سکون صرف قبر میں ہے !

پیر 13 جنوری 2020

Muhammad Irfan Nadeem

محمد عرفان ندیم

ہزاروں سال قبل نیپال کے جنوب میں کپل وستونامی ایک شہر آباد تھا ،یہ ایک چھوٹی سی پہاڑی ریاست کا دارالحکومت تھا ، اس کے شمال میں ہمالیہ کی فلک بوس چوٹیاں تھیں او رجنوب میں چھوٹی سی ندی بہتی تھی ۔ کپل وستو میں شاکیہ نامی قوم آباد تھی۔یہ لوگ زراعت سے وابستہ تھے اورمال مویشی پال کر گزربسر کرتے تھے۔ چھ سو قبل مسیح میں شاکیہ خاندان میں شدھودن نامی راجہ حکومت کرتا تھا ۔

شدھودن فرض شناس اور با اصول حکمران تھا۔اس کے ہاں اولاد نہیں تھی ، سنیاسیوں اور حکیموں کے علاج سے اس کے ہاں ایک بیٹا پیدا ہوا ، راجہ نے اس کا نام سدھارتھ رکھا ، بیٹا جوان ہوا تو باپ نے امور سلطنت سکھانے شروع کر دئے۔ راجہ کی خواہش تھی کہ اس کے بعد اس کا اکلوتا بیٹا ریاست کا حکمران بنے مگر سدھارتھ کو امور سلطنت سے کوئی دلچسپی نہیں تھی۔

(جاری ہے)

ایک روزسدھارتھ شاہی سواری میں بیٹھ کر شہر کے مشرقی دروازے سے نکل کر باغ میں واقع آرام گھر کی طرف جا رہا تھا۔شام کا وقت تھا ، خدمت گار اور ہم رکاب ساتھ تھے،راستے میں سدھارتھ نے ایک لاچار اور عمر رسیدہ شخص کو دیکھا اور کوچوان سے پوچھا:” کوچوان ! یہ کمزور اور خستہ حال شخص کون ہے ،اس کا گوشت کیوں خشک ہو گیا ہے ،رگین نمایاں ہو چکی ہیں ،دانت جھڑ چکے ہیں اور بال سفید ہو گئے ہیں ،لاٹھی ٹیکے ہوئے یہ کتنی اذیت سے لڑکھڑا تا ہو اچلا جا رہا ہے ۔

“کوچوان نے جواب دیا:” آقا! یہ شخص بڑھاپے کی وجہ سے کمزور ،حواس باختہ ،ناتواں ، بے کار ،دکھی اور بے سہارا ہے ۔اس لئے اس کے رشتہ داروں نے اسے فراموش کر دیا ہے ۔“یہ سن کر شہزادہ سدھارتھ بہت دکھی ہوا اور کہنے لگا :”کیا بڑھاپااس شخص کا خاندانی وصف ہے یا ساری دنیا کی یہ حالت ہوتی ہے “کوچوان بولا:”آقا ! یہ کوئی خاندانی یا قومی وصف نہیں ہے ،بڑھاپا دنیا کے ہر جاندار کی جوانی کو تباہ و برباد کردیتا ہے ۔

آپ ،آپ کے ماں باپ ،رشتہ دار اور دوست سب ہی بڑھاپے کے آگے بے بس ہیں ،ہر جوانی کا انجام یہی ہے ۔“یہ سن کر شہزادہ بہت پریشان ہوا اور بولا:”جاہل لوگوں پر افسوس ہے جو جوانی کے نشے میں ڈوب کر خوبصورت جسم کے انجام پر لمحہ بھر کے لئے بھی غور نہیں کرتے ۔کوچوان! بس،اب سواری روک لے ۔اگر بڑھاپا مجھ کو بھی آلے گا تو پھر کھیل کود اور سیر و تفریح سے کیا حاصل“شہزادہ بجھے ہوئے دل کے ساتھ واپس لوٹ آیا۔

سدھارتھ کے والد راجہ شدھودن کو معلوم ہوا تو بہت گھبرایا ۔اس نے حکم دیا کہ شہزادے کا دل خوش کرنے کی ہر ممکن کوشش کی جائے ۔راگ ورنگ کی محفلیں برپا ہوئیں ،ماہر رقاصوں نے اپنے فن کا مظاہر کیا،راجہ کا خیال تھا کہ شہزادہ ان آسائشات میں ڈوب کر اپنا فیصلہ بدل لے گا مگر ایسا نہ ہو سکا۔کچھ دن بعد شہزادے نے شہر کے جنوبی دروازے سے آرام باغ کی طرف جا نے کا فیصلہ کیا ، اس راستے میں بھی ایک شخص کو بری حالت میں دیکھا، اس نے کوچوان سے دریافت کیا:”اے کوچوان ! یہ بد صورت ،زرد رنگت والا،بدحواس اور کمزور شخص کون ہے ۔

اس کی سانس اکھڑی ہوئی ہے ،تکلیف سے بے چین ہے اور اپنے ہی جسم کی غلاظتوں پر لیٹا ہوا ہے ۔“کوچوان نے جواب دیا :” آقا ! یہ بیمار اور بے چین شخص قریب المرگ ہے ۔اب یہ کبھی صحت مند نہیں ہو سکتا ۔صحت کے ساتھ طاقت اور طبیعت کا سارا جوش ختم ہو چکاہے۔موت سے اس بے یارومددگار کی رہائی ممکن نہیں ۔“شہزادہ سوچ میں ڈوب گیا اور گویا ہوا:”اس کا مطلب ہے صحت کی حالت بھی خواب کی طرح ناپائیدار ہے ۔

بیماری کیسی خوفناک چیز ہے ۔کوئی عقل مند یہ جان کر تفریح اور کھیل تماشوں میں کیسے خوش رہ سکتا ہے ۔“یہ سوچ کرشہزادہ راستے سے ہی لوٹ آیا ۔راجہ اس واقعہ کا علم ہونے پر بھی بہت بے چین ہوا ،جسے وہ دنیادار بنانا چاہتا تھا،وہ دن بدن دنیا سے دور ہو رہا تھا ۔ایک دن شہزادہ شہر کے مغربی دروازے سے باغ کی طرف نکلا،راستے میں پھر اس نے دیکھا کہ لوگ چارپائی پر کپڑے سے لپٹی ہوئی ایک لاش رکھے،روتے پیٹتے چلے جا رہے ہیں ۔

ان کی آنکھوں سے لگاتار آنسو بہ رہے ہیں ۔اپنے بال نوچ کھسوٹ رہے ہیں ،جیسے یہ دکھ ان کی برداشت سے باہر ہے ۔کئی افراد غم کی شدت سے نڈھال ہو کر گر جاتے ہیں اور اپنے سر میں خاک ڈال کر پھر واویلہ کرتے ہوئے اٹھ کر چارپائی کی طرف بھاگتے ہیں ۔ماتمی آوازوں اور سوگ سے بھری صداؤں نے سارے ماحول کو نحوست سے دوچار کر دیا تھا ۔یہ المناک منظر دیکھ کر شہزادے نے کوچوان سے پوچھا:”یہ کیا ہے ؟ یہ لوگ چارپائی پر سوئے ہوئے شخص کو اٹھا کر کہاں لے جا رہے ہیں اور اس قدر ماتم کیوں کر رہے ہیں ۔

“کوچوان نے جوب دیا:” آقا ! یہ شخص مر گیا ہے ،یہ پھر اس دنیا میںآ ئے گا نہ ہی باپ ، ماں ،بیوی ، بیٹے اور عزیزو اقارب کو مل سکے گا،یہ اپنا ہنستا بستا گھر اور دنیا کے سارے سکھ چین چھوڑ کر اگلی دنیا کو چلا گیا ہے ۔اس دنیا کے لوگوں سے یہ پھر کبھی نہیں مل سکے گا۔“کوچوان کی بات سن کر شہزادہ بہت افسردہ ہوااور بولا:”بڑھاپے کے ذریعے تباہ ہو جانے والی اور طرح طرح کی بیماریوں سے بگڑ جانے والی صحت پر بھی لعنت اور ناپائیدار زندگی پر بھی۔

خوشی میں ڈوبے ہوئے کم عقل اور جاہل لوگوں پر بھی پھٹکار ۔اگر بڑھاپا ،بیماری اور موت نہ بھی ہوتے تب بھی انسان سکھی نہ ہوتا۔انسان کا اپنا وجود ہی انسان کے دکھ کا باعث ہے ۔لیکن بڑھاپا ،موت اور بیماری جب ہمیشہ سے ساتھ ہیں تو انسان کس امید پر خوشی منائے ۔کوچوان! واپس چلو۔میں غور کرنا چاہتا ہوں کہ ان مصائب سے نجات کے ذرائع کیا ہیں۔“اس بار سدھارتھ پھر واپس چلا گیا،کچھ دن بعد سدھارتھ شمالی دروازہ سے عیش محل کی طرف نکلا،راستے میں ا س نے ایک اجنبی شخص کو دیکھا اور کوچوان سے کہنے لگا:”پھٹے پرانے کپڑوں میں ملبوس اور کشکول ہاتھ میں تھامے یہ کون جا رہا ہے ، یہ بے حد مطمئن نظر آتا ہے ،اس کی نگاہیں نیچے کی طرف ہیں ،شکل سے حلیمی اور عاجزی ٹپکتی ہے اور چال میں بے نیازی ہے ،یہ عجیب انسان میں نے پہلی بار دیکھا ہے ۔

“کوچوان بولا:”اے مالک! یہ شخص درویش ہے ،اس نے دنیا کی ہر خواہش سے دامن چھڑا لیا ہے ،اس کا طریق زندگی بے حد سادہ اور قابل تقلید ہے ،اس نے مراقبہ اور عبادت و ریاضت کی زندگی اختیار کی ہے ،چھوٹے اور بڑے کا امتیاز اس کے نزدیک کوئی معنی نہیں رکھتا ،اس نے محبت اور نفرت دونوں کو فتح کرلیا ہے ،بھیک کا کھانا کھا کر بسر اوقات کرتا ہے ۔“یہ سن کر سدھارتھ بے ساختہ بول اٹھا:”آج تو نے وہ بات کہی ہے جو مدت سے میں سنناچاہتا تھا۔

عالموں نے ہمیشہ عبادات و ریاضت کی تعریف کی ہے اور یہی وہ راستہ ہے جس پر چل کر اپنا اور دوسروں کا بھلا چاہا جا سکتا ہے ۔
یہ شہزادہ سدھارتھ بعد میں گوتم بدھ کے نام سے معروف ہوا اور بدھ مت کے نام سے ایک نئے مذہب کی بنیاد رکھی۔ گوتم بدھ نے تو گیان اور مراقبے سے دنیا کے دکھوں سے نجات حاصل کر لی تھی مگر ہمارے وزیر اعظم صاحب کی تبدیلی نے عوام کا بھرکس نکال دیاہے ، یہ ملک اور عوام کا ستیا ناس کر کے کہتے ہیں سکون صرف قبر میں ہے ۔

کاش وزیر اعظم صاحب معرفت کا یہ نکتہ وزیر اعظم بننے سے پہلے جان جاتے تو آج عوام کی جان نہ جاتی۔ وزیر اعظم صاحب نے آئی ایم ایف کے پاس جانے سے خود کشی کا جو سفر شروع کیا تھا وہ سکون صرف قبر میں ہے تک اختتام کو پہنچا لہذا اب اس ملک اور عوام کو سادھو بن کر آنے والے سکون کا انتظا ر کرنا چاہئے ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :