حضرت ابو ذرغفاری کا قبول اسلام

منگل 8 فروری 2022

Muhammad Riaz

محمد ریاض

ٓآج ہماری خوش قسمتی ہے کہ ہم نبی کریم  ﷺکے جلیل و قدر صحابی حضرت ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ کے قبول اسلام کے واقعہ کا مطالعہ کررہے ہیں۔حضرت ابو ذر غفاریؓ کا شمار بڑے زاہد اور بڑے علماء اسلام میں کیا جاتا ہے۔جب انکو نبی کریم  ﷺکی نبوت کی پہلے پہل خبر پہنچی تو انہوں نے اپنے بھائی کو حالات کی تحقیق کے واسطے مکہ بھیجاکہ جو شخض نبوت کا دعوی کرتا ہے کہ میرے پاس وحی آتی ہے اور آسمان کی خبریں آتی ہیں اسکے حالات معلوم کریں اور اسکے کلام کو سنیں۔

وہ مکہ مکرمہ آئے اور حالات معلوم کرنے کے بعد آ پ سے کہا میں نے انکو اچھی عادتوں اور عمدہ اخلاق کا حکم کرتے دیکھا اور اور ایک ایسا کلام سنا جو نہ شعر ہے نہ کاہنوں کا کلام ہے۔ حضرت ابوذررضی اللہ عنہ کو ا پنے بھائی کی بات سے تشفی نہ ہوئی تو خود سامان سفر کیا مکہ مکرمہ پہنچنے کے بعد سیدھے مسجد حرام میں گئے۔

(جاری ہے)

چونکہ آپ نبی کریم  ﷺ کو پہنچانتے نہیں تھے اور کسی سے پوچھنا مصلحت کے خلاف سمجھا، شام تک اسی حال میں رہے۔

شام کو حضرت علی ؓ نے دیکھا کہ ایک پردیسی مسافر ہے۔مسافروں، غریبوں، پردیسیوں کی خبر گیری اور انکی ضرورتوں کو پورا کرنا ان حضرات کی گھٹی میں پڑا ہوتا تھا۔ اسلئے انکو اپنے گھر لے آئے۔ میزبانی فرمائی لیکن اسکے پوچھنے کی کچھ ضرورت نہ سمجھی کہ کون ہو، کیوں آئے ہو۔ مسافر نے بھی کچھ ظاہر نہ کیا، صبح کو پھر مسجد میں آگئے اوردن بھر اسی حال میں گزرا کہ خود پتہ نہ چلا اور کسی سے دریافت بھی نہ کیا۔

غالبا اسکی وجہ یہ ہوگی کہ نبی کریم  ﷺکے ساتھ دشمنی کے قصے بہت مشہورتھے۔ آپکو اور آپکے  ﷺ ملنے والوں کو ہر طرح کی تکلیفیں دی جاتی تھیں۔ انکا خیال ہواکہ صحیح حال معلوم نہیں ہوگااور بدگمانی کی وجہ سے مفت کی تکلیف علیحدہ رہی۔ دوسرے دن شام کو بھی حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو خیال ہوا کہ پردیسی مسافر ہے بظاہر جس غرض کے لئے آیاہے وہ پوری نہیں ہوئی۔

اسلئے پھراپنے گھر لے گئے رات کو کھانا کھلایا، سلایا مگر پوچھنے کی اس رات بھی نوبت نہ آئی۔ تیسری رات کو پھر یہی صورت ہوئی تو حضر ت علی ؓ نے دریافت کیا کہ تم کس کام آئے ہو، کیا غرض ہے تو حضرت ابوذرؓنے اول انکو عہد و پیمان دیئے، اس بات کہ وہ صحیح بتائیں۔ اسکے بعد اپنی غرض بتلائی۔ حضرت علی ؓنے فرمایا کہ بیشک حضرت محمد  ﷺ  اللہ کے سچے رسول ہیں۔

صبح کو جب میں جاؤں تو تم میرے ساتھ چلنا میں وہاں تک پہنچا دوں گا لیکن مخالفت کا زور ہے اس لئے راستہ میں اگر مجھے کوئی شخص ایسا ملا جس سے میرے ساتھ چلنے کی وجہ سے تم پر کوئی اندیشہ ہوتو میں اپنا جوتا سیدھا کرنے لگوں گا۔ تم سیدھے چلے چلنا، میرے ساتھ ٹھہرنا نہیں، جس کی وجہ سے تمہار ا میرا ساتھ معلوم نہ ہوگا۔ چنانچہ صبح کو حضرت علی ؓکے پیچھے پیچھے نبی کریم ﷺکی خدمت میں پہنچے۔

وہاں جاکر بات چیت ہوئی، اسی وقت مسلمان ہوگئے۔ نبی کریم  ﷺ نے انکی تکلیف کے خیال سے فرمایا کہ اپنے اسلام کو ابھی ظاہر نہ کرنا چپکے سے اپنی قوم میں چلے جاؤ، جب ہمار ا غلبہ ہوجائے تو اس وقت چلے آنا۔ انہوں نے عرض کیا یارسول اللہ ﷺ اس ذات کی قسم جسکے قبضہ میں میری جان ہے کہ اس کلمہ توحید کو ان بے ایمانوں کے بیچ میں چلاکے پڑھوں گا چنانچہ اسی وقت مسجد حرام میں تشریف لے گئے اور بلند آواز میں اشھد ان لا الہ الا اللہ و اشھد ان محمد رسول اللہ پڑھا، پھر کیا تھا چاروں طرف سے لوگ اٹھے اور اس قدر مارا کہ زخمی کردیا مرنے کے قریب ہوگئے۔

نبی کرم  ﷺ کے چچا حضرت عباس ؓ جو اس وقت مسلمان نہ ہوئے تھے انکے اوپر بچانے کے لئے لیٹ گئے اور لوگوں سے کہا کہ کیا ظلم کرتے ہو، یہ شخص قبیلہ غفار کا ہے اور یہ قبیلہ ملک شام کے راستہ میں پڑتا ہے تمہاری تجارت وغیرہ سب ملک شام کیساتھ ہے، اگر یہ مر گیا تو شام کاجانا آنا بند ہوجائے گا۔ اس پر ان لوگوں کو بھی خیال ہوا کہ ملک شام سے ساری ضرورتیں پوری ہوتی ہیں وہاں کا راستہ بند ہوجانا مصیبت ہے اسلئے انکو چھوڑ دیا۔

دوسرے دن پھر اسی طرح انہوں نے جاکر بآواز بلند کلمہ پڑھا اور لوگ اس کلمہ کے سننے کی تاب نہ لاسکتے تھے۔ اس لئے ان پر ٹوٹ پڑے۔ دوسرے دن بھی حضرت عباس ؓنے اسی طرح انکو سمجھاکر ہٹایا کہ تمہاری تجارت کا راستہ بند ہوجائے گا۔ہمارے لئے غور کرنے کی بات ہے کہ نبی کریم ﷺ کے اس ارشاد کے باوجود کہ اپنے اسلام کو چھپاؤ انکا یہ فعل حق کے اظہار کے ولولہ اور غلبہ تھا کہ جب یہ دین حق ہے تو کسی کے باپ کا کیا اجارہ ہے جس سے ڈر کر چھپایا جائے اور نبی کریم  ﷺ کا منع فرمانا شفقت کی وجہ سے تھا کہ ممکن ہے تکالیف کا تحمل نہ ہو ورنہ نبی کریم  ﷺ کے حکم کے خلاف صحابہ کرام ؓ کی یہ مجال نہ تھی۔

چونکہ نبی کریم  ﷺ خود دین پھیلانے میں ہر قسم کی تکلیفیں برداشت فرما رہے تھے۔ اس لئے حضرت ابو ذرغفاری ؓنے سہولت پر عمل کرنے کی بجائے  (نبی کریم  ﷺ کی سنت یعنی ظلم کے باوجود حق کی آواز بلند کرنے والے عمل کی) اتباع کو ترجیح دی۔ یہی ایک چیز تھی کہ جسکی وجہ سے ہر قسم کی دینی و دنیوی ترقی صحابہ کرامؓ کے قدم چوم رہی تھی اور ہر میدان انکے قبضہ میں تھا کہ جو شخص بھی ایک مرتبہ کلمہ شہادت پڑھ کر اسلام کے جھنڈے کے نیچے آجاتا تھا، بڑی سے بڑی قوت بھی اسکو روک نہ سکتی تھی اور نہ بڑے سے بڑا ظلم اسکو دین کی اشاعت سے ہٹا سکتا تھا۔

اللہ کریم کی کروڑہاں رحمتیں نازل ہوں نبی کریم  ﷺ پر اور آپکی اہلبیت پر اور آپکے اصحاب پا ک پر رضوان اللہ تعالی علیھم اجمعین۔ آمین ثم آمین  (بحوالہ فضائل اعمال)۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :