زینب کاسفاکانہ قتل ایک لمحہ فکریہ

جمعہ 12 جنوری 2018

Mumtaz Amir Ranjha

ممتاز امیر رانجھا

ہم بحیثیت ایک کامیاب مسلم معاشرہ کے طور پر اپنے آپکومنوانے میں ناکام ہیں۔اس بات کا احساس زینب جیسی ننھی کلی کے مرجھا جانے کے بعدبخوبی دیکھا اور سمجھا جا سکتا ہے۔یہ غلیظکام کرنے والا ضرور ایک درندہ صفت انسان ہو گا جس کو پکڑ کر عبرت ناک سزادینا حکومت اور پولیس کا کام بنتا ہے۔پورے کا پورا ملک سوگ میں مبتلا ہے۔حقیقت میں جب بچی اغواء ہوئی تب سے پولیس کو حرکت میں آ جانا چاپیئے تھا۔

افسوس صد افسوس پنجاب پولیس سے غفلت ہوئی ،ملزم کو گرفتار کر کے بچی کو زندہ بازیاب نہیں کرایا جا سکا۔ایسی بچی جو قرآنی تعلیمات سے آراستہ ہونے گئی تھی اس کی لاش کوڑے کرکٹ کے ڈھیر سے ملنا ہم سب کے منہ پر ایک بہت بڑا طمانچہ ہے۔ہم اس معصوم بچی کی لاش کو ڈھیر پر دیکھ کر کب چین سے سو سکیں گے۔

(جاری ہے)

والدین کو کب راحت اور انصاف ملے گا؟ یہ سب سوالیہ نشان ہیں جس کا جواب بہر حال پنجاب پولیس کو دینا ہوگا۔

زینب کے ساتھ چلنے والے شخص کی ویڈیو دیکھ کر بظاہر یہی لگتا ہے کہ اس ظالم نے یا تو زینب سے رفتہ رفتہ واقفیت پیدا کی اور پھر موقع واردات دیکھ کر اس نے وحشیانہ کام کیا۔یا ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ یہ قاتل انہی کی فیملی میں سے کوئی دور کا رشتہ دار یا جاننے والا ہو جس نے زینب کا اعتماد حاصل کر کے اسے اغواء کر لیا۔اللہ کرے کہ یہ وحشی درندہ جلد پکڑا جائے اور اپنے انجام کو پہنچے مگر بطور معاشرہ ہمیں اپنے گریبان میں جھانکنا ہو گا اور آئندہ طور پر بہت زیادہ محتاط طریقہ سے ایسے بد کردار انسانوں کے خاتمہ کے لئے محکمہ پولیس کی مدد کرنا ہو گی۔

اگرچہ بچی کے والدین عمرہ جیسے نیک فریضے کی ادائیگی پر تھے لیکن گھر میں موجود باقی افراد کی غفلت بھی اس واقعے کا سبب بنی۔
یہ بات ٹھیک ہے ایسے معاملات پر ہر حساس دل رکھنے والا انسان پریشان ہوتا ہے اور قصور کے لوگ اپنا احتجاج ریکارڈ کرانے سڑکوں پر آ گئے۔یہاں تک تو ٹھیک تھا ،لیکن پھر اس احتجاج کو بھی غلط طریقے سے کنٹرول کیا گیایہاں بھی ”مِس ہینڈلنگ“ کی گئی،مظاہرین پر پولیس کی طرف سے فائرنگ کرنا بھی بے وقوفی ہے۔

اس سے پہلے جناب طاہرا لقادردی کی طرف سے سیاسی جتھے بنانااور پولیس کی طرف سے فائرنگ کرنے والا معاملہ ٹھپ نہ ہوا تھا کہ سانحہ قصور میں ننھی پری زینت کی موت کے بعد پولیس نے پھر اپنا نابالغ رویہ دکھا یا جس کی وجہ سے مزید پریشان کن صورت حال پیدا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
ہم بھی بچوں والے ہیں ہمارا دل بھی تمام پاکستانیوں کی طرح کرتا ہے کہ ہم قاتل کو خود سزا دیں لیکن یہ ساری ذمہ داری پولیس،انتظامیہ اور قانون کی ہے۔

ہمارے معاشرے میں یہی خرابی ہے کہ ہم لوگ حادثہ ہو جانے کے بعد جاگتے ہیں ورنہ تو ہم سب کو ہر وقت جاگتے رہنا چاہیئے۔حقیقت میں نہ تو والدین ہر وقت بچوں کی گھر سے باہر نگرا نی کر سکتے ہیں اور نہ ہی ان کو گھر کے قرب و جوار لانے لے جانے کی سہولیات دے سکتے ہیں۔گلی محلے میں موجود تمام افراد کو اپنے ارد گرد رہنے والے افراد کی سر گرمیوں پر نظر رکھنی چاہیئے۔

اگر کسی کو معمولی سا بھی شک ہو کہ فلاں شخص دہشت گرد یا زنا خور ہو سکتا ہے تو فوراً ہی ایسے فرد کو پکڑوانے کے لئے محلے کے معزز نمازی حضرات سے رابطہ کریں اور افراد ایسے فرد کو حوالہ پولیس کریں۔اس کے بعد پولیس کے لئے بہت ضرور ی ہے کہ وہ بغیر کسی طمع لالچ کے مشکوک افراد کو بمعہ ثبوت تھانے یا کورٹ میں پیش کر کے سزا دلوائیں۔ہمارے معاشرے میں کچھ ایسا الٹ ہوتا ہے جس کا بتانا ضروری ہے ۔

ہم سارے مشکوک ،ملزم یا زنا خور فرد کو دیکھ کر اپنی عزت بچانے کے چکر میں پڑ جاتے ہیں۔سب سوچتے ہیں چھوڑو یار ہمیں اس معاملے میں پڑنے کی کیا ضرورت ہے،یا ہمارے پا س وقت نہیں،یا ہم کہتے ہیں دفع کرو جب دوسراکوئی اس کو نہیں پکڑتا تو بھلا ہمیں کیا ضرورت ہے،چھوڑو جی پولیس کو بتایا تو وہ رشوت لیکر چھوڑ دیں گے وغیرہ وغیرہ۔حالانکہ اس وجہ سے جرائم کی تعداد میں مزید اضافہ ہوتا ہے۔


یہ مسئلہ حکومتی سطح کا ہے لیکن بطور معاشرہ ہم سارے بھی اپنی ذمہ داریاں نبھانے سے قاصر ہیں۔ مقتول زینب کی طرح نجانے ہر روز پاکستان میں کتنی معصوم جانیں ٹھکانے لگائی جاتی ہیں، یہ تو ایک ایسی بات ہے جس پر ہر کسی کو نوٹس لینے کی ضرورت ہے۔سب سے پہلے والدین کو اپنے بچوں کی تربیت سے اس طرح توجہ دینی ہو گی جیسے ہم بچوں کے سکول اور ٹیوشن پر ٹائم لگاتے ہیں۔

گھر میں دیندارانہ ماحول بہت ضروری ہے،سب کو اپنے بچی بچوں کو نماز اور قرآن پاک سے پیوست رکھنے کی ضرورت ہے۔جب والدین گھر میں باقاعدہ پنجگانہ نماز کو وقت دیں گے تو اس وجہ سے ان کے بچے بھی اس فرض کو ادا کرنے میں خدانخواستہ غفلت محسوس نہیں کریں گے۔عین اسلامی تعلیمات کے مطابق ہمیں اپنے بچوں کو بالغ ہونے پر اپنے کمروں میں علیحدہ کر دینا چاہیئے ،کیونکہ اگر ہم زندگی میں دینی تعلیمات سے دور اختیار کریں گے تو اس کے دورس اثرات سامنے آئیں گے۔

بچوں کی بروقت شادیاں کر دینی چاہیں۔عورتوں کو پردے کا اہتمام کرنا چاہیئے،فیشن سے دوری اور بے حیائی سے چھٹکار ا بھی اس کا حل ہے۔گھروں بازاروں اور محلوں میں دس دس روپے لیکر فحش ویڈیو دکھانے والوں کی سر کوبی ضروری ہے او ر یہ بھی ضروری ہے کہ انٹرنیٹ کے استعمال کے وقت گھروں میں بچے بچیوں کی نگرانی کی جائے اور انہیں مثبت انٹرنیٹ استعمال کرنے کی تلقین کی جائے۔


زینب ہو یا کوئی بچی،بچے بچیاں سب کے سانجھے ہوتے ہیں۔بچے ہوں تو ہی بڑے ہوتے ہیں۔گھر میں کوئی چھوٹا ہو یا بڑا سب کی زندگی اور عزت کی اہمیت بہت زیادہ ہے۔عام آدمی ہو یا کوئی خاص،زینب ہو،بختاور بھٹو ہو یا مر یم نواز سب کی عزت سانجھی ہے۔ضرورت ہے کہ ہم سب ملکر ایک بہترین اور اسلامی معاشر ے کی بنیاد رکھیں۔حکومت کو پولیس کی بہترین تربیت کی بھی اشد ضرورت ہے۔

پولیس کو ایماندار،محنتی اور ذمہ دارہو نا چاہیئے،صرف وردیاں تبدیل ہونے سے ذہن کہاں تبدیل ہو تے ہیں۔ملک میں توڑ پھوڑ،جلسے جلوس اور دھرنے ملکی استحکام کو نقصان پہنچاتے ہیں۔یاد رکھیں لیبیا جیسے ممالک میں اسی طرح کی بد امنی پھیلائی گئی اور پھر پورا ملک تباہ ہو گیا۔اب بھی وقت ہے کہ ہم بد امنی اور خراب حالات سے بچنے کی ہر ممکنہ کوشش کریں۔جتنا ہو سکے ہم اپنے بچوں اور نوجوانوں کی عزت و عصمت کا خیال رکھیں۔
ہم بحیثیت ایک کامیاب مسلم معاشرہ کے طور پر اپنے آپکومنوانے میں ناکام ہیں۔اس بات کا احساس زینب جیسی ننھی کلی کے مرجھا جانے کے بعدبخوبی دیکھا اور سمجھا جا سکتا ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :