وادی کالام کا سفر‎

پیر 1 فروری 2021

Mujahid Khan Tarangzai

مجاہد خان ترنگزئی

میرا شیڈول اکثر انتہائی مصروف رہتا ہے، اور اسی مصروف شیڈول کی وجہ سے اکثر کہی باہر جانا مشکل ہوتا ہے۔ بندہ جب پروفیشنل  اور عملی لائف میں داخل ہوتا ہے تو ذمہ داریوں کے بوجھ سے بہت سے جائز خواہشات کو بھی دفناتا ہے۔ میرے شیڈول میں سب سے اہم اور اولین ذمہ داری دینی وقرآنی خدمت ہے، جس کو میں نے اپنی زندگی وقف کررکھی ہے۔ روزانہ درس قرآن پڑھانے کی وجہ سے اکثر جب دن میں کہی جانا بھی ہوں تو مغرب تک لازمی واپس پہنچ جاتا ہوں، تاکہ جو تشنگانِ دین وقرآن اور اللہ کے مہمان طلباء کرام میرے پاس قرآن پڑھنے کیلئے آتے ہیں تو اُس کی بے قدری نہ ہوں اور کہی ذمہ داری میں کوتاہی کا مرتکب نہ ٹھہروں۔


بہر حال میرے دینی لائحہ عمل میں آؤٹنگ کے لیئے بھی وقت مقرر ہوتا ہے۔

(جاری ہے)

جو کہ مخلص قرآنی ساتھیوں کے ساتھ سال میں ایک دوبارموقع مل جاتا ہے۔ گزشتہ ویکینڈ بھی ساتھیوں نے سردیوں کے موسم کی آؤٹنگ سیٹ کی ہوئی تھی، تو مجھے اُنھوں نے بتایا کہ آپ تھوڑا وقت نکال کر ہمارے ساتھ لازمی جائے گے۔ بہرحال ساتھیوں کی دلجوئی اور اپنی مصروف ٹائم ٹیبل سے ایک ویکینڈ آؤٹنگ کے لیئے مختص کیا اور ہم پانچ ساتھی وادئ کالام کی طرف سفر کے مسنون دعاؤں کے ساتھ عازم سفر ہوئے۔


ہمارے سفر کا طریقہ کار یہ ہوتا ہے کہ فجر نماز کے فوراً بعد ہم روانہ ہوجاتے ہیں تاکہ راستے کے رش سے بچ جائے اور اپنے منزل مقصود کو آرام سے بروقت پہنچ جائے۔ صبح 7 بجے پشاور سے ہم نکلے تو تقریباً  11 بجے ہم بحرین میں موجود تھے۔ بحرین میں دوپہر کا کھانا کھایا، نماز پڑھی اور پھر وادئ کالام کی طرف روانہ ہوئے ۔ہمارے اسفار میں نماز باجماعت کا خصوصی اہتمام کیا جاتا ہے اور شرعی اعتبار سے جائز مذاح و خوشی کے لمحات کا بھر پور انداز سے اظہار بھی کرتے ہیں۔


ہمارے سفر کا مقصد سیروا فی الارض پر بناء ہوتا ہے جو کہ قرآن کریم میں مذکور ہے۔ سیر وسیاحت جائز مقاصد اور جائز طریقہ پر نہ صرف درست بلکہ قرآن کریم کے متعدد آیات میں اس کا حکم دیا گیا ہے۔ نئے مقامات کی دریافت، فرحت انگیزمناظر، بلند وبالا عمارات، آثا ر قدیمہ اور تہذیبوں کے مدفن کے کھنڈرات کے مشاہدہ اور مقدس اماکن کی زیارت کا داعیہ فطری ہے۔

  اس سے انسان کے تجربات میں اضافہ ہوتا ہے بہت کچھ سیکھنے کو ملتا ہے۔ اسی جذبے کے تحت سیر وسیاحت کا ہر زمانہ میں رواج رہا ہے بہت سے علماء ومحققین اور دانشوروں نے سیر وسیاحت سے حاصل تجربات کو دوسروں تک پہنچانے کا بھی بیٹرااُٹھایا۔اس طرح ایک مستقل فن ”سفر ناموں“ اور ”رحلات“ کی شکل میں سامنے آیا۔ دنیا انہی سفر ناموں اور رحلات کے ذریعہ ان تاریخی اسرار ورموز، تہذیب وتمدن اقوام و ملل کے رسم رواج، مختلف ممالک کے باشندوں کی زندگی کے حالات اور تجربات وغیرہ سے روشناس ہوئی۔

ابن بطوطہ، ابن حُوقل اور حکیم ناصر شاہ خسرو مسلمانوں میں شہرہ آفاق سیاح گزرے ہیں۔
جس دن ہم روانہ ہوئے تھے، اسی رات کو کالام میں برف باری بھی ہوئی تھی اور جو بھی گاڑی راستے میں ملتی تو اس کے چھت پر برف پڑی نظر آتی۔ تقریباً دو بجے ہم کالام پہنچ گئے۔ حکومت نے کالام روڈ کو تعمیر کیا ہے لیکن جگہ جگہ جو پُل ہے وہ ویسے ہی ویسے کچے پڑے ہیں جس کی وجہ سے گاڑیوں کی بعض اوقات لمبی قطاریں لگ جاتی ہے۔

اور وہ پُل بھی اتنا کچا اور تنگ کہ دوسرے گاڑی کے گزرے کی گنجائش نہیں رہتی اور خدانخواستہ سلائڈنگ کی صورت میں راستہ منقطع ہونے کا خطرہ بھی بر قرار رہتا ہے۔ مقامی لوگوں اور سیاحوں کے مطابق سوات بحرین کالام روڈ تعمیر ہوا لیکن حکومت نے روڈ پر 12 پلوں کے ٹینڈرز منسوخ کرکے اب بھی لوگوں کا جینا حرام کر رکھا ہے، بعض اوقات اسی پلوں کی وجہ سے ٹریفک جام ہوجاتا ہے اور منٹوں کا راستہ گھنٹوں میں طے کرنا پڑتا ہے۔

حکومت کو چاہئے کہ باقی ماندہ کام کو جلد از جلد مکمل کریں تاکہ سیاح بغیر کسی تکلیف ورکاؤٹ کے سفر کریں۔
کالام میں داخل ہونے سے چند کلومیٹر پہلے تمام وادی نے سفید چادر اوڑھ رکھی تھی اور رات کے برف باری کا تازہ برف سورج کے روشنی کی وجہ سے انتہائی شفاف اور چمکیلے موتیوں کی طرح آنکھوں کو چندھیا کررہے تھے۔ ساتھیوں نے گاڑی روک کر چند منٹ برف میں خوب موج مستی کی اور لطف حاصل کیا۔

کالام پہنچتے ہی وہ نظارہ قابل دید تھا کہ ہر طرف برف ہی برف تھا اور پہلی بار جب کوئی جاتا ہے تو وہ اللہ کے قدرت کے نظاروں کو ہکابکاحیران رہ جاتا ہے کہ کہ خواب تو نہیں دیکھ رہا۔ ہم نے اول جلدی سے ہوٹل کا کمرہ بُک کیا عصر کی نماز پڑھی اور تھوڑی دیر آرام کے بعد اندھیرے سے پہلے پہلے گھومنے کیلئے نکلے تو کالام کے بازار سے آگے مٹلتان کی طرف جاتے ہوئے ایک جنگل اور کھلا میدان آتا ہے جہاں ہم نے عجیب نظارے دیکھے، جنگل کئی فٹ تک سفید برف سے بھرا تھا اور میدان نے تو پورا سفید قالین اوڑھ رکھاتھا۔

جسمیں سیاحوں نے جگہ جگہ آگ لگائی تھی اور اپنے موج مستیوں میں مصروف تھے۔ بہر حال اندھیرہ لگنے سے پہلے پہلے ہم ہوٹل واپس آگئے۔ مغرب کی نماز پڑھی اور کھانے کا بندوبست کرنے لگے۔ ساتھیوں نے خود بہترین سالن تیار کیا،کھانا کھایا اور عشاء کے نماز کے فورا ً بعد سوگئے۔ کل صبح اُٹھے تو فجر نماز کے بعد باہر گاڑی کی طرف بڑھے تو رات کو انتہائی سردی کی وجہ سے درجہ حرارت منفی میں چلی گئی تھی اور گاڑیوں کے ریڈئیٹر میں پانی تک کو جام کیا ہوتا تھا۔

ہماری گاڑی بھی جام تھی اور اسٹارٹ نہیں ہورہی تھی کیونکہ واٹرباڈی کے پائپوں میں پانی برف کی شکل میں جم گئی تھی۔ بہرحال سورج نکلا تو اول ہم نے گاڑی کو سورج کے دھوپ میں کھڑا کیا کہ شائد برف پائپوں میں پگھل جائے۔ مگر وہ پگھلنے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی۔
بہرحال ایک گھنٹے کے بعد ایک آئیڈیا ساتھیوں نے سوچا کہ گرم پانی پائپ پر ڈالا جائے تو یہ برف پگھل جائے گی۔

یہی ترکیب سودمند رہی اور چند منٹ بعد پانی مائع ہوکر ریڈئیٹر بحال ہوا تو گاڑی اسٹارٹ ہوئی۔کالام میں اس طرح موسم میں جانے والے حضرات یہ طریقہ یاد رکھے۔ اگر چہ کچھ لوگوں سے سُناکہ گاڑی میں اگر کمپنی کا پانی ہوں تو وہ جمتا نہیں، لیکن ایک ساتھی کے گاڑی میں وہی پانی بھی جم گیا تھا۔ بہرحال دو، تین گھنٹے کالام میں پھر گھومے اور واپسی کرتے ہوئے پشاور کیلئے عازم سفر ہوئے۔


سوات کے سفر میں ایک اور چیز ہم نے نوٹ کی جو ڈرائیور حضرات کیلئے مفید ہوگی۔ سوات میں ڈرائیونگ کرناانتہائی حساس ہے، روڈ تنگ او سنگل ہے اور وہاں کے مقامی اکثر لوگ بہت تیز ڈرائیونگ کرتے اور عجیب اور ٹیکنگ کرتے ہیں۔تو باہر کے ڈرائیور کو اس چیز کا پتہ ہونا چاہیئے۔
کیونکہ ڈرائیونگ کے حوالے سے ہم نے اکثر سُنا ہے کہ ڈرائیور حضرات دوسروں کو بے وقوف تصور کریں گے اور خود کو عقل مند تو تب محتاط ڈرائیونگ ہوسکتی ہے، ورنہ بندہ حادثے سے دوچار ہوجاتا ہے۔


سوات کے اکثر ڈرائیور حضرات میں ایک بات یہ بھی ہے کہ گاڑی موڑتے وقت پہلے سے انڈیکیٹر نہیں لگاتے بلکہ جونہی موڑتے ہے تو انڈکیٹر لگاتے ہے، اس بے احتیاطی کی وجہ سے اکثر حادثات رونما ہوتے ہیں اور راستے میں ہم نے 3حادثات خود دیکھیں، جو اسی وجہ سے پیش آئے تھے۔ تو چاہیئے کہ ڈرائیور حضرات موڑنے سے کچھ فاصلے پر انڈیکیٹر لگائے تاکہ پیچھے والے گاڑیوں کو آگاہی ملے تو وہ اِن سے فاصلہ رکھے گے۔ رات تقریباً 8:30 بجے ہم گھر پہنچ گئے تو اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا کہ ہماری سفر خیر و عافیت سے ہوئی۔ اس ایک رات اور دو دنوں کے سفر نے ہمیں زندگی کے مزید تجربات سے ملوادیا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :