خوارج کون تھے!

جمعرات 26 ستمبر 2019

Muhammad Irfan Nadeem

محمد عرفان ندیم

اسلام کے ابتدائی ادوارمیں مسلمانوں کو داخلی سطح پر جن چیلنجز کا سامنا کرنا پڑا ان میں سب سے بڑا چیلنج خوارج کی صورت میں سامنے آیا۔ اگرچہ اسلامی تاریخ کے مختلف ا دوار میں امت کو اس طرح کے چیلنجز کا سامنا رہاہے لیکن جس شدت کے ساتھ یہ فتنہ اپنے ابتدائی دور میں اٹھا اور اس کے نتیجے میں ہزاروں صحابہ اور تابعین شہید ہوئے بعد کی امت اس سے محفوظ رہی۔

تحریک خوارج کو سمجھنے سے پہلے پہلی صدی ہجری کے سیاسی منظرنامے سے آگاہی لازم ہے۔ پہلی صدی ہجری کے ربع اول میں مسلمانوں میں سیاسی فرقہ بندی کے آثار نمایاں ہونا شروع ہو چکے تھے ، شہادت عثمان رضی اللہ عنہ وہ واقعہ ہے جس نے امت کو مختلف حصوں میں تقسیم کر دیا تھا ، حضرت عثمان کی شہادت بذات خود ایک معما ہے کہ مدینہ میں کبار صحابہ کی موجودگی ، ایک فوجی مرکز اور دارالخلافہ ہونے کے باوجود مٹھی بھر باغیوں نے کیسے اس ظلم کا ارتکاب کیا۔

(جاری ہے)

شہادت عثمان اور خلافت علی کے بعد یہ امت بظاہر چار گروہوں میں تقسیم ہوچکی تھی ، حضرت علی اور ان کے حامی جن کا مرکز کوفہ تھا، حضرت طلحہ و زبیر اور حضرت عائشہ جن کا مرکز بصرہ تھا، حضرت امیر معاویہ اور ان کے حامی جن کا مرکز شام تھااور غیر جانبدار حضرات جن کا مرکز مدینہ تھا۔ان گروہوں میں سے پہلی جنگ، جنگ جمل کے نام پر پہلے اور دوسرے گروپ کے درمیان ہوئی جس میں حضر ت علی کو کامیابی ملی، دوسری جنگ، جنگ صفین کے نام سے پہلے اور تیسرے گروپ کے درمیان ہوئی جس میں ہزاروں صحابہ اور تابعین شہید ہوئے ۔

اسی جنگ کے درمیان تحکیم کا واقعہ پیش آیا جہاں سے خوارج کا ظہور ہوا ۔ اس جنگ کے بعد حضرت امیر معاویہ شام واپس چلے گئے اور حضرت علی نے خوارج سے نمٹنے کا فیصلہ کر لیا ، حضرت علی اور خوارج کے درمیان جنگ نہروان ہوئی جس میں خوارج کی اصل قوت توڑ دی گئی مگر یہ چھوٹی چھوٹی ٹولیوں میں مختلف علاقوں میں بکھر گئے۔ جنگ نہروان کا بدلہ لینے کے لینے تین کوفی خارجیوں نے فیصلہ کیا کہ ان تینوںآ دمیوں یعنی حضرت علی ، حضرت امیر معاویہ اور عمر و ابن العاص کو ختم کیا جائے۔

انہوں نے مکہ میں منصوبہ بنایا ، ایک ہی دن روانہ ہوئے، تینوں نے ایک ہی دن صبح فجرکے وقت حملہ کیا ، حضرت علی کو شہید کر دیا گیا ، حضرت امیر معاویہ زخمی ہوئے اور حضرت عمرو ابن العاص پیٹ درد کی وجہ سے مسجد نہ آنے کی وجہ سے بچ گئے۔ یہ دور خوارج کا نکتہ عروج تھا۔
اب یہاں یہ سوال ابھر کر سامنے آتاہے کہ خوارج کون تھے ، ان کے اصلیت کیا تھے، ان کے عزائم کیا تھے اور انہیں کس کی پشت پناہی حاصل تھی۔

تاریخی طور پر اس سوال کے مختلف جوابات دیے گئے ہیں مگر ایک جواب ایسا ہے جس پر تمام مورخین متفق ہیں ، وہ یہ ہے کہ خوارج وہ بدو (دیہاتی ) تھے جوعراق اور فارس کے ا طراف کے علاقوں سے تعلق رکھتے تھے۔دائرہ اسلام میں داخل ہونے کے باجود ان کی قبائلی عصبیت نے دم نہیں توڑا تھا۔ رسول اللہ کے دور میں بھی بعض مواقع پر قبائلی عصبیتوں نے فتنہ کھڑا کرنا چاہا مگر رسول اللہ کی موجودگی کی وجہ سے امت اس فتنے سے محفوظ رہی مگر بعد میں قبائلی عصبیت کا یہ بت دن بدن پروان چڑھتا رہا۔

یہ خوارج اپنی قبائلی جبلت کے اعتبارسے اجتماعی زندگی کو ناپسند کرتے تھے ا ور اپنی انفرادی شناخت پر مصر رہتے تھے۔ ان دیہاتیوں نے نبی اکرم کے آخری سالوں یا پہلے دو خلفاء کے دور میں اسلام قبول کیا تھا ، یہ حضرت عمر کے دور میں فارس کی جنگوں میں شریک ہوئے جہاں سے انہیں بہت سارا مال غنیمت حاصل ہوا اور انہیں مالی آسودگی اور فار غ البالی نصیب ہوئی۔

یہ اپنے دیہاتی مزاج کی وجہ سے حکومتی پابندیوں کو بھی ناپسند کرتے تھے ، چھوٹی چھوٹی باتوں پر اپنے والی اور گورنر سے ناراض ہو جاتے اور خلیفہ کو شکایتیں بھجوادیتے تھے۔ اپنی ابتدائی شکل میں یہ حضرت عثمان کے قاتلین کی شکل میں ظہور پزیر ہوئے ، بعد میں جنگ جمل اور صفین کی صورت میں ان کی مزید صورت گری ہوئی اور جنگ نہروان کے بعد یہ چھوٹی چھوٹی ٹولیوں میں بٹ کر اکثر علاقوں میں پھیل گئے۔


قرآن نے بھی عربی بدووٴں(دیہاتیوں ) کے بارے میں سخت الفاظ استعمال کیے ہیں ،مثلا سورہ توبہ میں ان کے بارے میں کہا گیا کہ یہ کفر و نفاق میں سخت اور دین کی حدود سے ناواقف ہیں۔ نیز کہا کہ خدا کی راہ میں خرچ کرنے کو مصیبت سمجھنے والے اور منافق ہیں۔ سورہ حجرات میں کہا ان کے دلوں میں ابھی ایمان داخل نہیں ہوا ، وغیرہ۔یہ خوارج مختلف قبیلوں سے تعلق رکھتے تھے جن میں یمنی اور مضری قبائل سر فہرست تھے ، لیکن ایک بہت بڑی تعداد بنو تمیم سے بھی تعلق رکھتی تھی۔

خوارج کی مذکورہ حرکتوں کے ساتھ ایک اور فیکٹر بھی بڑا اہم تھا جس نے خوارج کو ہر طرح کی کمک پہنچائی ، یہ یہودی فیکٹر تھا ، یہودی قوم شروع دن سے ہی بڑی شاطر اور چالباز رہی ہے ، ایک طرف خوارج اپنے بدوی مزاج کی وجہ سے اس طرح کی حرکتوں پر اترآئے تھے او ر دوسری طرف عبدا للہ ابن سبا یہودی خوارج کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کر رہا تھا۔ بعینہ جیسے عصر حاضر کے خوارج مسلم دشمن طاقتوں سے ہر طرح کی مدد حاصل کرتے ہیں۔

خوارج کے عقائد بھی ، ان کے اعمال کی طرح شدت پسندانہ تھے ، ہر چیز میں غلو کرتے ، قبائل عصبیت کا شکاراور دین کی روح سے غافل تھے۔ کبھی حضرت علی کو خدا بنا دیتے تو کبھی انہیں تحکیم پر راضی ہونے کی وجہ سے کافر قرار دے دیتے۔ ہر معصیت کا راور گناہگا ر کو کافر سمجھتے۔ نصوص کی بجائے اپنی عقل پر بھروسہ کرتے۔ ان کی شدت پسندی اور انتشاری سوچ کا نتیجہ تھا کہ وہ خود بھی کسی ایک مسلک یا نکتے پر متفق نہیں تھے بلکہ ان میں بھی ، عقائد و اعمال کی بناپر کئی فرقے اور گروہ وجود میں آ چکے تھے۔


خوارج نے ایک طرف داخلی طورپر مسلمانوں کو کمزور کیا اور دوسری طرف غیر مسلموں کے ہاتھ مضبوط کیے۔خوارج ہی کے ہاتھوں خلافت راشدہ کا خاتمہ ہوا ، سانحہ کربلا میں بھی ان کا ہاتھ موجود تھا۔ خارجی تحریک ہی کی وجہ سے اموی خلافت کا خاتمہ ہوا ، یہ خوارج کی بغاوتیں ہی تھیں جنہوں نے بنو امیہ کو داخلی سطح پر کھوکھلا کر دیا تھا اور بنو عباس کے لیے فضا سازگا ر ہوگئی تھی۔

اہل خوارج نے نہ صرف سیاسی طورپر مسلمانوں کو کمزور کیا بلکہ دینی معاملات میں بھی انتشار فکری کا سبب بنے۔ انہوں نے حدیث اور اجماع کے بارے میں امت کو گمراہ کیا ، عقل کا بے محابا استعمال انہیں سے شروع ہوا ، قرآن فہمی کے لیے عقل کو معیار کل بنا دیا اور یہ شکلیںآ گے چل کر معتزلہ کی صورت میں ظہور پزیر ہوئیں۔ شیعہ ، خوارج اور معتزلہ ایک ہی سکے کے مختلف رخ تھے۔

خوارج کے مذکورہ عقائد و اعمال کے تناظر میں دیکھا جا سکتا ہے کہ ماضی کی طرح موجودہ عصر میں بھی یہ لوگ موجود ہیں۔ یہ دین میں غلوکرنے اور نصوص کی اپنی مرضی اور مفادات کی تشریح پر مصر ہیں۔ان میں قبائلی مزاج بھی پایا جاتا ہے اوریہ بہت جلد مرنے مارنے پر بھی تل جاتے ہیں۔ان کے تعلقات اندرون خانہ مسلم دشمنوں سے بھی ہوتے ہیں اور یہ بوقت ضرورت اور بقدر ضرورت ان سے مالی و عسکری امداد بھی وصول کرتے ہیں۔ لازم ہے کہ اپنے عہد کے خوارج کو پہچانا جائے اور ان کے شر و فساد سے بچنے کی تدبیر کی جائے ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :