مجرم بنانے والی تربیت گاہیں

بدھ 9 جون 2021

Muhammad Sikandar Haider

محمد سکندر حیدر

کرپشن ناسُورکے درجہ سے ترقی پا چکی ہے ، کرپشن اب کوئی معیوب شے نہیں رہی بلکہ یہ کرپٹ مافیا کی معاشرتی قدر بن چکی ہے۔ ہر سرکاری ادارہ اپنے اندر کرپشن کی الف لیلوی داستان رکھتا ہے ۔ قابلِ افسوس یہ پہلو نہیں کہ کرپشن بڑھ گئی ہے بلکہ قابلِ عبرت امر تو یہ ہے کہ جو جنتا بڑا کرپٹ سرکاری ملازم ہے وہ اپنی حرام کمائی کی چمک کی بناپر اُتنا ہی زیادہ لوگوں میں معتبر کہلانے لگا ہے۔


محکمہ جیل خانہ جات پنجاب کا سرکاری دعوی ہے کہ” نفرت جرم سے ہے ،انسان سے نہیں “ اور” مجرموں کو جیل میں ایسے زیر تربیت رکھنا ہے کہ انہیں واپسی پر معاشرے کے لیے مفید شہر ی بنا کر بھیجا جائے۔ “ مگر صد افسوس جو کتابوں میں تحریر ہے وہ عملی طورپر کہیں بھی نظر نہیں آتا۔ جیل خانہ جات کے سرکاری ملازمین خود اِس قدر کرپٹ ہو چکے ہیں کہ اب تو جیل میں قید اصل مجرمان اوراُن کے لواحقین بھی اِن نام نہاد سرکاری اصلا ح کاروں سے پناہ مانگتے ہیں۔

(جاری ہے)


29مئی  2021کو ہوم ڈپیارٹمنٹ نے ریاض احمد خان سپریٹنڈنٹ ڈسٹرکٹ جیل اوکاڑہ کو معطل کیا جبکہ اُسی روز انسپکٹر جنرل آف جیل خانہ جات لاہور نے بھی ساہیوال سنٹرل جیل کے2اسسٹنٹ سپریٹنڈنٹس رانا محموالحسن، محمدسجاد اور 6 وارڈر غلام عباس شاہ، ایوب، شبیر، شفیق عالم، محمد طفیل اور محمد علی کو کرپشن الزامات پر معطل کر دیا۔ معطلی کے جو سرکاری لیٹرز جاری کیے گئے ,اُنہیں دیکھ کر ایسے گمان ہوتا ہے کہ وہ اوکاڑہ اور ساہیوال جیلوں میں پہلی دفعہ کرپشن بے نقاب ہوئی ہے جس پر ردعمل آیا ہے مگر نہیں، حقیقت کچھ اور ہے بلکہ تلخ حقیقت تو یہ ہے کہ پنجاب کی تمام 40جیلوں میں ہمہ قسمی کرپشن عشروں سے موجود ہے اور جیلیں جرائم کی آماجگاہیں بن چکی ہیں۔

فرق صرف اتنا ہے کہ اِس مرتبہ کسی تگڑے سرکاری آفیسر نے اوکاڑہ اور ساہیوال جیلوں میں ہونے والی کرپشن کو اپنی سورس رپورٹ میں بیان کیا ہے جس پر افسران بالا کو با امرمجبوری اپنے ہم پیالہ ساتھیوں کو معطل کرنا پڑگیا ہے۔
پنجاب کے محکمہ جیل کی تاریخ کچھ یوں ہے کہ پنجاب میں 1854میں سنٹرل، ڈسٹرکٹ اور سپیشل جیلوں کو بنا کر محکمہ جیل پنجاب کی بنیاد رکھی گئی۔

بعدازاں Lord Lansdowneگورنر جنرل انڈیا نے 22مارچ 1894کو جیل ایکٹ 1894پاس کیا۔ 1854میں گوجرانوالہ جیل اور جہلم جیل،1860میں راجن پورجیل، 1863میں سیالکوٹ جیل، 1872میں ملتان جیل، 1873میں فیصل آباد اور شاہ پور جیل، 1882میں بہاولپور جیل، 1904میں میانوالی جیل، 1905میں اٹک جیل،1910میں سردگودھا جیل، 1913میں ڈیرہ غازی خان جیل، 1922میں شیخوپورہ جیل،1929میں قصور جیل،1930میں گجرات جیل اور لاہور جیل،1947میں بہاولنگرجیل اور بھکر جیل، 1950میں رحیم یار خان جیل، 1973میں جھنگ جیل،1978میں منڈی بہاو الدین جیل، 2005 میں وہاڑی جیل، 2007میں ٹوبہ ٹیک سنگھ جیل،2015میں اوکاڑہ جیل، پاکپتن جیل اور لیہ جیل، 2016میں حافظ آبادجیل اور نارووال جیل بنائی گئیں۔

قیام پاکستان کے وقت پنجاب میں 19جیلیں تھیں جن کی تعدا د اب بڑھ کر 40ہو چکی ہیں۔ 2015 میں خصوصی طور پر HSPجیل ساہیوال بنائی گئی ہے۔ انسپکٹرجنرل آف جیل خانہ جات ( بی ایس 20) ہوم ڈپیارٹمنٹ پنجاب کے ماتحت کام کر تا ہے۔ 2019سے قبل پنجاب میں پانچ ریجن لاہور، روالپنڈی ، فیصل آباد ، ملتان اور ساہیوال تھے۔ اِن ریجن کا انچارج ڈپٹی انسپکٹر جنرل ہوتا ہے۔

وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان خان بزدار کے حکم پر ہوم ڈپپارٹمنٹ پنجاب نے 05 نومبر 2019کو ایک نیا ریجن ڈی جی خان ریجن بنا یا ہے اور سنٹرل جیل ڈی جی خان، ڈسٹرکٹ جیل لیہ ، راجن پور اور مظفر گڑھ کو نئے ریجن میں شامل کیا گیا اور اِس ریجن کے لیے ایک نئی آسامی ڈپٹی انسپکٹر جنرل ڈی جی خان ریجن بھی بنائی کی گئی۔
صوبائی بجٹ 2020-21کے مطابق محکمہ جیل خانہ جات کا مجموعی بجٹ 9ارب61کروڑ77لاکھ 48ہزار روپے ہے۔

جوکہ گذشتہ بجٹ 2019-20کے مقابلے میں ایک ارب 47کروڑ 66لاکھ 22ہزار روپے زیادہ تھا۔ یعنی ہر سال حکومت پنجاب اِس محکمہ کے بجٹ میں اضافہ کرتی چلی آرہی ہے۔ اِس محکمہ کی کل منظور شدہ آسامیاں 21095ہیں جن میں 1106آفیسرز اور 19994آفیشل ہیں۔ اِن اہلکاروں کی تنخواہ کا سالانہ بجٹ 7ارب 82لاکھ 22ہزا رر وپے ہے۔ سابق چیف جسٹس آف پاکستان افتخار چوہدری نے اِن ملازمین کی تنخواہوں میں خصوصی طور پر اضافہ کرایا تھا۔

یوں اِن ملازمین کی تنخواہ دیگر محکمہ جات کے ملازمین کی نسبت قدرے بہتر ہے۔ نیز اِن ملازمین کو پیشہ وارانہ تربیت کے ہمراہ اخلاقی او اسلامی تعلیمات کا کورس بھی کرایا جاتا ہے۔ مگر اِس کے باوجود اِس محکمہ کے سرکاری ملازم کرپشن کرنا اپنا سرکاری فرض سمجھتے ہیں ۔
سورس رپورٹس کے مطابق ایک سورس، قیدی کا ملاقاتی بنا کر ڈسٹرکٹ جیل اوکاڑہ گیا تو جیل کے باہر ناکہ سے شروع ہو کر بیرک تک ہر ایک پوائنٹ پر تعینات جیل ملازم نے رشوت لی اور ایک ملاقات پر 1600روپے رشوت دینی پڑی ۔

اِس طرح اوسطا ً روزانہ اوکاڑہ جیل میں 128000سے 144000روپے ملاقایتوں سے رشوت کی مد میں وصول کیے جاتے ہیں جوکہ ماہانہ تقریباً38لاکھ 40ہزار روپے تا 43لاکھ 20ہزا ر روپے تک بنتے ہیں۔ بعین ہی سنٹرل جیل ساہیوال میں سورس نے 1970روپے رشوت جبکہ سورس کے ہمراہی نے بھی 400روپے رشوت دی۔ یوں اوسطاً روزانہ تقریباً2لاکھ 70ہزار روپے تا 3لاکھ روپے روزانہ جبکہ تقریباً81 لاکھ سے 90لاکھ روپے تک ماہانہ رشوت ملاقاتیوں سے وصول کی جاتی ہے۔

اِن سورس کے ردعمل میں مذکورہ بیان کردہ افسران کو معطل کیا گیا۔ پنجاب کی 40جیلوں میں سے یہ فقط دو جیلوں اوکاڑہ اور ساہیوال میں ملاقاتیوں کی کرپشن کہانی ہے۔ اِس کرپشن میں اگر باقی ماندہ 38جیلوں کی کرپشن بھی شامل کی جائے تو یہ ماہانہ کروڑوں روپے کی فقط ملاقاتیوں کی کرپشن بنتی ہے۔ جبکہ جیلوں میں قائم سرکاری کینٹین پر مہنگی اشیاءکی فروخت، بیرک تبدیلی پر کرپشن، منشیات فروشی کی آمدن، سزاﺅں کے ہیر پھیر پر کرپشن اور قیدیوں کے کھانے میں ہونے والی کرپشن الگ ہے۔

اِسی طرح جیلوں میں جنسی جرائم کی بھی الگ الگ داستانیں ہیں جوکہ متعدد بار میڈیامیں بھی رپورٹس ہو چکی ہیں۔
مشہور زمانہ ڈپٹی سپریٹنڈنٹ اڈیالہ جیل محمد اکرم کے خلاف 33شکایات بحوالہ کرپشن ، منشیات فروشی ، رشوت اور کرپٹ پریکٹس ہوئیں ، جن کی جب پیڈا ایکٹ 2006کے تحت انکوئری ہوئی تو موصوف نہ صرف قصوروار پائے گئے بلکہ کرپشن کنگ قرار دیے گئے ۔

محکمہ جیل پنجاب میں ہر دوسرا جیلر محمد اکرم کی مانند ہی کرپٹ ہے یہی وجہ ہے کہ جیلروں نے اپنی الگ سے ایک ریاست جیل میں بنائی ہوئی ہوتی ہے۔ سرکاراختیارات کا ناجائز استعمال تو اب ہر دفتر میں مذاق بن کر رہ گیا ہے۔ پا کستان بھر میں بیشتر جیلر نے پاکستان جیل خانہ قواعد 1978ضابطہ 869(i) کی سہولت کا ناجائزفائدہ اُٹھاتے ہوئے جیلوں میں نجی طور پر کیٹل فارم بنا رکھے ہیں۔

جہاں دودھ دینے والے جانوروں بمعہ بچھڑوں کی تعداد سینکڑوں تک ہے جوکہ سرکاری چارہ پر سرعام پالے جارہے ہیں۔ ہر جیلرسرکاری وارڈرز کو اپنے ذاتی کاموں میں مصروف رکھتا ہے۔
المختصر محکمہ جیل خانہ جات کی کرپشن کاآغاز جیلروں کی ٹرانسفر پوسٹنگ سے شروع ہوتا ہے اور نچلی سطح تک یہ کرپشن وارڈر تک پہنچتی ہے۔ دُنیا بھر میں جیلیں احساس نوعیت کی حامل ہوتی ہیں ۔

اگر واقعی ہی جیلوں میں قید مجرموں کو دوبارہ معاشرے کے لیے مفید بنا کر واپس معاشرتی زندگی کی دوڑ میں شامل کرنا ہے تو پھر ہر دوسرے تیسرے ہفتے افسران کے فوٹو سیشن والے جیل خانہ جات کے لاحاصل وزٹ کو بہتر بنا کر سخت ڈسپلن قائم کرنا ہوگا اور مجرموں کے ہمراہ کرپٹ سرکاری اہلکاروں کو بھی جرم کرپشن پرپھانسی پر لٹکانا ہوگا ورنہ جیلیں اصلاح کی بجائے مجرم بنانے والی ترتیب گاہیں بنی رہیں گی۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :