کو اپنے اندر داخل ہونے کا راستہ فراہم کرتا ہو۔

یعنی آج ہر علم بلااستثناء دینی شعور کے مسلمات و معتقدات سے یا تو براہ راست اپنی قوت انکار کے ساتھ متصادم ہے یا اس سے ایک تحقیر کے ساتھ لاتعلق ہے۔آج کے علوم سے بننے والا ذہن گویا یا تو مذہب کے انکار پر اپنی تمام دستیاب استعداد ِتیقن سے کھڑا ہوا ہے یا پھر یہ کہ مذہب کو وہ ویسی ہی حقارت سے اور لاتعلقی کی نظر کئے ہوئے ہے جس طرح ہم دلدل سے لاتعلق ہو جاتے ہیں، جس طرح ہم کیچڑ سے لاتعلق ہو جاتے ہیں۔

تو یہ دو طرح کے مزاج جدید علمی ماحول نے پوری طرح اپنے سے تربیت پانے والے اذہان میں inject کر دیے ہیں۔ یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ کوئی بھی مغربی علم، اس علم کے اوریجنل اور فیکچوئل مقدمات اور مقاصد کے ساتھ اس علم کی منطق کی مطابقت کرتے ہوئے حاصل کیا جائے اور اس علم کے حصول کے نتیجے میںآ پ اپنے دینی شعور کی پرداخت یا نمو کا کوئی ذریعہ حاصل کر سکیں۔

اس وقت سر دست ساری دنیا میں کوئی علم ایسا نہیں ہے جو دینی شعور کے اعتقادات کے لیے معاون نظامِ استدلال فراہم کر سکتا ہو اورجو دینی اخلاق کی تربیت کا ذریعہ بن سکتا ہو۔ اس انکار اور تحکم کی شدت بہت بڑھی ہوئی ہے اور تمام علوم کیونکہ اس انکار کو مدلل بنانے کے لیے تیار بیٹھے ہوئے ہیں تو اس انکار کے لیے جس طرح کے کلینیکل یا ایمپیریکل شواہد چاہیے ہیں وہ شواہد بھی دوسرے علوم اسے مہیا کر رہے ہیں۔“باقی تفصیل اگلے کالم میں ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :