جسٹس عائشہ ملک سپریم کورٹ تعیناتی پر اعتراض کیوں؟

منگل 11 جنوری 2022

Muhammad Riaz

محمد ریاض

جمعرات 6 جنوری کوجوڈیشل کمیشن آف پاکستان کی طرف سے لاہور ہائیکورٹ میں تعینات جسٹس عائشہ ملک کی سپریم کورٹ میں تعیناتی کی سفارش کے بعد اب ان کی تعیناتی کا معاملہ حتمی منظوری کے لیے ججوں کی تقرری کے بارے میں پارلیمانی کمیٹی کے سامنے رکھا جائے گا۔یاد رہے جسٹس عائشہ ملک کی سپریم کورٹ کی تعیناتی کے لئے کمیشن کے پانچ اراکیننے حمایت کی۔

جبکہ کمیشن کے دیگر چار اراکین نے مخالفت کی۔اگر پارلیمانی کمیٹی نے بھی جوڈیشل کمیشن کی سفارشات کی توثیق کردی تو وزیراعظم اور صدر پاکستان کی منظوری کے بعدجسٹس عائشہ ملک پاکستانی تاریخ میں سپریم کورٹ کی پہلی جج بن جائیں گی۔یاد رہے پاکستان بار کونسل کی جانب سے 6 جنوری کو پاکستان کے تمام وکلاء سے عدالتوں کے بائیکاٹ کی درخواست کی گئی تھی اور پاکستان کے بہت سے مقامات پر وکلاء نے پاکستان بار کونسل کی درخواست پر جسٹس عائشہ ملک کی سپریم کورٹ تعیناتی کے خلاف  عدالتوں میں پیش نہ ہوکر اپنا احتجاج ریکارڈ کروایا تھا۔

(جاری ہے)

وکلاء کی بہت سی نمائندہ کونسلز سپریم کورٹ میں جونئیر ججز کی تعیناتی کو seniority principle  اور Al Jehad Trust Case  کی خلاف ورزی قرار دے رہی ہیں۔ جسٹس عائشہ ملک کی سپریم کورٹ تعیناتی کے عمل میں یہ بات بہت ہی زیادہ واضح طور پر سامنے آئی کہ جونئیر ججز کی سپریم کورٹ تعیناتی پر نہ صرف پاکستانی وکلاء بلکہ ججز کے درمیان بھی اختلاف پایا جاتا ہے۔ایک جماعت کے نزدیک جونئیر ججز کی سپریم کورٹ میں تعیناتی seniority principle کی واضح خلاف ورزی ہے جبکہ دوسری جماعت کے نزدیک پاکستان کے آئین میں کسی بھی جونیئر جج کی سپریم کورٹ تعیناتی پر کوئی قدغن نہیں ہے۔

آیئے قانون کے ادنیٰ طالب علم کی حیثیت سے طرفین کی جانب سے پائے جانے والے اس اختلاف کوآئین پاکستان کی روشنی میں پرکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ سپریم کورٹ میں کسی بھی جج کی تعیناتی آئین پاکستان کے Article 175-A  اور Article 177 کے تحت عمل میں آتی ہے۔آئین پاکستان کے Article 175-Aکے مطابق سپریم کورٹ، ہائیکورٹس اور وفاقی شرعی عدالت میں ججز کی تعیناتی کے لئے ایک آئینی ادارہ جسے Judicial Commission of Pakistan کہا جاتا ہے۔

اس آئینی ادارے کا کام ہی ججز کی تعیناتی کے لئے اپنی سفارشات مرتب کرکے  ججز کے لئے پارلیمنٹ کی کمیٹی کو بھجوانا ہوتا ہے۔ سپریم کورٹ کے ججز کی تعیناتی کے حوالہ سے اس کمیشن کی تشکیل کی بات کی جائے تو اسکے ممبران کی کل تعداد 9 افراد پر مشتمل ہوتی ہے۔ چیف جسٹس آف پاکستان اس کمیشن کے چیرمین،  سپریم کورٹ کے 04 سینئر ترین ججز اور  سپریم کورٹ کے سابقہ چیف جسٹس یا پھر سپریم کورٹ کے ہی 01 سابقہ جج، اسکے علاوہ  01  وفاقی وزیر قانون،  01  اٹارنی جنرل آف پاکستان اور پاکستان بار کونس کی جانب سے نامزد 01 سینئر ترین وکیل شامل ہوتے ہیں۔

یہ کمیشن اکثریتی فیصلہ کی بناء پر اپنی سفارشات مرتب کرتا ہے۔سپریم کورٹ میں کسی جج کی تعیناتی کے لئے درج بالا ممبران پر مشتمل کمیشن اپنی سفارشات مرتب کرتا ہے جبکہ ہائیکورٹ میں کسی جج کی تعیناتی کے لئے اس کمیشن میں ہائیکورٹ کے چیف جسٹس، ہائیکورٹ کے سینئر ترین جج، صوبائی وزیر قانون، اور پاکستان بار کونسل کی جانب سے ہائیکورٹ کے وکیل کو بھی شامل کیا جاتا ہے۔

آئیے اب آئین پاکستان کے Article 177 جس کا ٹائٹل ہی بہت واضح ہے یعنی  Appointment of Supreme Court Judges۔ اس آرٹیکل کے مطابق:  چیف جسٹس آف پاکستان اور سپریم کورٹ کے دوسرے ججوں میں سے ہر ایک کا تقرر صدر آرٹیکل 175A کے مطابق کرے گا۔ اور کسی شخص کو سپریم کورٹ کا جج مقرر نہیں کیا جائے گا جب تک کہ وہ پاکستان کا شہری نہ ہو۔اور ہائی کورٹ کے کم از کم پانچ سال جج رہے۔

کم از کم پندرہ سال تک ہائی کورٹ کے وکیل رہے۔اسی طرح آئین کے آرٹیکل   Article 175-A (3) کے تحت:  the President shall appoint the most senior Judge of the Supreme Court as the Chief Justice of Pakistan۔معزز وکلا ء حضرات کی جانب سے جونئیر جج کی سپریم کورٹ تعیناتی کے خلاف اعتراض کے لئے Al Jehad Trust Case کا بار بار حوالہ دیا جاتا ہے۔ یاد رہے یہ مقدمہ سال 1996 کا ہے جبکہ سپریم کورٹ اور ہائیکورٹ میں ججوں کی تعیناتی کے حوالہ سے مشہور زمانہ 18ویں اور 19 ویں آئینی ترامیم جوکہ سال 2010 میں ہوئیں ان میں ججز کی تعیناتی کے حوالہ سے آئین پاکستان میں پائے جانے والے ہر قسم کے ابہام کو دُورکردیا گیا تھا۔

آئین پاکستان کے درج بالا واضح ترین آرٹیکلزکے مطالعہ کے بعد یہ چیز واضح طور پر سامنے آتی ہے کہ سپریم کورٹ میں ہائیکورٹ کے کسی جج کی تعینانی میں سینئر یا جونئیر والی بات کہیں نظر نہیں آتی۔یاد رہے آئین کے آرٹیکل   Article 175-A (3) کے تحت ججز کی تعیناتی کے وقت  seniority principle  کا اُصول صرف اور صرف سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کی تعیناتی کے وقت لاگو ہوتا ہے۔

اور یہ کیسے ممکن ہے کہ جوڈیشل کمیشن آف پاکستان جو کہ خود ایک آئینی ادارہ وہ ایک غیر آئینی کام سرانجام دے۔ قانون کے ادنیٰ سے طالب علم کی حیثیت سے یہ جاننے سے قاصر ہوں کہ جب آئین پاکستان میں سپریم کورٹ جج کی تعیناتی کے لئے واضح ترین اور غیر مبہم ہدایات موجود ہیں توپھر پاکستان کے معزز وکلا ء حضرات ہر معاملے پر احتجاج کرنا کیوں شروع کردیتے ہیں۔ یاد رہے ایک دن کے احتجاج اور عدالتی بائیکاٹ سے ہزاروں مقدمات مزید التوا ء کا شکار ہوجاتے ہیں۔ عدالتوں سے دادرسی کے حصول کے لئے آئے ہوئے ہزاروں سائل مایوس ہوکر گھروں کو واپس لوٹ جاتے ہیں۔وکلاء کا بار بار عدالتی بائیکاٹ کرنا انصاف کے حصول میں رکاوٹ بنتا ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :