سمندر پار پاکستانیوں کے لئے "امید"

منگل 4 جنوری 2022

Muhammad Riaz

محمد ریاض

ایک احتیاط اندازے کے مطابق تقریبا ایک کروڑ کے قریب پاکستانی اس وقت دیارغیر میں رزق حلال کی تلاش میں اپنی زندگیاں بسر کررہے ہیں۔ ان سمندر پار پاکستانیوں کی طرف سے بھیجی جانے والی رقوم پاکستانی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حثیت رکھتی ہیں۔ اتنی بڑی تعداد میں بیرون ممالک میں مقیم پاکستانیوں کے بہت سے مسائل بھی تھے اور انکے پاکستان اور پاکستان سے باہر کے مسائل کے حل کے لئے ماضی میں اتنی زیادہ سنجیدگی سے نہیں دیکھا گیا۔

ان مسائل کو دیکھتے ہوئے لندن میں مقیم کچھ نوجوان پاکستانیوں نے سوچا کہ کیوں نہ سمندرپاکستانیوں کے مسائل حل کرنے کے لئے ہم کو آگے بڑھنا چاہئے۔ اس طرح یہ تنظیم بنائی اور تنظیم کا نام بھی  ”امید“ کے طور پر رکھا۔ یہ سمندرپارخصوصایورپ میں بسنے والے پاکستانیوں کی غیر سرکاری اور غیرمنافع کی بنیاد پر بننے والی تنظیم ہے۔

(جاری ہے)

تنظیم کا نام HOPEیعنی ”امید“  رکھا گیا۔

تنظیم کا آفس لندن انگلینڈ میں واقع ہے۔ مستقبل قریب میں یورپ کے دیگر ممالک میں تنظیمی دفاتر کھولنے کی منصوبہ بندی کی جاری ہے۔ تنظیم کے بانی سیٹھ محمد تنویر ہیں۔ اس تنظیم کے ممبران کی تعداد 30 افراد سے زائد پر مشتمل ہے۔اس تنظیم کا قیام 2016 میں ہوا۔تنظیم کا واحد مقصد سمندرپارپاکستانیوں کے مسائل کو حل کروانا، چاہے وہ مسائل چاہے انکے اپنے آبائی وطن یعنی پاکستان میں ہوں جیسا کہ جائیداد کے مسائل، ناجائز مقدمہ بازی، پاکستان میں سرکاری دفاتر میں شنوائی نہ ہونا، پاکستان میں موجود پیچیدہ عدالتی کاروائیوں میں تاخیر کا ہونا۔

پاکستانی ایرپورٹس پر سرکاری اہلکاروں کے ناروا سلوک سے بچانے کے لئے مقتدر حلقوں تک آواز کو اُٹھانا، پاکستان میں ہاؤنسنگ سوسائٹیز میں سمندر پار پاکستانیوں کے لئے خصوصی و رعائتی بنیادوں پر زمین کا حصول۔ اسی طرح دیار غیر میں پاکستانی سفارت خانوں میں سمندر پار پاکستانیوں کے مسائل جیسا کہ شناختی کا اجراء، پاسپورٹ کا اجراء، سفارتخانوں میں  سرکاری اہلکاروں کا ناروا سلوک، دیار غیر میں سمندرپارپاکستانیوں کے خلاف ناجائز مقدمات میں قانونی مدد فراہم کرنا۔

یورپ میں قید پاکستانیوں کی دادرسی کی ہرممکن کوشش کرنا۔وفات کی صورت میں آبائی وطن پاکستان میں نعش کو جلد از جلد پہنچانے میں حائل رکاوٹوں کے خاتمہ کے لئے تگ و دو کرنا۔دیار غیر میں کسی بے روزگار اور ضرور ت مند پاکستانی کو مالی مدد فراہم کرنا اور اسکے روزگار کے لئے تگ و دو کرنا۔ اس تنظیم نے اپنے اغراض ومقاصد کے حصول کی خاطر اپنے وجود کے بعدسے بہت ہی زیادہ کامیابیاں سمیٹی ہیں۔

یہ تنظیم مکمل طور پر No Profit & No Loss  کی بنیاد پر بنی ہے اس تنظیم کی فنڈنگ بہت سے سمندرپارپاکستانی کرتے ہیں جن کو اللہ پاک نے رزق میں بہت ہی زیادہ کشادگی دی ہوئی ہے۔ اس تنظیم کے ممبران خود اس تنظیم کے لئے رضاکارانہ طور پر فنڈنگ کرتے ہیں۔ جیسے ہی کوئی مسئلہ سامنے آئے اس تنظیم کے اراکین خوش دلی سے اپنی مدد آپ کے تحت فنڈز کا اکٹھا کرتے ہیں اور اپنے سمندر پار پاکستانی کی دادرسی کرتے ہیں۔

اس تنظیم کا کوئی رکن تنظیم کے فنڈز سے کسی قسم کا کوئی مالی فائدہ (تنخواہ، کمیشن وغیرہ) نہیں لے سکتا اور نہ ہی کوئی مالی فائدہ اٹھاتا ہے بلکہ ممبران اپنی جیب سے اس تنظیم کے لئے فنڈز مہیا کرتے ہیں۔یہ تنظیم نہ پاکستان کے کسی سرکاری ادارے سے فنڈ لیتی ہے اور نہ ہی یہ تنظیم کسی قسم کی چیرٹی زکوۃ خیرات وغیر ہ کی اپیل کرتی ہے۔تنظیم نے اپنے وجود کے بعد سب سے زیادہ فوکس یورپ میں موجود پاکستانی سفارتخانوں کی طرف کیا کیونکہ اوورسیز پاکستانیوں کے زیادہ تر مسائل کا مرکز ہمیشہ ہی سے پاکستانی سفارتخانے ہی رہے ہیں۔

جہاں پر ہمیشہ انکے ساتھ ناروا سلوک کیا جاتا رہا ہے۔ تنظیم نے پاکستانی سفارتخانوں کے ساتھ مسلسل اور مستقل بنادوں پر رابطے قائم کئے اور سفارتخانوں کے ذمہ داران کو باآور کرایا کہ سمندر پارپاکستانی کے مسائل حل کرنا پاکستانی سفارتخانوں کی ذمہ داری ہے۔ اس تنظیم کے وجود کے بعد یورپ خصوصا برطانیہ میں بہت سے مسائل میں کمی واقعہ ہوچکی ہے۔

آج پاکستانی سفارتخانوں میں پاکستانیوں کیساتھ عزت سے پیش آیا جاتا ہے۔ انکے مسائل فورا حل ہوجاتے ہیں۔ اسی طرح تنظیم نے یورپ میں پاکستانیوں پر بننے والے ناجائز مقدمات کے خاتمہ کے لئے قانونی دادرسی کے حصول کے لئے بہت سی کاوشیں کی ہیں، جنکی بدولت بہت سے پاکستانیوں کے اوپر بننے والے ناجائز مقدمات کا خاتمہ ممکن ہوا۔ پاکستانیوں کے نئے شناختی کارڈ اور پاسپورٹ کے اجراء کو یقینی بنایا گیا ہے۔

اور کسی بھی تاخیر کی صورت میں متعلقہ سفارتخانے میں پاکستانی سفیر یا کمشنر سے ملاقات کرکے ان مسائل کا فوری حل ممکن بنایا جاتا ہے۔ برطانیہ میں آنے والے صاحب اقتدار افراد چاہے انکا تعلق حکومتی بینچ سے ہو یا پھر اپوزیشن بنیچ سے تنظیم کی ہر ممکن کوشش ہوتی ہے کہ سمندر پار پاکستانیوں کے مسائل کے حل کے لئے پاکستانی سیاستدانوں اور حکمرانوں تک اپنی بات کو پہنچایا جائے اور اس سلسلہ میں گاہے بگاہے تنظیم کے عہدیدران پاکستانی صاحب اقتدار افراد سے ملاقاتیں کرتے رہتے ہیں۔

اسی طرح برطانیہ کے پارلیمنٹرین کے ساتھ روابط قائم کئے گئے ہیں اور برطانیہ کے میئرز، سیاسی، سماجی اور تاجر حضرات کیساتھ ملاقاتوں میں یہ باور کروایا جاتا ہے کہ برطانیہ اور یورپ کی ترقی میں پاکستانیوں کی محنت کا کتنا عمل دخل ہے اور یہ کہ پاکستانی یورپین ممالک کی معیشت میں بے انتہا ٹیکس دیکر اپنا حصہ ڈالتے ہیں۔ سمندرپارپاکستانیوں کا مستقبل اس تنظیم سے جڑا ہوا ہے۔

جیسے جیسے یہ تنظم برطانیہ سے نکل کر یورپ کے دیگر ممالک میں پھیل کرسمندر پارپاکستانیوں کے مسائل کو حل کرواتی جائے گی۔تنظیم کے ڈائریکٹر سیٹھ محمد تنویر کے مطابق ایک وقت آئے گا کہ دنیا بھر میں مقیم پاکستانی اپنے مسائل کے حل کے لئے تنظیم HOPE کے پلیٹ فورم کو استعمال کرتے ہوئے دیکھائی دیں گے۔ سمند رپارپاکستانیوں کو ووٹ کا حق دینے پر تنظیم HOPE  وزیراعظم عمران خان کی انتہائی مشکور ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :