کرپشن کی کہانیاں

جمعرات 18 فروری 2021

Muhammad Sikandar Haider

محمد سکندر حیدر

پاکستانی ادارے جس انداز میں روز بروز کرپشن کی کہانیاں سُنا رہے ہیں۔ اِس رفتار کو دیکھ کر تو ایسے گمان ہوتا ہے جیسے اداروں میں کرپشن کی میرا تھن ریس جاری ہو۔ اخلاقی پستی کا یہ عالم ہو چکا ہے کہ کرپشن اب گالی یا بدنامی تصور نہیں کی جاتی ہے۔ اب تو عزیز و اقارب بھی کرپٹ افرادکی آمدن سے زیادہ اثاثہ جات پر اُسے حقارت کی نظر نہیں سے بلکہ اُس کی آمدن دیکھ کر متاثر ہوتے ہیں حالانکہ کرپشن معاشرے کا ناسور ہے کیونکہ ایک طرف یہ ملک وقوم کی ترقی و مستقبل کھا جاتاہے تو دوسری جانب یہ غریبوں کا استحصال کر تا ہے۔


گذشتہ دنوں پنجاب پبلک سروس کمیشن میں تحصیلدار کے تحریری امتحانی پرچے کا کرپشن کا سکینڈل جس ڈرامائی انداز میں منظر عام پر آیا ہے۔اُس سے تاثر بھرا جیسے پہلی دفعہ پی پی ایس سی میں کرپشن کا سکینڈل منظر عام پر آیا ہے۔

(جاری ہے)

جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اِس ادارہ پر گذشتہ کئی دہائیوں سے بالخصوص 90کے عشرے سے، میرٹ کی پامالی ، انٹرویو آفیسران کی متاثرہ ساکھ، کرپشن و سفارش کلچر کے الزامات عائد ہوتے چلے آرہے ہیں۔

چونکہ آج کل سوشل میڈیا کا دور ہے اور محکمہ اینٹی کرپشن لاہور کی متعلقہ ٹیم نے اِس پر ایک دھواں دھار پریس کانفرنس کر ڈالی، جس سے یہ سکینڈل ملک بھر میں پہلی دفعہ کافی ہائی لائٹ ہوگیا ورنہ پی پی ایس سی کی کرپشن اور پسماندہ اضلاع کے اُمیدواروں کے ساتھ ناانصافیوں کی گونج تو ہر سُو پہلے ہی موجود تھی۔حقدار کا حق غصب کرنا ظلم عظیم اور عدل کا قتل عام ہے۔


پی پی ایس سی کا کرپٹ مافیا جو گذشتہ دنوں محکمہ اینٹی کرپشن کی ٹیم نے بے نقاب کیا ہے وہ تو فقط اِس مافیا کے چھوٹے چھوٹے مُہرے ہیں ، اِس مافیا کے سرغنہ تو وہ بااختیار افراد ہیں جو اِس ادارے کے انتظامی عہدوں پر عدل کا سرعام قتل کر رہے ہیں اور اُن پر قانون کی گرفت ڈھیلی اِس لیے پڑ جاتی ہے کیونکہ وہ افراد کمزور قانون کے جالے کو بآسانی توڑ کر بچ جاتے ہیں۔


یہ ادارہ 1937میں قائم ہوا اور اِس کا پہلا چیرمین Mr. J Slatteryتھا۔ تقسیم ہند کے بعد میاں محمد افضل حسین اِس کے پہلے پاکستانی چیرمین تھے۔ اِس وقت یہ ادارہ پی پی ایس سی آرڈینس 1978کے تحت کام کر رہا ہے جبکہ اِس کے چیرمین اور ممبران کو سرکاری تنخواہ ، الاﺅنسز اور دیگر مالی مراعات پی پی ایس سی (ٹرم اینڈ کنڈیشن سروس) رولز 2012کے شیڈول رولز نمبر 02کے تحت ادا کی جارہی ہیں۔

ابتدائی طور پر 2012میں چیرمین کی ماہانہ تنخواہ 324000روپے، ہاﺅس رینٹ 142000روپے اور یوٹیلٹی بلز الاﺅنس 16200روپے مجموعی ماہانہ پیکج 482200روپے بمعہ 1600سی سی گاڑی، 340لیٹر پٹرول، ٹی اے ڈی اے اور بیوی بچوں سمیت میڈیکل الاونس مقرر کیا گیا تھا ۔ اِسی طرح فی ممبر کا ماہانہ پیکج 377100روپے ، بمعہ 1300سی سی گاڑی، 270لیٹر پٹرول، ٹی اے ڈی اے اور بیوی بچوں سمیت میڈیکل الاونس مقرر کیا گیا تھا۔

جبکہ اب اِن مراعات میں کئی گنا اضافہ ہو چکا ہے۔ حکومت پنجاب کی جانب سے چیرمین، ممبران اور دیگر جملہ ملازمین کو ماہانہ تنخواہوں کے ہمراہ ادارے کو چلانے کے لیے ہر سال ایک کثیر رقم فراہم کی جاتی ہے تاکہ یہ ادارہ صوبائی حکومت کے لیے میرٹ پر اہل اُمیدواروں کی تعیناتی بآسانی کرا سکے۔
اِس ادارہ کے ذمہ صوبائی حکومت کا اہم ترین جزو پروفیشنل منیجمنٹ سروس ( پی ایم ایس)بھی ہے۔

پی ایم ایس افسران ہی درحقیقت صوبائی حکومت کے آفسران اعلیٰ ہوتے ہیں۔ جو بوقت بھرتی قوم و ملک کی خدمت کے جذبہ سے سرشار ہوتے ہیں پھر دھیرے دھیرے افسرشاہی قبیلہ کے ممبر بن جاتے ہیں۔ اِس ادارہ کا ہیڈ آفس لاہور میں جبکہ چھ ریجنل دفاتر راولپنڈی ، ملتان ، بہاولپور ڈی جی خان ، سرگودھا اور فیصل آباد میں قائم ہیں۔ اِس کا مالی سال 2019-2020کا سالانہ بجٹ722.782 ملین روپے جبکہ سپلیمنٹری بجٹ اِس کے علاوہ تھا۔

30جون 2019تک اِس نے اُمیدواروں سے 298568002روپے فیس جبکہ 31دسمبر 2019تک 185871000روپے فیس اکھٹی کی۔اِس ادارہ کا کرپٹ مافیا پسماندہ اضلاع کے اُمیداروں کے حق کا استحصال کر رہا ہے۔ یہ بات اِس ادارے کی سالانہ رپوٹ 2019کے تنقیدی جائزہ اور حالیہ کرپشن سیکنڈل سے بآسانی ثابت ہوتی ہے۔
سال 2019میں اِس ادارہ نے 37محکمہ جات کی 9406آسامیوں کے لیے 7954اُمیدواروں کی بھرتی کی سفارش کی۔

اِن آسامیوں کے لیے ادارہ کو کل 482542درخواستیں موصول ہوئیں۔ کل 1061متحانات و ٹیسٹوں میں 413937 اُمیدواروں نے شرکت کی۔ جن میں سے 19678اُمیدواروں کو انٹرویو کال جاری کی گئی۔ 7954اُمیدواروں کی بھرتی کی سفارش میں سب سے زیادہ حصہ ضلع لاہور کا 19.45فیصد ،ضلع فیصل آباد کا حصہ 5.90فیصد ، ضلع روالپنڈی کا حصہ 5.62فیصدجبکہ ضلع ڈیرہ غازیخان کا حصہ 1.89فیصد اور ضلع راجن پور کا حصہ 1.09فیصد تھا۔

بلحاظ ریجن بھی لاہور پہلے نمبر تھا ۔ مقابلے کے امتحان ( پی ایم ایس) کی کل آسامیاں 84تھیں۔ جن میں 8آسامیاں برائے اقلیت، 01آسامی برائے سیپشل پرسن اور 16آسامیاں جنوبی اضلاع کے کوٹہ کی مختص ہیں۔ مگر کافی عرصہ سے جنوبی اضلاع کے کوٹہ پر عدالتی کاروائی کی بناپربھرتی نہیں کی جارہی ہے۔
مقابلے کے امتحان کے لیے 13236اُمیدواروں نے درخواستیں جمع کرائیں ۔

مگر تحریری امتحان میں 5417اُمیدواروںنے شرکت کی اور فقط 138اُمیدوار تحریری امتحان پاس کر سکے۔ 136اُمیدواروں کا انٹرویو کیا گیا جن میں سے فقط 59اُمیدواروں کو کامیاب قرار دیا گیا اور اِن کامیاب اُمیداروں کی اکثریت کا تعلق لاہور سے تھا۔ شاید یہی وجہ ہے کہ اِس ادارہ کے خلاف 2019میں اُمیدواروں نے عدم اطمینان کا ظاہر کرتے ہوئے 197رٹ پیٹیشن برخلاف ادارہ معزز عدالت عالیہ میں جمع کرائیں جن میں سے فقط15اُمیدواروں کو ریلیف بھی نصیب ہوا۔


اگر اِس ادارے کی سالانہ رپورٹوں کا تقابلی جائزہ لیا جائے تو بآسانی پسماندہ اضلاع کے اُمیدواروں کے ساتھ ظلم ہوتا ثابت ہوتا ہے۔ بالخصوص اپر پنجاب کے رہائشی اُمیدواروں کو جنوبی پنجاب کے رہائشی اُمیداروں پر انٹرویو میں سرعام فوقیت دی جاتی ہے۔ جبکہ تحریری امتحانات کے پرچے آوٹ کرکے اُن اُمیداروں کی راہ مذید آسان کر دی جاتی ہے۔

محکمہ اینٹی کرپشن لاہور کی حالیہ کاروائی کا اگر شور شرابا سوشل میڈیا پر نہ ہوتا تو شاید کسی کو بھی علم بھی نہ ہوتا کہ پرچے آوٹ ہو چکے ہیں اور حق داروں کا حق مارا گیا ہے۔ حالیہ کرپشن سیکنڈل کی بناپر 12امتحانات کے پروسس کو منسوخ کر دیا گیا ہے۔
ایک غریب مزدور ، کسان ، ریڑھی بان کا بچہ جب پی پی ایس سی کے امتحان میں بیٹھتا ہے تو اُسے اعتماد ہوتا تھا کہ یہاں اُ س کے حق ملازمت پر کوئی صاحب طاقت ڈاکہ نہیں مارے گا۔

مگر افسوس اِس ادارے کی کرپشن نے غریبوں کے بچوں سے یہ اعتماد اور یقین میرٹ بھی چھین لیا ہے۔ حالیہ کرپشن سکینڈل پر دو چار دن میڈیا پر شور اُٹھا ہے ابھی تک جتنی بھی گرفتاریاں اِس سیکنڈل میں ہو ئی ہیں وہ فقط عام ملازمین کی ہوئی ہیں ۔ جبکہ تمام افسران بالا ابھی تک صادق و امین قرار دیے جار ہے ہیں۔ تحقیقاتی ٹیم کو وقار اکرم جونیئر ڈیٹا انٹری آپریٹر سے پرچوں سے بھری یو ایس بی تو مل گئی ہے مگر پورے گروہ کا سرا کسی افسر بالا سے نہیں ملا سکا اور نہ ہی ملنا ہے۔


وزیر اعلیٰ پنجاب سردار عثمان خان بزدار نے 21اگست 2019کو پی پی ایس سی کے نئے امتحانی سنٹر کا افتتاح کر دیا ہے۔ اِس نئے امتحانی سنٹر کو جدید ٹیکنالوجی سے لیس کیا گیا ہے اور حکومت پنجاب کی جانب سے 13.77ملین روپے اِس پر خرچ کیے گئے ہیں۔ مگر ادارہ کا کرپٹ مافیا اِس ادارہ کی بہتری کا خواہاں ہی نہیں ہے ۔ اگر اِس ادارے کا سارا نظام آئی ٹی بنیادوں پر منتقل کر دیا جائے حتی کہ انٹرویو بھی ادارے کی ویب سائٹ پر پبلک کر دیے جائیں تو سب کچھ شفاف ہو سکتا ہے۔

کرپٹ مافیا کی سرکوبی کے ہمراہ پسماندہ اضلاع کے اُمیدواروں کے ساتھ ہونے والی ناانصافی کا خاتمہ کرنا بھی ضروری ہے۔ جنوبی پنجاب سیکٹریریٹ کی مانند جنوبی پنجاب کا پبلک سروس کمیشن بھی الگ بنایا دیا جائے تو کم از کم غریب اضلاع کے اُمیدواروں پر اعلی پوسٹوں کے دروازے کھل جائیں گے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :