بیماری کے بعد !

پیر 9 دسمبر 2019

Muhammad Irfan Nadeem

محمد عرفان ندیم

حضرت ایوب بڑے امیر اور صاحب ثروت پیغمبر تھے ، یہ حضرت ابراہیم  کی نسل سے تھے اور چوتھی پیڑی میں ان کا سلسلہ نسب حضرت اسحاق سے جا ملتا ہے ۔ان کا زمانہ ایک ہزار قبل مسیح یا پندرہ سو قبل مسیح کا ہے ، انہیں نبوت ملی تو اپنے اہل وعیال کے ساتھ کوہ سرات کی طرف چلے گئے، اللہ نے انہیں قوم حوران کی طرف مبعوث فرمایا ، یہ قوم ملک شام میں آباد تھی ۔

آپ نے تبلیغ شروع کی تو لوگوں نے بہانے تراشنے شروع کر دیے،شیطان نے قوم کو ورغلانا شروع کر دیا، اس نے لوگوں کے دلوں میں وسوسہ ڈالاایوب کو تو اتنی نعمتیں ملی ہیں اسے اللہ کا شکر گزار ہونا ہی تھا ، اس لیے وہ نیکی کی باتیں کرتا ہے ، اس میں ایوب کا کیا کمال ہے ، اصل بات تو تب ہے کہ ایوب پر مصیبت آئے اس کا مال و دولت اور آل اولاد چھن جائے اور وہ پھر بھی نیکی کی باتیں کرے ۔

(جاری ہے)

اللہ نے قوم پر حجت قائم کرنے کے لیے حضرت ایوب کو آزمانے کا فیصلہ کر لیا ۔ اللہ نے ان کو بہت ذیادہ اولاد اور مال و دولت سے نوازا تھا ، ان کے سات بیٹے اور تین بیٹیاں تھیں ، سات ہزار بھیڑیں تین ہزار اونٹ پانچ سو جوڑے بیل اور پانچ سو گدھے تھے ۔ نوکروں کی پوری ایک جماعت تھی ، زرعی زمینوں کی بہتات اور تجارت کا سلسلہ دور دراز تک پھیلا ہوا تھا ،خود بھی وجیہ شکل اور تنو مند تھے اور پورے مشرق میں ان جیسا کوئی مالدار شخص نہیں تھا ۔

قوم کی ہٹ دھرمی اور ان پر حجت قائم کرنے کے لیے اللہ نے حضرت ایو ب کو آزمانے کا فیصلہ کر لیا ، چناچہ مصائب و آلام کا سلسلہ شروع ہوا ۔ پہلے سارے جانور اور مال مویشی تلف ہوئے ، پھر ایک ایک کرکے ساری اولاد وفات پا گئی ، زرعی زمینیں بیکار اور تجارت ختم ہو گئی اور سارے رشتہ دار ساتھ چھوڑ گئے ۔آخر میں خود پر آزمائش شروع ہوئی اور خطرناک مرض کا شکار ہو گئے ۔

تیرہ برس تک اس مرض میں مبتلا رہے ، سوائے وفا شعار بیوی کے سب رشتے ناطے ساتھ چھوڑ گئے ، 4700دن رات اسی مرض میں گزارے لیکن ایک لمحے کے لیے بھی شکوہ زبان پر نہیں آیا ۔ شیطان اپنی تدبیر میں ناکام ہوا تو ایک حکیم کی شکل میں ان کی بیوی کے پاس آیا اور کہا ” کیا تم نہیں چاہتی کہ تمہارا خاوند صحت یاب ہو جائے ، میں اسے شفا دے سکتا ہوں اگر کوئی پوچھے تو کہنا حکیم نے شفا دی ہے “ بیوی نے حضرت ایوب کو واقعہ سنایا تووہ پریشان ہو گئے کہ شیطان ان کے گھرتک کیسے پہنچ گیا ، انہوں نے بیوی کو ڈانٹا اور قسم کھائی کہ جب میں صحت یاب ہو جاوٴں گا تو تمہیں سو کوڑے ماروں گا ۔

ساتھ ہی اللہ سے دعا کی ” اے اللہ شیطان مجھے دکھ اور اذیت پہنچا گیا ہے “ اللہ نے دعا قبول فرمائی اور انہیں حکم دیا اپنا پاوٴں زمین پر مارو ، حضرت ایوب نے پاوٴں زمین پر مارا تو ایک چشمہ جاری ہو گیا ، انہوں نے غسل کیا تو ظاہری بیماریاں ختم ہو گئیں ، دوبارہ پاوٴں مارا دوسرا چشمہ ابل پڑا انہوں نے اس کا پانی پیا تو جسم کی اند ر ونی بیماریاں بھی ختم ہو گئیں اور آپ مکمل صحت یاب ہو گئے ۔

بیوی نے دیکھا تو پہچان نہ سکیں ، بعد میں سجدہ شکر بجا لائیں ، اللہ نے بیوی کی وفاداری اور صبر کے بدلے انہیں پہلے سے ذیادہ جوانی عطا فرمائی ۔حضرت ایوب نے بیوی کو سوکوڑے مارنے کی جو قسم کھائی تھی اللہ نے اسے آسان کر دیا ، قسم پوری کرنے کی یہ ترکیب بتائی کہ کجھور کا خوشہ لو جس میں سو شاخیں ہوں اور تمام کو اکٹھا مارو یہ سو کوڑوں کا بدل ہو جائے گا ۔

اس طرح حضرت ایوب کی قسم پوری ہو گئی ، اللہ نے اس بیوی سے چھبیس لڑکے عطا کیے ، اس کے بعد حضرت ایوب ایک سو چالیس سال تک زندہ رہے اور اپنی اولاد کی چار پشتوں کو دیکھا ۔
بیماری اللہ کی طرف سے آزمائش ہے ، اللہ اپنے محبوب بندوں کو ہر طرح سے آزماتا اور اپنے قریب کرتا ہے ،بیماری جاندار ہونے کی علامت ہے کیونکہ بے جان چیزیں بیمار نہیں ہوتی۔

اس لیے بیماری پر نہ جزع فزع کرنی چاہئے نہ دل میں بے صبری اور نفرت کے جذبات پیدا ہوں۔ جس طرح صحت اللہ کی ایک نعمت ہے اس طرح بیماری میں بھی اللہ نے مومن کے لیے بہت سی حکمتیں چھپا رکھی ہیں ، حدیث میں آتا ہے مومن کو ایک کانٹا بھی چبھے تو اللہ اس پر بھی اجر دیتا ہے ۔یہ دنیا آزمائش کا گھر ہے،یہاں صحت اور بیماری ،پریشانی اور خوشحالی ساتھ ساتھ چلتے ہیں ، اللہ کے نبی نے مومن کو لہلہاتی ہوئی کھیتی کی مانند قرار دیا ہے جسے کسی بھی طرف سے آنے والی ہوا جھکا دیتی ہے ، جب کھیتی دوبارہ سیدھی ہوتی ہے تو اسے کسی دوسری مصیبت کا سامنا کرنا پڑ جاتا ہے ، اس کے برعکس فاجر آدمی کی مثال صنوبر کے درخت کی طرح ہے جو ہوا کے جھونکوں سے سرنگوں نہیں ہوتا اور اللہ جب چاہے اسے اکھاڑ پھینکتا ہے ۔

ایک اور جگہ فرمایاکسی مسلمان کو کوئی مرض یا تکلیف پہنچے تو اس کے سبب اللہ تعالیٰ اس کے گناہ یوں گرادیتا ہے جیسے درخت کے پتے گرتے ہیں۔ایک اور موقعہ پر بہت خوبصورت بات ارشاد فرمائی ، فرمایا اللہ تعالیٰ کے ہاں کسی بندے کے لیے ایک بلند مرتبہ مقدر ہوتا ہے مگر وہ بندہ کوئی عمل کرکے اس مرتبہ کوحاصل نہیں کرپاتا تو اللہ تعالیٰ اسے اس کی مرضی وپسندکے خلاف اس حد تک آزماتارہتاہے کہ اس کے بدلے وہ بندہ اس مرتبہ کا مستحق ہوجاتا ہے۔

قیامت کے دن جب دنیا میں آزمائشوں،تکالیف ومصائب میں مبتلا رہنے والوں کو بے حد وحساب اجر سے نوازا جائے گا تودنیا میں خوشحالی اور صحت وتندرستی کی زندگی گزارنے والے خواہش کریں گے کہ کاش دنیا میں ہماری جلد اور جسم کو قینچیوں سے کاٹا جاتا اور ہم بھی آج یہ عظیم ثواب حاصل کرسکتے۔
میں پچھلے تین چار ہفتے بیماری کی آزمائش میں رہا ، ان تین چار ہفتوں میں لکھنے پڑھنے کی ہمت نہیں کر سکا ،کالم میں بھی تعطل رہا اور دیگر تعلیمی مصروفیات بھی تر ک کرنی پڑیں لیکن میں اللہ کا شکر گزار ہوں اور پر امید ہوں کہ اس بیماری کے سبب اللہ میرے گناہ معاف فرمادیں گے۔

میں گزشتہ سات آٹھ سال سے مسلسل ایک ہی روٹین پر کا م کر رہا تھا ، میں سمجھتا تھا شاید یہ روٹین میرے لازم ہو چکی ہے اور میں اس سے ہٹ کر نہیں چل سکوں گا ، اس روٹین کو فالو کرنے کی وجہ سے خوشی و غمی کے بہت سارے لمحات اور رشتوں ناطوں کو بھی نظر انداز کیا مگر میری بیماری اور آزمائش نے ثابت کر دیا ایسا کچھ نہیں ہوتا ۔ دنیا میں کوئی چیز اور کوئی روٹین حتمی اور ناگزیر نہیں ہوتی ،اس دنیا میں ہزاروں لاکھوں لوگ آئے جو خود کو ناگزیر سمجھنے کے خبط میں مبتلا رہے مگر جب وہ گئے توآسمان نے آنسو بہائے نہ زمین والوں کو ان کے جانے کا احساس ہوا۔

ہم سب اللہ کے کرم اور اس کی مہربانی کے محتاج ہیں ، وہ جب چاہئے اور جسے چاہے آزمائش میں مبتلا کر دے اس لیے ہمیں ہر لمحے کسی بھی طرح کی آزمائش کے لیے تیار رہنا چاہیے۔اس بیماری اور آزمائش سے مجھے یہ بھی اندازہ ہوا کہ کھانے پینے اور غذا کی ذرا سے بے احتیاطی انسان کو مہینوں لاچار کر سکتی ہے ، وہ ہزاروں لاکھوں روپے جو بعد میں علاج پر لگائے جاتے ہیں اگر پہلے اپنی صحت پر لگائے جائیں تواس زحمت سے بچا جا سکتا ہے ۔

اس بیماری اور آزمائش سے اللہ کا یہ کرم بھی ہوا کہ میں اپنی سات آٹھ سالہ روٹین پر از سر نو غور کرنے پر مجبور ہو گیاہوں ،مجھے اپنی ترجیحات دوبارہ مرتب کرنے کا موقعہ مل گیا ہے ،مجھے اہم اور غیر اہم میں فرق کرنے کا بھی اندازہ ہو گیا اور مجھے یہ بھی پتا چل گیا کہ میں جن چیزوں اور روٹین کو حتمی سمجھتا تھا وہ اتنی ناگزیر نہیں تھی ۔ بلاشبہ یہ بیماری میرے حق میں اللہ کی نعمت تھی اس لیے جو مسلمان اس آزمائش سے گزر رہے ہیں وہ اللہ سے پر امید رہیں کہ نہ جانے اللہ نے ان کے لیے اس بیماری میں کتنا اجر اور کیا کیا حکمتیں چھپا رکھی ہیں ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :