قدرتی آفات اورہمارا کردار

منگل 5 مئی 2020

Muhammed Muzamel Haneef

محمد مزمل حنیف

کرہ ارض انواع اقسام کی نعمتوں اور وسائل سے مالا مال ہے ۔ان وسائل کے استعمال کو بہتر طوربروئے کار لانے کے لیے اللہ نے انسانوں  کو عقل و دانش کے زیور سے آراستہ کیا اور غور و فکر سے انکی تسخیر کی راہ سدھائی۔مختلف قبائل اور اقوام میں بٹی بنی نوع انسان نے ان وسائل کو تلاش کیا ، استعمال کے طریقے وضع کیے۔ جس سے اسکی زندگی میں سہولتوں کے در کھلے۔

اقوامِ عالم نے جوں جوں ترقی کی منازل طے کیں علم و عمل کی نئی جہتیں اپنا رستہ بناتی گیئں۔  ان دریچوں سے آنے والی روشنی نے  جہاں انسانی زندگی کی بقاء کےلیے نئی ایجادات کے دروازے کھولے وہیں قدرتی آفات  ووبائی امراض کی صورت میں انسانی جانوں کے ضیاع اور مالی نقصانات کو کم کرنے کے طریقہءکار وضع کیے۔

(جاری ہے)

جو ممالک زلزلوں اور  آتش فشاں پہاڑوں کی زد میں تھے انہوں نے ان قدرتی آفات کی صورت میں بحالی کے کاموں کا بہتر انتظام اور اسکے ساتھ ساتھ حفاظتی تعمیرات پر عمل درآمد کو یقینی بنایا۔

اور اسی طرح سیلابی اور سمندری طوفانوں سے نبردآزما ہونے کے لیے مربوط طریقہءکار اپنائے۔ ان انتظامات نے نہ صرف انسانی جانوں کے ضیاع کو روکا بلکہ معاشی استحکام میں اہم کردار  ادا کیا۔ قیامِ پاکستان سے ہی اس ملکِ خداداد نے نامساعد حالات اور مشکلات کا سامنا کیا۔ابتداء میں لاکھوں مہاجرین کی آباد کاری، سیلابوں اور جنگوں کی تباہ کاریاں یا پھر قدرتی آفات کا سامنا ہو ،  اس قوم نے بہادری اور بڑی پامردی سے مقابلہ کیا۔

وقت اور حالات نے کروٹ لی، حکومت اور عوام میں فاصلے بڑھے، تعاون اور معاونت کی جگہ مفاد پرستی اور لوٹ کھسوٹ نے جگہ بنائی۔ بڑھتی آبادی ، کم ہوتے وسائل اور نیتوں کے کھوٹ سہولیات کی کمی کا باعث ہوئے۔ وقت کے حکمران اور افسر شاہی کی ملی بھگت دستیاب وسائل کو نگلنے لگے، جن شعبہ جات میں دنیا کی رہنمائی کرنی تھی انکے لیے دنیا کے سامنے دستِ سوال دراز ہوئے۔

حکومتیں کشکول لیے عالمِ دنیا کے آگے اور عوام حکومت سے امداد کے منتظر۔خودی اور خوگری نادارد ہوئی۔قوم کی اکائی علاقائی تعصب کا شکار ہوئی اور کوئی مسیحا نہ میسر ہوا۔ طویل مدتی منصوبہ سازی کی بجائے قلیل عرصہ کے منصوبہ جات پر کام ہونے لگا۔ ان حالات کے باوجودکچھ شبعہ جات میں خاصی پیش رفت ہوئی۔ لیکن ہمارا المیہ ہی یہ رہا ہے کہ وقتی ضروریات کو مدِنظر رکھتے ہوئے اقدامات کیے گئے جو  دیرپا اثرات مرتب نہ کرسکے۔

جنکا خمیازہ پوری قوم کو بھگتنا پڑا۔ پاکستان نےقدرتی آفات میں سب سے زیادہ سیلاب اور زلزلوں کا سامنا کیا۔ حفاظتی بند کی مختص رقوم خالی جیبوں کو بھرتی رہیں اور انکے لیے منگوایا جانے والا پتھر  پانی کے بہاؤ میں بہہ جاتا رہا۔ اکتوبر 2005 کا زلزلہ آیا تو ہنگامی حالت میں پوری قوم اور اقوامِ عالم نے حکومتِ وقت کا بھرپور ساتھ دیا، لوگو ں کو مشکل حالات سے نکالا لیکن  اس میں بھی بحالی منتظمین کی ہوتی رہی اور حقدار راہ تکتے رہ گئے۔

ایرا کا ادارہ بنا کہ زلزلہ زدگان کی آبادکاری کی جاسکے، جو کام ہوا  فوری تھا مگر طویل مدتی منصوبہ سازی سے محروم۔ 2010 کے سیلاب نے  دو کروڑ کے قریب افراد براہ راست متاثر ہوۓ، معاشی بدحالی کو 4ارب ڈالر کامزید دھچکا لگا. انسانی جانوں کے ضیاع ، اثاثہ جات کی تباہی اور زراعت کی بدحالی کے ساتھ ساتھ انتظامی معاملات کی کمزوریاں بھی عیاں ہوئیں۔

نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کا ادارہ ضروری قانون سازی کے بعد تشکیل دیا گیا اور اسی تناظر میں صوبائی اور ضلعی سطح پر اتھارٹیز کا قیام عمل میں لایا گیا اور انکی ذمہ داریاں متعین کی گیئں۔ بجٹ مختص ہوئے، زبانی جمع خرچ کا چرچا ہوا۔ وقت گزرا اور یہ ادارے بھی اپنا جوبن نہ دیکھ پائے کہ 2014 اپنے جلو میں ایک بار پھر سیلابی تندو تیزی لیے ہوئے تباہی کا باعث بنا اور یہ ادارے اپنی استعداد سازی اور عدم توجہی کی وجہ سے حسنِ کارگردگی سے محروم رہے۔

اسی دوران سیلابی نقصانات سے نمٹنے کے لیے ہنگامی بنیادوں پر بحالی اور مدافعتی جہتوں پر کام کرنے کےمنصوبہ کے لیے ایشیائی ترقیاتی بنک نے قرضہ منظور کیا۔جس میں صوبائی ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی، پنجاب(پی ڈی ایم اے) کا حصہ 4.875 ملین ڈالر تھا۔ اسکے ساتھ ساتھ عالمی بینک کے منظور کردہ قرضہ میں سے  بھی 10.89 ملین ڈالر کی خطیر رقم ملی۔ جس کے تحت قدرتی آفات اور موسمیاتی تبدیلیوں کے تحت ہونے والے اثرات کے خلاف مدافعتی نظام کو منظم کیا جا سکے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ ان منصوبہ جات کے ذریعے  پی ڈی ایم اے نے جدید معلوماتی نظام وضع کیا اور استعداد کار میں اضافہ کے لیے مشینری اور آلات سے لیس کیا۔ لیکن مدافعتی نظام کو منظم کرنے کے لیے کو خاص کارکردگی کا مظاہرہ نہ کر سکے۔حالانکہ اس سلسلہ میں ماہر اداروں کی خدمات کروڑوں روپے کے عوض حاصل  کی گئیں۔  ان اداروں کی مرتب کردہ سفارشات پر پی ڈی ایم اے  کی تنظیمِ نو بھی نہیں کی گئی اور نہ ہی کیمیونٹی کی سطح پر مدافعتی نظام وضع کیا جا سکا، جس کے تحت عوام صلاحیتوں اور رجحانات کے مطابق ہنگامی حالات میں مقامی انتظامیہ کا دست و بازو بنتے۔

یہی وہ خلاء ہے کہ اگر اس پر کام ہوا ہوتا تو اسکے موجودہ صورتِحال میں بہتر نتائج حاصل ہوتے اور انتظامی اخراجات میں کمی بھی مشاہدے میں آتی۔ کرونا کی وبائی مرض کی وجہ سے پیدا شدہ ہنگامی حالات میں موجودہ حکومت اور انتظامیہ نے بڑی محنت اور خلوصِ نیت سے نبٹنے کی کاوشیں کی ہیں،جو کہ سراہے جانے کے قابل ہیں۔ لیکن اس  پر کام تب ہوا جب افتاد سر پر آن پڑی۔

بہتر منصوبہ بندی اور وقت سے پہلے کی تیاری ہمیں گھمبیر معاشی مسا ئل سے بچا سکتی تھی۔ جیسا کہ کہا جاتا ہے  ہر خطرہ اپنے جلو میں نئے مواقع بھی لے کر آتا ہے۔ اسی طرح  موجودہ  ہنگامی صورتِحال اس بات کی متقاضی ہے کہ ہم اپنی صلاحیتوں کو کسی بھی طرح کی آفات کے ذریعے پیدا ہو جانے والے حالات کو بحثیت قوم منظم طریقے سے نبرد آزما ہوسکیں۔ اسکے لیے سب سے ضروری امر ہمارے پاس تربیت یافتہ افراد کا ہونا ہے۔

جو کہ عوام کی شمولیت اور حکومتی معاونت سے ہی ممکن ہے۔  اس سلسلہ  میں احساس پروگرام کے ذریعے ایک کروڑ بیس لاکھ گھرانوں  میںکرونا کی وجہ سے لاک ڈاؤن کے دوران راشن کےحصول کے لیے بارہ ہزار فی خاندان رقم کی تقسیم کے پروگرام کے انعقاد پر حکومت خاص طور پر ڈاکٹر ثانیہ نشتر صاحبہ اور انکی ٹیم کی کاوشیں قابلِ تحسین ہیں، گو کہ پروگرام پر عمل درآمد کے دوران کچھ کمیاں کوتاہیاں بھی مشاہدے میں آئی ہیں۔

لیکن اتنے کم عرصے میں ایسا قومی پروگرام شروع کرنا انتھک محنت کا مظہر ہے۔تاہم طویل مدتی اقدامات میں مقا می سطح پر رضا کاروں کی نشاندہی، رجسٹریشن، تربیت اور رابطہ کاری کی جائےاورقلیل مدتی اقدامات میں عوام الناس کی معاشی بحالی اور ملکی معشیت کا پہیہ چلانے کے لیے گھریلو صنعت سازی کو فروغ دیا جائے، نقد رقوم سے گریز اور بلا واسطہ زیادہ  سے زیادہ آسانیاں اور کم لاگت پہ خام مال کی فراہمی کو یقینی بنایا جائےتاکہ لاگت میں کمی کا سبب بنے اور پیداواری صلاحیت میں اضافہ ہو۔

اور اسکے ساتھ ساتھ سماجی فاصلے برقرار رکھتے ہوئے کاروباری سرگرمیان جاری رہیں۔اسی طرح زراعت کو بحال کرنے کے لیے ساڑھے بارہ ایکڑ یا اس سے کم رقبہ کے زمینداروں اور کسانوں کو کاشت کاری کے لیے درکار بیج، کھاد، بجلی وغیرہ ارزاں قیمت پر مہیا کرکے انکو اپنے پاؤں پر کھڑا کیا جائے لیکن انکو بھی نقد رقوم دینے سے احتیاط برتی جائے۔ اللہ ہم سب کا حامی و ناصر ہو! آمین۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :