گلیاں ہوجان سنجیاں تے وچ مرزا یار پھرے

پیر 13 اپریل 2020

Muhammad Zia Ul Hassan

محمد ضیاء الحسن

بچپن میں جب یہ سنتا تھا کہ "گلیاں ہوجان سنجیاں تے وچ مرزا یار پھرے" تو اس وقت سنجیاں کی بجائے سنیاں اور سنیاں سے ویرانی اور ویرانی سے موسم گرما میں سورج کی تیز دھوپ سے دہکتی دوپہر میں  اپنے گاؤں کی گلیاں ذہن میں آتی تھیں۔ اس وقت گاؤں کے سارے لوگ اپنے اپنے گھروں میں آرام کررہے ہوتے یا ٹیلی ویژن دیکھ رہے ہوتے تو باہر ویران گلیوں میں تیز دھوپ ڈیرا ڈالے دہشت بیٹھا رہی ہوتی تھی۔

اس دور میں گھروں میں کمروں کے آگے برآندے ہوا کرتے تھے، جن کے دروازوں پر سرکیاں لٹکا دی جاتی تھیں تاکہ گرمی اور سردی دونوں میں موسمی شدت سے بچا جا سکے۔گرمیوں کی دوپہر میں اگر گھر سے باہر نکلنا مقصود ہوتا تو ٹھنڈے پانی سے بھگوئے رومال سے چہرا اور سر ڈھانپ لیا جاتا تھا تاکہ سورج کی لو سے محفوظ رہیں۔

(جاری ہے)


 آج کئی سالوں کے بعد کسی کی زبان سے یہ سنا کہ "گلیاں ہوجان سنجیاں تے وچ مرزا یار پھرے" تو اپنا بچپن پھر یاد آگیا۔

آج پرانی یادوں کے ساتھ دل تیزی سے دھڑکنے لگا کیوں کہ آج کی سنسان گلیاں بچپن سے مختلف ہیں۔گلیوں کی ویرانی کی وجہ نا تو موسمی شدت ہے اور نا ہی بچپن کا ڈر کہ "باہر جاؤ گے تو پکڑنے والا اٹھا لے گا"۔ آج ویرانی اور ڈر ذیادہ خوف ناک ہے۔ آج گلیاں، بازار، شہر اور ملک حتی کہ ساری دنیا سنسان ہوچکی ہے۔آج تو وہ بھی گھروں میں مقید ہیں جن کے خوف سے بچے گھروں سے باہر قدم نا رکھتے تھے۔


آج کی سنسان گلیوں میں پھرنے والا مرزا کوئی عاشق نہیں ہے جو اپنی صاحبہ کی تلاش میں گھوم پھر رہا ہے۔ان سنسان گلیوں میں پھرنے والے مرزے کا نام کرونا ہے۔جو کسی راہگیر سے اپنی صاحبہ کا پتہ نہیں پوچھتا بلکہ یہ ایک ٹھرکی وائرس ہے۔جس سے ملتا ہے اسی پہ عاشق ہو جاتا ہے۔اور تو اور اسے کسی دوسرے سے ملنے کے قابل نہیں چھوڑتا۔ اس مرزے (کرونا) کی ایک جھلک دیکھنے والا راہگیر دوسروں سے الگ تنہائی میں رہنے لگتا ہے اور اس پر عجیب و غریب کیفیت طاری ہو جاتی ہے۔

کچھ تو زندگی سے بیزار ہوکر سفر آخرت پہ نکل جاتے ہیں اور جو اپنے سفری اخراجات نا ہونے کے باعث اپنی کمیٹی نکلنے کا انتظار کرنے لگ جاتے ہیں وہ اس ٹھرکی وائرس سے کبھی نا ملنے کا عہد کرکے گھروں میں ہی قید ہوجاتے ہیں۔
یہ مرزا سیاحت کا شوقین ہے۔ اس نے پیدل اپنے سفر کا آغاز چین سے کیا اور چند ماہ میں ہی یہ ایران، سپین، اٹلی، برطانیہ اور امریکہ سمیت دنیا کا کونا کونا دیکھ چکا ہے۔

رستے میں جس سے بھی ملتا ہے اپنی ہوس بھری نگاہوں سے اسے کہیں کا نہیں چھوڑتا۔یہ تو بڑا ہی منحوس عاشق ہے جس پر رحم کرنا خودکشی کے مترادف ہے۔ ساری دنیا دیکھنے کے بعد بھی یہ اپنا سفر ختم نہیں کررہا۔اس کی وجہ اس کی ہوس کا حد سے بڑھ جانا ہے۔
آج لوگ اس سے بچنے کے لیئے جہاں گھروں میں رہنے پر مجبور ہیں تو وہیں کئی مسائل بھی جنم لے رہے ہیں۔

جن میں بہت سے مسائل تو انتہائی خطرناک اور نا قابل فراموش ہیں۔لیکن میں چند غیر ضروری اور قابل فراموش مسائل کا ذکر کروں گا۔
جہاں لوگ گھروں میں مقید ہیں تو وہیں کرونا کے علاوہ دو نامناسب مسائل خطرے کی گھنٹی تھامے ہوئے ہیں۔
ماہر نجومیات کی رپورٹ کے مطابق گھروں میں لوگوں کے پاس کرنے کو کچھ نہیں ہے جس کے نتیجے میں ایک سال کے بعد دنیا کی آبادی میں ایک تہائی اضافہ متوقع ہے اور اگر ایسا ہوا تو خوراک، لباس اور مکان کی قلت ہو سکتی ہے۔

جبکہ ماہرین آثار قدیمہ نے پاکستانیوں کو نا گھبرانے کی نصیحت کرتے ہوئے کہا ہے کہ چونکہ ہمارا بھٹو زندہ ہے تو وہ مشکل میں خوراک، لباس اور مکان دینے کا عملی مظاہرہ کرے گا۔
البتہ دوسرا مسئلہ ذیادہ غیر سنجیدہ ہے اور وہ یہ ہے کہ جب آج کے مرزے یعنی کرونا کے پوری دنیا کی سیر کے دوران چلتے چلتے پاؤں سوزش کا شکار ہوجائیں گے اور تیز چلنے کی وجہ سے دھڑکن کی رفتار اس کی اپنی سپیڈ سے بڑھ جائے گی اور اسے دل کا دورہ پڑ جائے گا تو حرکت قلب بند ہونے سے یہ فوت ہوجائے گا تو لوگ گھروں کی قید سے خوش خوش باہر نکلیں گے تو مردوں کے ہاتھوں میں ان کا دیوان ہوگا (یعنی شاعری کی وہ کتاب جسے انہوں نے خود دوسری بار نا پڑھنے کا عہد کر رکھا ہوگا) اور ان کی بیویوں کے ہاتھوں میں ان کا مشترکہ دیوان ہوگا (یعنی وہ صاحبزادہ یا صاحبزادی جو ان فرصت کے لمحات کا نتیجہ ہوگا)۔

تب دونوں مسائل ان کے ساتھ چمٹے ہوں گے۔  پھر آباد شہروں میں قاری کم اور صاحب دیوان ذیادہ ہوں گے۔ ہم ان دونوں دیوانوں کے نامناسب تعداد میں ہونے کے متحمل نہیں ہوسکتے۔ خوف ناک چیز جو ان شعرا کا ہیئر اسٹائل ہوگا تو بالوں کے ساتھ لٹکتے شاعر کا دیدار ان مضبوط دل افراد (جو کرونا سے بچ جائیں گے) کے لیئے موت کے فرشتے سے کم ثابت نہیں ہوگا۔
ہمارا حکومت سے مطالبہ ہے کہ تمام ملکی و غیر ملکی وسائل بروئے کار لاتے ہوئے کرونا نامی مرزے کو جلد از جلد ہلاک کیا جائے تاکہ ہماری عوام کو فرصت کے لمحات نا مل سکیں۔
کیونکہ پاکستان ذیادہ آبادی، بے وزن اشعار اور باوزن شعراء کا بوجھ نہیں اٹھا سکتا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :